یہ مقدمہ سوشل میڈیا کا نہیں، بالادست بیانیے کا سوال ہے


رواں برس کے ابتدائی ہفتوں سے ہم نے سوشل میڈیا کی صورت میں ایک نیا دشمن دریافت کیا ہے۔ بات کچھ زیادہ دور کی نہیں۔ 2016ء کا برس ایک خاص کشمکش میں گزرا۔ اخبارات میں کالم لکھے گئے۔ کھمبوں پر بینر لٹکائے گئے۔ ٹیلی وژن کی شبینہ مجالس میں متابعین کو ابرو کا اشارہ ملا۔ معاملہ اس قدر عام ہو گیا کہ ایک آدھ پیغام اس درویش تک بھی پہنچ گیا۔ اگلے زمانے میں یہ حکمت عملی گوہر مقصود کے حصول کے لئے کافی تھی۔ اب ایسا نہیں ہو سکا۔ سوشل میڈیا نامی ایک بلا نمودار ہوئی ہے جس کے بنیادی طور پہ دو حصے ہیں۔ ایک حصہ فرد سے فرد کے رابطے کا ہے جس میں شہری مختلف واقعات پر اپنی ذاتی رائے اپنے ترجیحی لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔ چنڈو خانے کی غپ کو کون روک سکتا ہے۔ دہلی میں نادر شاہ کا قتل عام بھی تو کسی دل جلے کی بے موقع فقرہ بازی کا نتیجہ تھا۔ سوشل میڈیا کا دوسرا حصہ بلاگ اور ویب سائٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں اپنی رائے دینے والے واقعاتی حقائق اور دلیل کی مدد سے ایک نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ عام طور سے یہ وہ نقطہ نظر ہوتا ہے جسے بپتسما سے شرف یاب ہونے والے ذرائع ابلاغ پر جگہ نہیں ملتی۔ ماننا چاہئے کہ ایسے بلاگر بھی موجود ہیں جوجعلی ناموں سے اپنا کام دکھاتے ہیں۔ اس میں سبوتاژ کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اندرون اور بیرون ملک انتشار چاہنے والے بھی اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی جانی بوجھی حقیقت ہے کہ تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے درجنوں ویب سائٹس بنا رکھی ہیں۔ تاہم یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر سیاسی جماعت کے ترجمان اخبار کی ثقافت اب موثر نہیں رہی تو کسی سیاسی جماعت یا فرقے کی ترجمان ویب سائٹ بھی، سوائے بھڑاس نکالنے کے، رائے عامہ کی تشکیل میں موثر کردار ادا نہیں کر سکتی۔ خبر اور تجزیے کی ساکھ کا جو معیار اخبار اور ٹیلی وژن پر ہے وہی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر بھی ہو گا۔ یک طرفہ پروپیگنڈے سے اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھایا جا سکتا ہے، رائے عامہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
2013ء کے انتخابات میں سوشل میڈیا پر شور و غوغا کا مقابلہ پی ٹی آئی نے جیت لیا تھا۔ ہمارے قدیمی مہربان محترم پرویز مشرف فیس بک پر بارہ لاکھ حامیوں کا مژدہ جیب میں ڈالے کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو استقبال کرنے والوں کی تعداد بارہ سو بھی نہیں تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے 18اکتوبر 2007ء کو وطن کی سرزمین پر قدم رکھا تو بے اختیار آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔ جذبے کی شدت دو آنسوئوں کی صورت میں آنکھوں سے بہہ نکلی۔ 24 مارچ 2013ء کو پرویز مشرف نے بھی کیمروں کی موجودگی میں یہی ایکشن دینا چاہا، جذب دل کی کمی رہ گئی۔ بینظیر بھٹو پاکستان پہنچتی ہیں تو ٹھیک دو ماہ بعد گڑھی خدا بخش کے شہادت خانے میں جا پہنچتی ہیں۔ محترمہ کا کردار ادا کرنے کے خواہش مند پاکستان آتے ہیں اور پھر پتلی گلی سے نکل کر شیوخ کی شبینہ مجالس میں نظر آتے ہیں۔ اصل اور نقل میں یہی فرق ہوتا ہے۔
ریاست پر ایک بیانیہ مسلط کر دیا جائے تو سیاست اور معاشرت کا ہر عمل بے معنی ناٹک کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اس ناٹک کی حفاظت کے لئے قانون بنائے جاتے ہیں، دھمکیاں دی جاتی ہیں، عقوبت خانے تیار کئے جاتے ہیں۔ پاسٹرناک کا مردہ خراب کیا جاتا ہے۔ ویکلاف ہیول کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ سخاروف کو گورکی کے پاگل خانے میں رکھا جاتا ہے۔ میلان کنڈیرا جلاوطن ہو کر فرانس پہنچ جاتا ہے۔ سولزے نتسن کو غدار قرار دیا جاتا ہے۔ بات مٹھی بھر اختلاف کرنے والوں کی نہیں ہوتی، اصل طاقت اس سچائی میں ہے جسے مفاد اور جبر کے نام پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن دن رات کے مشاہدے سے عوام تک پہنچ جاتی ہے۔
