ہمیں جدید پولٹیکل انجینئرنگ درکار ہے


حیرت ہے اب تک کسی کا دھیان اس پر کیوں نہیں گیا کہ اس ملک کے بچوں کو پولٹیکل سائنس سے زیادہ پولٹیکل انجینیرنگ کا مضمون پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ہاں اٹکل پچو جگاڑو مستریوں کی جگہ ماہر پولٹیکل انجینیر پیدا ہو سکیں جو زیادہ نفاست کے ساتھ آج کے دور کی قومی سیاسی ضروریات معیاری انداز میں پوری کر سکیں۔میں کیا کہنا چاہتا ہوں ؟ مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

دیکھئے پاکستان  کا جن حالات میں جس اشرافیہ کے ہاتھوں جنم ہوا اس میں کوئی ایک نظام اپنی مکمل روح کے ساتھ سیدھا سیدھا نہیں چل سکتا۔سیدھا سیدھا چلانے کے لیے محض خلوص اور خوش نیتی کافی نہیں ہوتی ایک سنگل پاور سینٹر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ایک پاور سینٹر آج تک نہ بن پایا نہ مستقبلِ قریب میں امید ہے۔چنانچہ ہمیں نظام اور اس کے کل پرزوں کو رواں رکھنے کے لیے تھوڑے تھوڑے عرصے بعد پولٹیکل انجینرنگ کرنا پڑتی ہے۔میرے کچھ دوست اسے سیاسی تھیلسیمیا  کا علاج کہتے ہیں مگر مجھے اس اصطلاح سے بوجوہ اتفاق نہیں۔

اس وقت ہمارے ملک کا اقتدارِ اعلیٰ کہنے کو تو اﷲ میاں کی امانت ہے جسے صادق و امین منتخب نمایندوں کے ذریعے برتنے کا ناممکن آئینی وعدہ کیا گیا ہے۔اب ساڑھے تین سو صادق و امین ہم کہاں سے لائیں ؟ چنانچہ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے ہم نے ایک کسوٹی یہ بنائی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ کے ریکارڈ میں جب تک صادق و امین ہو اسی پر اعتبار کیا جائے۔اگر کمی بیشی ہو تو پرانوں کی جگہ نئے تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔

یہاں سے پولٹیکل انجینر کا کام شروع ہوتا ہے۔مگر ہمارے ہاں اچھے پولٹیکل انجینیر بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ زیادہ سے زیادہ ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیبلشمنٹ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں۔ کبھی کبھی ان سے اچھی پروڈکٹ بن جاتی ہے جو چار دن نکال لے مگر ہمیں زیادہ معیاری اور پائیدار پروڈکٹس درکار ہیں جو لیبارٹری سے نکلتے ہی ٹھس نہ ہو جائیں اور ان پر لگنے والے قومی وسائل اور محنت ضایع نہ ہو۔

اس سلسلے کا پہلا  بڑا تجربہ انیس سو پچپن میں ہوا جب ون یونٹ بننے کے عمل کے دوران مشترکہ یا جداگانہ انتخاب کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے خدا اسکندر مرزا سے مسلم لیگ کی ٹھن گئی اور ایک رات میں’’  دم گڑم ابم پریتم صف شکن ’’ کا منتر پڑھ کے جھرلو پھیر دیا گیا اور چادر کے نیچے سے مسلم لیگ کی جگہ ری پبلیکن پارٹی اٹھ کھڑی ہوئی جس کے کندھے پر ڈاکٹر خان عبدالجبار خان عرف ڈاکٹر خانصاحب کو بٹھا دیا گیا۔وہی خانصاحب جن کی خیبر پختون خوا کی وزارتِ اعلی پاکستان بنتے ہی مشکوک حب الوطنی کی پاداش میں غیر جمہوری انداز میں ختم کر دی گئی تھی۔

خان صاحب کچھ عرصہ جیل میں رہے اور پھر انھیں اقتدار اینڈ سنز  کا کلوروفارم سنگھا کر پولٹیکل سرجری کی گئی اور دماغ میں وفاداری کا چپ لگا دیا گیا۔بعد از ڈسچارج بصد اطمینان انھیں نہ صرف ری پبلیکن پارٹی بلکہ ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کی پہلی وزارتِ اعلی بھی تھما دی گئی۔پونے دو برس بعد انھوں نے میوزیکل چیئر اپنے سے بھی زیادہ اہل وفادار کے لیے خالی کردی۔یوں ریپبلیکن پارٹی بھی ڈاکٹر خان صاحب  کے ساتھ نکل لی۔جون ستاون میں وہ کوئٹہ کی سیٹ سے قومی اسمبلی کے رکن  اور مئی اٹھاون میں قاتل کی گولی کا نشانہ بنے۔ان کی جگہ نواب اکبر بگٹی نے پر کی جنھیں گولی کا نشانہ بننے کے لیے مزید اڑتالیس برس انتظار کرنا پڑا۔

