ابہام کی دھند میں لپٹے واقعات


نائن الیون کے بعد دیس غریباں میں دہشت گرد حملوں کا شروع ہونے والا سیزن ہنوز ختم نہیں ہواہے۔ یوں تو اس دیس کے اکثر بڑے شہر ان حملوں کی زد سے بچ نہ سکے لیکن بدقسمت فاٹا اور خیبر پختونخوا ایسے لرزہ خیز حملوں کا ایپی سنٹر Epi centre)) رہے۔ دوسرے نمبر پر پسماندہ بلوچستان کے دارالخلافہ کو اس حدتک گھائل کر دیا کہ ہزارہ برادری کے جلوسوں میں بپا ہونے والی قیامتوں کے علاوہ یہاں کے وکلا اور پولیس کیڈٹس کی پوری پوری کھیپ شہید کر دی گئی۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ ضرب عضب جیسے ٹارگٹڈ آپریشن کے علاوہ بھی یہ حملے رکنے میں نہیں آ رہے، گزشتہ دنوں مستونگ میں جے یو آئی کے رہنما اور ایوان بالا کے نائب چیئرمین مولانا حیدری کے قافلے پر ہونے والا حملہ امسال ہونے والے اندوہ ناک واقعات میں سے ایک ہے۔ مستونگ حملے کو بمشکل بیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ گوادر میں سڑک کی تعمیر میں مصروف دس مزدوروں کی شہادت کی خبر آئی ، جس کے قاتل بھی معمول کی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ دہشت گردی کے ایسے حملوں میں اپنے پیارے کھو نے کے بعد شہدا کے ورثا اور ان کے بہی خواہوں کو دوسرے مرحلے میں ’ابہام اور اشتباہ‘ کی صورت میں ایک اور کرب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بقول منیر نیازی۔

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

وہ یہ کہ جائے واردات سے شہدا کی لاشیں وصول کرنے کے بعد یہ پتا نہیں چلتا کہ واردات ایک شقی القلب خودکش کا کارنامہ تھا یا پھر سڑک کے کنارے کھڑی کسی کار یا سائیکل میں نصب بارودی مواد نے ایسی شرارت کی ہے یا پھر ایسا یقین (جسے شک کا تڑکا لگا ہو) کے فوراً بعد ہماری مہربان سرکار کے دعوے شروع ہو جاتے ہیں۔ وزرا کے چیف صاحب کو اس حملے کے پیچھے غیبی طور پر ہندی ’را‘ کا ہاتھ نظر آتا ہے تو داخلہ کے وزیر صاحب اسے فوری طور این ڈی ایس کی بزدلانہ کارروائی کہہ کر طمانیت قلب حاصل کر لیتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو اور احسان اللہ احسان کا پھر بھی بھلا ہو جنہوں نے ہماری سرکار کے مردہ دعووں اور نیم جان دلائل میں ایک حد تک جاں ڈال کر اس پرکچھ حد تک مہر ایقان ثبت کر دی ہے ورنہ معلوم نہیں کہ محروم خاندانوں پر مزید کیا گزرتی؟ بے شک دہشت گردوں کے مظالم کی بھینٹ چڑھنے والے ان ہزاروں شہدا کے لواحقین کے زخم مہینوں میں نہیں، سال دو میں تو مندمل ہو جاتے ہیں لیکن قاتلوں کے بارے میں پائے جانے والے اشتباہات ان بے چاروں کے زخموں کو تادم مرگ کریدتے رہیں گے۔

دیس عزیز کے قیام کو بمشکل چار سال نہیں گزرے تھے کہ ہمارے ہاں ایسے خونخوار واقعات کے اردگرد ’ابہامات ، اشتباہات اورمستور الحالی کی دھند منڈلانا شروع ہو گئی تھی جو ہنوز برقرار ہے۔ لیاقت علی خان ملک کے وہ پہلے وزیراعظم تھے جن کا قتل بظاہر اکبر نامی ایک سرپھرے کی کارستانی تھی جو آج کل کے خودکش حملہ آوروں کی طرح تو ڈھیر کر دیا گیا لیکن پیچھے ابہام کے سات پردوں میں ایک ایسی داستان چھوڑ گیا جو سڑسٹھ برس بعد بھی کشف نہیں ہوئی ۔ اسی طرح ڈھاکہ کو ساقط کرنے کا سہرا بے شک ہندی سرکار نے اپنی فوج کے سر باندھ لیا یا پھر مکتی باہنی اور مجیب الرحمان کی بھارت نوازی سب برمحل، لیکن اس سقوط کے اصل محرکات کیا تھے، سامنے نہیں لائے گئے۔ جن طالع آزماﺅں کے چہروں سے پردہ اٹھانے کی کوشش حمود الرحمان کمیشن کر رہا تھا ، اس کے کچھ حصے تاخیر کے ساتھ ضرور سامنے آئے لیکن ہزاروں صفحات پر مشتمل مکمل رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔ اوجڑی کیمپ واقعے کو لے لیں جو دس اپریل 1988ء میں جڑواں شہروں کے بیچ رونما ہوا، تیس ہزار کے لگ بھگ راکٹس، ملین کے حساب سے راﺅنڈز آف ایمنیشن ، ایک بڑی تعداد میں ایئرکرافٹ سٹنگر میزائل اور اینٹی ٹینک میزائلوں کو کس نے ماچس کی تیلی لگا کر قیامت برپا کر دی ؟ کہنے کو تو چند افراد کی ہلاکت کی اطلاعات تھیں لیکن حقیقت میں سو کے قریب بے گناہ افراد بشمول اس وقت کے وفاقی وزیر خاقان عباسی بھی اس میں شہید ہوئے۔