آئیے پاکستان میں انٹرنیٹ ابلاغ کے بارے میں کچھ اعداد و شمار پر غور کرتے ہیں۔ بیس کروڑ کی آبادی میں صرف ساڑھے تین کروڑ افراد انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہ کل آبادی کا اٹھارہ فیصد ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ساڑھے تین ارب افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اب گن جائیے کہ پچاس فیصد شرح خواندگی رکھنے والے ملک میں کتنے افراد سیاسی اور معاشرتی معاملات پر رائے دینے کا رجحان اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ فیس بک، وائبر اور ٹویٹر وغیرہ کا جھگڑا ہی نہیں۔ وہاں تو محض ایک کاٹ دار جملہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد بھی عام طور سے تفنن طبع ہوتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جس طرح اخبار میں کارٹون مضحک صورت حال کو سامنے لاتا ہے عام لوگوں کے کہے ہوئے یہ جملے صاحبان اقتدار کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ اصل جھگڑا تو ان ویب سائٹس کا ہے جو حقائق، تجزیے اور دلیل کے ذریعے وہ نقطہ نظر سامنے لا رہی ہیں جسے اخبار اور ٹیلی وژن پر روکا گیا ہے۔
2014ء اور 2016ء میں میڈیائی یلغار کی ناکامی کے بعد سے سوشل میڈیا کی چبھن بہت بڑھ گئی ہے۔ سو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے ذریعے سوشل میڈیا کو توہین مذہب سے خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کے ہر قصبے میں عام آدمی کو کسی سیاسی، مسلکی یا معاشرتی حدود سے قطع نظر مشتعل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں دلیل کو دخل ہی نہیں۔ دلیل سے ماورا جذباتی عصبیت ہی مصنوعی بیانیے کا ہتھیار ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ملک میں اہانت مذہب کے قوانین موجود ہیں۔ سائبر کرائم کے خلاف قانون منظور ہو چکا ہے۔ مگر ایسا ہے کہ ان ریاستی ذرائع پر اعتماد اٹھ رہا ہے کیونکہ بیانیے کی جنگ میں ایک نقطہ نظر بری طرح شکست کھا رہا ہے۔ اجارہ داری کی فصیل میں شگاف نمودار ہو رہے ہیں۔ تشخیص یہ کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا سوچ اور فکر کی اجارہ داری پر ضرب لگا رہا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ سوشل میڈیا کو نئے زمانے کی عفریت قرار دیا جائے۔ یہ وہی خوف ہے جو مطلق العنان بادشاہت کو اخبار سے تھا۔ یہ وہی احساس عدم تحفظ ہے جسے فلم کی یلغار قرار دیا گیا تھا۔ یہ وہی سوچ ہے جو ٹیلی وژن کو چوراہوں میں پھانسیاں دیتی ہے۔ ہم میں سے کچھ کو یاد ہو گا کہ سوات کے مقام سرڈھیری اور وزیرستان کے غاروں سے لیپ ٹاپ اور کچھ متعلقات برآمد ہوئے تھے۔ اصول یہ ہے کہ جدید آلات سے قدیم مفادات، اقتدار کے پرانے ڈھانچوں اور بوسیدہ اقدار کا احیا کیا جا سکتا ہے اور نہ انہیں قائم رکھا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی تبدیل ہوتی ہے تو معاشرے کی توانائی کو برقرار رکھنے کیلئے علم اور مشین کو معاشرے میں جذب کیا جاتا ہے۔ بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق سیاست، معیشت اور معاشرت کے نئے ڈھانچے تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کی انکوائری کمیٹی پر پچاس کندہ ناتراش افراد کے حملہ کرنے سے سوشل میڈیا کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ ابصار عالم کو ٹیلی فون پر دھمکیاں دینے سے وہ سوچ برقرار نہیں رکھی جا سکتی جس نے پاکستان کو اظہار کی آزادی، انسانی ترقی اور تخلیقی صلاحیت کے اشاریوں میں نچلے ترین درجوں پر پہنچا دیا ہے۔ کل این جی او کے لفظ کو گالی بنا دیا تھا، اب سوشل میڈیا کے خلاف زور خطابت دکھایا جا رہا ہے، ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیم زہد کر لے…

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).