سیکولر ازم ، ملا ازم اور تکفیر


 جب سے وزیر اعظم نواز شریف نے لبرل اور جمہوری پاکستان کے تصور کی تائید کی ہے، مذہبی سیاست کرنے والوں کی صفوں میں ایک طوفان برپا ہے۔ کبھی ہولی کی تقریب میں وزیر اعظم کی طرف سے ہندو کمیونٹی کی دل جوئی پر تیر برسائے جاتے ہیں تو کبھی مذہبی مدرسوں کے تحفظ کے نام پر طوفان کھڑا کیا جاتا ہے۔ کبھی ویلنٹائن ڈے پر سب و شتم کا بازار گرم کیا جاتا ہے تو کبھی مشال خان کے قاتلوں کی حمایت میں احتجاج کا ہنگامہ کھڑا کیا جاتا ہے کبھی بلاگرز پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کبھی وزیر اعظم ہاﺅس میں شرمین عبید چنائے کی پذیرائی پر کالم سیاہ کئے جاتے ہیں ۔ کچھ احباب اپنی جھنجھلاہٹ میں ایک بار پھر ملالہ یوسف زئی کو ملنے والے نوبل انعام کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں ۔ کشش ثقل کی لہروں کے بارے میں ایک اہم دریافت میں پاکستانی نژاد پارسی خاتوں ڈاکٹر نرگس کا نام آیا تو لاہور سے انجنیئر فرید اختر پیدا کر لئے گئے۔ اس سے بھی اپنی ہی تضحیک کا سامان کیا گیا کہ سائنس کی تحقیق کا مقابلہ شملہ پہاڑی پر پریس کانفرنس کرنے سے نہیں ہوتا۔ مذہب پسندوں اور سیکولر ازم کے حامیوں میں ایک فرضی مجادلہ کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سیکولر حلقوں کے لئے لبرل فاشسٹ کا لقب پسند کیا گیا ہے۔ نیز یہ دھول اڑائی جا رہی ہے کہ اگر دہشت گرد انتہا پسند ہیں تو ان کے مخالف بھی انتہا پسند ہیں۔ لبرل لوگوں کا یہ عجیب فاشزم ہے جس میں کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا، کسی کو گولی مارنے کی ترغیب نہیں دی گئی اور کسی خود کش دھماکے میں کسی لبرل کا نام نہیں آیا۔ انتہا پسندیوں کے تقابل کی اچھی کہی کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی کرنے والوں نے ساٹھ ہزار جانیں لے لیں اور ’سیکولر انتہا پسند‘ ریاست سے اپیلیں کرتے رہ گئے کہ تمام مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کو تحفظ دیا جائے۔

بات بہت سادہ ہے۔ سیکولرازم کسی مذہب یا عقیدے کا نام نہیں۔ سیکولرازم ایک ایسے سیاسی نظام کو کہتے ہیں جو تمام انسانوں کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ جس مذہب یا عقیدے کو اچھا سمجھیں اسے اختیار کر لیں۔ ریاست کا کام کسی عقیدے کو اچھا یا برا کہنا نہیں بلکہ تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہے خواہ ان کا عقیدہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ سیکولرازم میں کسی عقیدے کی مخالفت یا اس کے ماننے والوں سے تعصب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مذہبی حکومت کی بنیاد چونکہ ایک عقیدہ ہوتا ہے، اس لئے ریاست کی مذہبی شناخت ہمیشہ امتیازی سلوک اور تفرقے پر منتج ہوتی ہے۔ ان دنوں کچھ احباب کو یہ کہنے کا شوق ہو رہا ہے کہ فرقوں کا اختلاف فروعی ہے اور یہ کہ مذہب پسند ایک گروہ ہیں جب کہ سیکولر خیالات کے حامل مذہب مخالف ہیں۔ سیکولرازم کو تو مذہب کی مخالفت کی ضرورت ہی نہیں اس لئے کسی مذہب کی مخالفت کرنا سیکولرازم کا منصب ہی نہیں۔ مذہبی حکومتوں کی تاریخ البتہ مذہبی منافرت ، تکفیر اور قتل و غارت سے مملو رہی ہے۔