اگلی پولٹیکل انجینرنگ بنیادی جمہوریت پرائمری اسکول کا قیام تھا۔اس کے پرنسپل ایوب خان اور وائس پرنسپل ذوالفقار علی بھٹو تھے۔مقصد یہ تھا کہ کنونشن مسلم لیگ کے اساتذہ دس کروڑ گدھوں کو جمہوری ابجد کی بنیادی تربیت دیں جیسے انگریزوں نے بنیادی جمہوریت سے پچاس برس پہلے ہوم رول اسکول میں چالیس کروڑ ہندوستانیوں کی تربیت کی تھی۔بنیادی جمہوریت اسکول بھی ناکام رہا۔پہلے وائس پرنسپل سبکدوش ہوا اور انیس سو انہتر میں پرنسپل کی چھٹی کے ساتھا اسکول بھی بند ہوگیا۔ (دس برس بعد اسی اسکول کو ضیا الحق نے لوکل جمہوریت سے قومی قیادت پیدا کرنے کی تعلیم کے لیے قابلِ استعمال بنایا )۔

انیس سو ستر کے الیکشن میں بھی پولٹیکل انجینرنگ کی کوشش ہوئی مگر یہ بھی ناکام رہی۔البتہ ٹکنیکل اسکول آف اسٹیبلشمنٹ نے جہاندیدہ ذوالفقار علی بھٹو کو پوسٹ گریجویٹ  اسکالر شپ کی پیش کش کی۔بھٹو صاحب ڈیڑھ ذہین نکلے۔اسکالر شپ بھی لے لی اور پوسٹ گریجویشن کے بعد ٹکنیکل اسکول کو بھی تالا مارنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں تالے کے بجائے خود مارے گئے۔

اس کے بعد نئے پرنسپل کے تحت اسکول نے اپنے نصاب میں کئی بنیادی تبدیلیاں کیں۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ اپرنٹس شپ کے بعد فارغ التحصیل طلبا کو ’’جب اور جہاں ضرورت پڑی ’’  کے اصول پر حلف اٹھاتے ہوئے اسکول سے وفاداری کا بونڈ بھرنا پڑے گا۔بصورتِ دیگر ڈسپوز آف کردیا جائے گا۔اس کے بعد اسمبلی میں مسلم لیگ کے نئے ماڈل کی اسمبلنگ ہوئی۔ٹرائل تو کامیاب رہا مگر جب پروڈکٹ کی مارکیٹنگ ہوئی تو کاپی رائٹس اندرونی جھگڑے میں پھٹ پھٹا گئے۔جس کے ہاتھ جو پنا آیا اس نے اسی کی بنیاد پر اپنی لیگ بنالی۔

ایک شاخ پنپ گئی جسے بعد میں پی ایم ایل این کہا گیا۔پیپلز پارٹی کے پرندے اڑانے کے لیے نیشنل پیپلز پارٹی کا درخت لگایا گیا۔ملت پارٹی وجود میںآئی،  آئی جے آئی کا تجربہ ہوا مگر انجن اتنا گرم ہو گیا کہ چیسز پگھل گیا۔ اسلامک فرنٹ کا ڈجیٹل ترازو بنانے کا تجربہ ہوا مگر ڈجٹس ڈلیٹ ہو گئے۔ ، ٹرین مارچ کا تجربہ ہوا مگر عین وقت پر ٹرین ہی لیٹ ہو گئی لہذا حکومتِ وقت کو ٹرین میں نہ ٹھونسا جا سکا۔ چھانگا مانگا میں سیاسی شجر کاری کی کوشش کی گئی مگر پودے زیادہ تپش کے سبب ٹنڈ منڈ ہو گئے۔