محمد خان جونیجو اس وقت وزیر اعظم تھے جنہوں نے دو روز بعد اپنے تئیں واقعے کی انکوائری کیلئے راولپنڈی کورکمانڈر جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی (بشمول چند پارلیمانی وزرا ) تشکیل دی لیکن اسے پبلک کرنے سے چند دن پہلے مرحوم ضیا صاحب نے انہیں گھر بھیج کر ایسا نہیں کرنے دیا کیونکہ مرحوم جنرل اس ابہام کو انکشاف میں تبدیل کرنے کے لئے اپنی مرضی کے تحقیق کار وں کی مدد لینا چاہتے تھے جو شاید جونیجو مرحوم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کے ممبران کے مقابلے میں زیادہ ماہر تھے۔ اور پھر اسی کیمپ کے واقعے کو پس منظر میں دھکیلنے والے خود ایسے غیبی ہاتھوں کی مدد سے فضا سے ابہام کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے کہ تادم تحریر اس بارے میں بھی ٹھوس حقائق سامنے نہیں آئے ہیں۔ بعد میں اس نوعیت کے کئی دیگر جزوی واقعات بھی رونما ہوتے رہے یہاں تک کہ میاں صاحب کی دوسری حکومت کے دوران ایک مرتبہ پھر قوم کو کارگل ایڈونچر کی شکل میں ایک پردہ پوش کہانی کا تحفہ ملتا ہے، واعلم اللہ باالثواب۔

شک اور ابہام کی ایسی ہی کیفیات سے گزرتے ہوئے ہم ایک مرتبہ پھر لیاقت باغ پہنچتے ہیں جہاں دس سال قبل دختر بھٹو بے نظیر بھٹو کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا لیکن گاڑی کے سن روف لیور اور دہشت گرد کی پستول سے نکلنے والی گولی میں بھی ایک لمبے عرصے فرق عنقا رہا کہ ان کی موت کا ذمے دار لیور تھا یا پھر گولی ؟ اگر گولی تھی تو اس کے پیچھے ہاتھ کس کا تھا اور اس ہاتھ میں پستول کس نے تھمائی تھی؟ ابھی تاحال معمہ ہے۔ چھ سال پہلے دو مئی کو اسامہ بن لادن کا کام تو امریکن فوجیوں نے تمام کر دیا لیکن انہیں یہاں لانے والوں اور سی آئی اے کے اہلکاروں کو کمک پہنچانے والوں کے اوپر آج تک حسین حقانی اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو غداری کی اسناد جاری کر رہے ہیں۔ اسی طرح میموگیٹ سکینڈل ہو یا پھر حالیہ ڈان لیکس وغیرہ ایسے بے شمار واقعات ہیں جسے رگڑا تو خوب دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہم سے نہیں ہو پا رہا‘۔ ہاں تو بات دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور ان میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کی اذیت سے متعلق شروع ہوئی تھی جو دور تلک نکل کر تاریخ کی طرف مڑ گئی ۔ اشتباہات کے گرد تلے دبے چند اہم واقعات کی سطحی مثالیں پیش کرکے بتانا یہ مقصود تھا کہ ملکی تاریخ میں پیش آنے والے ایسے واقعات سے متعلق حقیقتوں کوکھل کر بتانے کی بجائے محض رگڑا دینا قوم کیلئے مزید تکلیف دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ دال میں جب کالا نہیں تو اصل دال کو مہمانوں کے سامنے پیش کرنے میں کونسی قباحت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).