یورپ میں صدیوں تک اہل کلیسا نے علم ، فنون اور فکر کے دروازے مقفل رکھے۔ برونو جیسے عالم کو زندہ جلایا گیا۔ صدیوں تک یورپ میں مذہبی احتساب کی آگ بھڑکتی رہی۔ لاکھوں ذہین اور دیانت دار انسان منافق اور بدعنوان پیشواﺅں کے عقوبت خانوں میں دم توڑ گئے۔ لاکھوں عورتیں وچ ہنٹ(Witch Hunt) جیسی بلائے بے اماں کا شکار ہوئیں۔ یورپ نے چرچ کے زیر سایہ جو صدیاں گزاری وہ جنگ، قحط، وباﺅں، جہالت، منافقت، بدعنوانی اور افلاس سے عبارت ہونے کے باعث تاریک صدیاں کہلاتی ہیں۔

یہاں مقصد کسی ایک گروہ کے عقائد کو غلط یا صحیح قرار دینا نہیں بلکہ اہل منبر و محراب کے اس ازلی اور ناگزیر رجحان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ حضرات اپنی راسخ العقیدگی میں دوسرے کو اپنے عقیدے کی آزادی دینے کے روادار نہیں ہیں۔ اور ایسا صرف بد نیتی ہی سے نہیں ہوتا اور نہ یہ رجحان محض مسلمانوں سے مخصوص ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جسے مذہبی پیشوا کہتے ہیں وہ اپنے عقائد کی قطعیت کا ایسا اسیر ہوتا ہے کہ اس کے  احاطہ فکر میں اختلاف رائے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ پیشوایت ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جس کی تنگنائے میں اپنے علم، معلومات، مشاہدے اور تفہیم کی ممکنہ غلطی کا گزر تک نہیں ہوتا۔ راسخ العقیدگی دراصل مخالف دلیل پر غور و فکر سے انکار کا نام ہے۔ راسخ العقیدہ شخص دلیل پر مبنی مکالمے سے انکار کے باعث بہت جلد تشدد پر اتر آتا ہے۔ صحرائے عرب کی ریت سے لے کر بحیرہ روم کے ساحل تک اور گنگا جمن کی وادی سے قراقرم کی پہاڑیوں تک صدیوں مسیحیت، اسلام، یہودیت اور بدھ مت کے نام پر انسانوں کا خون اسی لیے بہایا گیا۔

جہاں تک فرقوں میں اختلافات کے فروعی ہونے کا تعلق ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کا قریب قریب ہر فرقہ دوسرے فرقوں اور مسالک پر کفر کے فتوے لگا چکا ہے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی نے اہل سنت کی طرف سے اپنی کتاب ’فتاوی عزیزی‘ میں شیعہ کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا۔ دوسری طرف اہل تشیع مسلمانوں نے اپنی کتاب ’حدیقہ شہداء‘ میں قرار دیا کہ ”سوائے فرقہ امامیہ، اثنا عشریہ، کوئی بھی جنتی نہیں خواہ وہ قتل ہو جائے یا اپنی موت مرے “۔ خود اہل سنت کی وسیع تر شناخت میں بریلویوں کے ستر علماءنے اپنی مہروں سے غیر مقلدین پر کفر کافتوی ٰلگایا۔ مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے غیر مقلد اہل سنت کے تمام گروہوں کے خلاف نام بنام فتویٰ لکھا کہ ”یہ طائفے سب کے سب کافر و مرتد ہیں اور جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ خود کافر ہے“۔ اس کے ردعمل میں غیر مقلدین (اہل سنت) نے مقلدین (اہل سنت) کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا جس کے نیچے 19علما کی مہریں ثبت ہیں۔ دیوبندیوں کے خلاف کفر کے فتویٰ پر تین سو علما نے مشترکہ فتویٰ دیا۔ مولوی سید محمد مرتضیٰ صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب میں مولوی احمد رضا خاں بریلوی کو کافر ، دجال ، مرتد اور خارج از اسلام جیسے خطابات دیے۔ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے مولانا محمد قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند)، مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ، مولانا نذیر حسین دہلوی، مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولانا ثناءاللہ امرتسری ، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ کے عقائد کا رد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ سب ’باجماع السلام مرتد‘ ہیں۔ اٹھارویں صدی کے ہندوستان میں شاہ ولی اللہ دہلوی، سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہیدجیسے اکابرین پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے۔ذزرا غور سے دیکھیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ اگر ان نیک ہستیوں کے افکار کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو دنیا میں کوئی مسلمان باقی نہیںبچے گا۔