مسلم لیگ ق کا گھی مارکیٹ میں لانچ کیا گیا مگر وہ بھرپور اشتہاری مہم کے باوجود صارفین کو زیادہ نہ بھا سکا البتہ لانچ کرنے والوں کی پانچوں انگلیاں چکنی ہو گئیں۔ساتھ ہی ساتھ امریکیوں کو ڈرانے کے لیے متحدہ مجلسِ عمل کا جن بھی تخلیق کیا گیا۔پانچ برس بعد یہ جن جن کا تھا وہ  ڈبہ پیک  کر  کے لے گئے۔تحریکِ انصاف کی فارسی کیا ہے۔اس کا ترجمہ کرنے کے لیے کچھ مزید شواہد درکار ہیں۔محض جاوید ہاشمی کی گواہی کافی نہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اور کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی کھل ہی جائے گی۔

قومی مارکیٹ کے تقاضوں اور ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی پولٹیکل انجینرنگ کے کامیاب اور ناکام تجربے ہوئے۔جیسے سندھ میں کئی قوم پرست رہنماؤں کو طاقت کے انجکشن لگائے گئے تاکہ وہ پھول کر اتنے کپا ہو جائیں کہ ہر کوئی انھیں دیکھ سکے۔اللہ جانے یا تو انجکشن ایکسپائرڈ تھے یا پھر تجربے کے لیے منتخب کیے جانے والے رضاکاروں کا انتخاب غلط ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی آج بھی اپنے نام کا کھا رہی ہے حالانکہ عمارت کے اندر کا سارا فرنیچر ، پردے اور فانوس بک چکے ہیں۔بس کچن سلامت ہے۔

سن اسی کے عشرے میں سندھ کی شہری سیاست کو پیپلز پارٹی اور بات بے بات خوامخواہ پھیل جانے والی چراندی مذہبی سیاسی جماعتوں  کے وائرس سے دور رکھنے  کے لیے ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ نے ایم کیو ایم کوایک متبادل قوت کے طور پر مارکیٹ کیا۔مگر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جب اس بتِ کافر  میں جان ڈالنے کا تجربہ ہوا تو انسٹرکٹرز کے ہاتھ سے نکل گیا۔اسے مارکیٹ سے اٹھانے اور ری انجینرنگ کے بجائے ایم کیو ایم حقیقی لیبل کی ملتی جلتی پروڈکٹ لائی گئی۔مگر آپا دھاپی میں کسی کی نظر نہ پڑی کہ حقیقی کے تو پرزے ہی مجازی ہیں۔پھر بھی اس کی مارکیٹنگ کے لیے ایم کیو ایم ( اصلی ) کو کبھی غداری کے چالان میں ڈالا گیا کبھی حب الوطنی کے رجسٹر پر چڑھایا گیا۔

انجینرز نے اس جماعت کو مشرف دور میں ’’ اف یو کانٹ بیٹ دیم جوائن دیم ’’  کے اصول پر بھی برتا۔بعد کے تعلقات مروت و دشمنی کی ملی جلی کہانی ہیں۔آج کل ایم کیو ایم ( اصلی ) کی قیادت میں پھر وائرس آیا ہوا ہے۔تشخیصی رپورٹ میں پاکستان دشمنی نکلی ہے اور  علاج چل رہا ہے۔اس بار اس کی طبیعت صاف کرنے کے لیے پہلے سے بہتر انتظام کرنے کی کوشش کی گئی مگر پرانی ٹیکنالوجی اور فارمولوں کے ساتھ۔

دیکھئے نا ! پاک سرزمین اچھی خاصی برائلر پارٹی ہے لیکن اسے بڑا ہونے سے پہلے ہی کٹ کھنے مرغوں کے مقابلے پر بعجلت دوڑانے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو میڈیا کو نئی تفریح مل گئی ہے۔اس سے بہتر تو ایم کیو ایم پاکستان کا ایڈیشن ہے۔جو لٹی ہوئی نوابی وضع داری سے سمیٹنے  کے لیے کوشاں ہے۔

پس ثابت ہوا کہ انسٹی ٹیوٹ آف پولٹیکل انجینرنگ کو جدید نصاب ، کوالیفائیڈ سبجیکٹ اسپیشلسٹس ، اسٹیٹ آف آرٹ لیبارٹری ، روبوٹکس اور مارکیٹنگ  کے شائستہ ، دل کش مگر جارحانہ طریقوں کی اشد ضرورت ہے۔مستری تو ایسا ہی کام کریں گے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ ہم رہیں نہ رہیں پولٹیکل انجینرنگ کی ضرورت تو رہے گی۔ آج ہم مثالی ادارہ قائم کریں گے تو آنے والوں کے کام بھی آئے گا۔کوئی تو ادارہ اگلی نسل کو اچھا ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).