چلیے جن اصحاب بزرگ کا ذکر اوپر آیا ، وہ کہنا چاہیے کہ ہندوستان کے گزشتہ دو تین صدیوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر آپ اسے ماضی قریب میں رونما ہونے والے انحطاط اور زوال کا نتیجہ قرار دینا چاہیں یا ان اختلافات کو غیر ملکی حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں کا شاخسانہ قرار دے کر ہمارے مجموعی نتائج کو محل نظر ٹھہرانا چاہیں تو ہمیں آپ کی توجہ نہایت اختصار سے قرون اولیٰ کے مسلمان علما و فقہا کے حالات کی طرف دلانا ہو گی۔ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ ”جہاں تک مسلم امہ کا تعلق ہے وہ ابتدائی دور ہی سے اندرونی طور پر اختلافات کا شکار رہی ہے“۔

حضرت امام ابوحنیفہ جیسے عالم بے بدل کو ہم عصر علما کے مختلف حلقوں نے جاہل، بدعتی، زندیق حتیٰ کہ کافر تک کہا۔ بالآخر قید خانہ میں زہر دیا گیا۔ ابو عبداللہ امام محمد بن ادریس شافعی جیسے عالم فقہ کو یمن سے بغداد تک توہین آمیز انداز میں قیدی بنا کر لے جایا گیا۔ حضرت امام احمد بن حنبل کو اٹھائیس مہینے تک قید رکھا گیا۔ پا بہ زنجیر رکھ کر آپ کی سرعام تذلیل کی گئی۔ آپ کے منہ پر طمانچے مارے گئے اور تھوکا گیا۔ ابو عبداللہ امام مالک بن انس کی مشکیں اس سختی سے کسی گئیں کہ آپ کا ہاتھ بازو سے اکھڑ گیا۔ قید میں آپ کو کوڑے لگائے گئے۔ امام محمد اسماعیل بخاری کو جلا وطن کیا گیا۔ ابوعبدالرحمن امام نسائی کو مسجد ہی میں اس قدر پیٹا گیا کہ جانبر نہ ہو سکے۔ شیخ الاسلام محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی کو فقہا ئے وقت نے کافر قرار دیا۔ شیخ محی الدین عربی، مولانا جلال الدین رومی، مولانا عبدالرحمن جامی، شیخ فرید الدین عطار، امام غزالی، امام ابن تیمیہ اور امام حافظ بن قیم جیسی ہستیوں پر کفر کا الزام دھرا گیا۔ ابن رشد، ابن خلدوں اور ابن سینا کو جلا وطن ہونا پڑا۔ آج شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ملے جو ان نیک انسانوں کا احترام نہ کرتا ہو۔

جب برطانوی راج کے زیر اثر مسلمان تعلیم یافتہ طبقے نے قوم کی سیاسی رہنمائی کرنا چاہی تو سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح جیسے مصلحین اور مدبرین کی اصابت ایمان پر بھی کفر کے فتوے ارزاں کیے گئے۔ حتیٰ کہ جو لوگ سرسید کی تکفیر میں تامل کرتے تھے، ان کی بھی تکفیر ہونے لگی۔ قائد اعظم کے بارے میں مولانا مظہر علی اظہر کا وہ شعر تو خیر اب ضرب المثل ہو چکا۔

اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا

یہ قائداعظم ہے کہ ہے کافر اعظم

برسبیل تذکرہ بتاتے چلیں کہ مولانا مظہر علی اظہر کی فہرست اعمال میں اشتعال انگیز فرقہ وارانہ مکاتیب لکھ کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش جیسا قبیح فعل بھی دستاویزی ثبوت کے ساتھ تاریخ کا حصہ ہے۔ مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی اپنے ابتدائی عہد میں تکفیر یعنی کسی دوسرے مسلمان کے ایمان پر حکم لگانے کو غلط سمجھتے تھے۔ آپ نے اپنی تصنیف تفہیمات حصہ دوم (صفحہ (141-152 میں فرمایا :

”مسلمانوں کے دور انحطاط میں جہاں اور بہت سے فتنے پیدا ہوئے ہیں وہاں ایک بڑا اور خطرناک فتنہ ایک دوسرے کو کافر اور فاسق ٹھہرانے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے کا بھی ہے… انہوں نے اصل اور فروع، نص اور تاویل کے فرق کو نظر انداز کر دیا ہے۔ وہ اپنے فروع اور اپنی تاویلات کے منکر کو بھی اسی طرح کافر قرار دیتے ہیں جس طرح اصول اور نصوص کے منکر کو کافر قرار دیا جاتا ہے … پھر ان اللہ کے بندوں نے (اللہ انہیں معاف فرمائے) اپنے وضع کردہ فروعی مسائل کے ساتھ اتنا اہتمام کیا کہ انہی پر ایمان کامدار ٹھہرا دیا۔ ان کی بنیاد پر اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، بیسیوں فرقے بنا دیے اور ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر، فاسق، گمراہ، دوزخی اور خدا جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ “

ستم ظریفی یہ ہے کہ تکفیر کی اس روش کو اس طرح رد کرنے والے ابو اعلیٰ مودودی بھی تکفیر کے تیر و سناں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ان کے بارے میں مفتی مظہر اللہ صاحب (جامع فتح پوری، دہلی)، مولانا حسین احمد مدنی (مرحوم) اور مولانا احمد علی مرحوم نے مذمت اور تکفیر کے فتاوی ارزاں کیے۔

انسانی معاشرہ فکر، تفہیم، مشاہدے اور معلومات کے تنوع اور رنگا رنگی سے تجسیم پاتا ہے۔ علم کوئی جامد مظہر نہیں۔ نئے معلومات، نئے حقائق اور نئے مشاہدات کی مدد سے نہ صرف زندگی کا امکان وسیع ہوتا ہے بلکہ افعال ، اقدار اور پیداواری حکمت عملی کے نئے در بھی وا ہوتے ہیں۔ چنانچہ فکر و عمل کی آزادی سے دو نتائج برامد ہوتے ہیں۔ پرامن اختلاف رائے سے جنگ و جدل کا راستہ مسدود ہوتا ہے اس کے علاوہ بہتر ذرائع پیداوار اور زیادہ قابل عمل اقدار کے ظہور سے انسانوں کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے۔ تاریخ میں جہاں جہاں کسی قوم نے اپنی عنان اقتدار مذہبی پیشواﺅں کے سپر د کی ، وہ لامتناہی جنگ و جدل کا شکار ہو کر تباہ ہوئی۔ سیاست اور بندوبست ریاست متنوع مفادات میں مکالمے اور سمجھوتے کی مدد سے بقائے باہمی کو یقینی بنانے کا نام ہے۔ دوسری طرف سیاست میں عقیدے کو دخل مل جائے تو عقیدے کے ناقابل ابلاغ ، ناقابل تغیر اور ناقابل مفاہمت ہونے کے باعث تصادم اور تشدد کا راستہ کھل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).