ہمارے مشر جیسی ہماری ریاست


مشر ہمیں ٹکنے نہیں دیتا تھا گھر۔ ہر وقت کسی الٹے کام کے لیے تیار کامران رہتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ہمیں پھنسا بھی دیا کرتا تھا۔ اپنی طرف سے شاید ہماری تربیت ہی کرتا ہو۔ بظاہر اس کی صورت یا کسی بھی حرکت سے تربیت دینے والے کسی استاد کا شبہ تک نہیں ہوتا تھا۔

ہم لوگ سوات جا رہے تھے۔ موسم تو بہت دور جا کر درگئی کراس کرنے کے بعد بدلنا شروع ہوتا تھا۔ ہمیں البتہ گاڑی میں بیٹھتے ہی خوشگوار لگنے لگ جاتا تھا۔ پروگرام ہمارا بالکل اچانک بنا تھا۔ اس لیے سارے ہی خوش تھے۔

ڈبل کیبن گاڑی تھی۔ لاٹو نے مشورہ دیا کہ ایسے کرتے ہیں کہ پیچھے بیٹھتے ہیں سارے۔ سائیکل سواروں اور پیدل جانے والوں کی چادر یا ٹوپی اڑائیں گے۔ وہ جب ہمیں غصہ کریں گے تو بہت مزہ آئے گا۔ گاڑی کو تو پکڑ نہیں سکیں گے۔ مشر کو مشن پسند آیا اس نے گاڑی روکی ہم پانچ میں سے تین پیچھے جا کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے مشر نے آگے ہی روک لیا اپنے ساتھ۔

ایک سائیکل سوار کی جب ہمارے یاروں نے ٹوپی اڑائی تو اس نے سائیکل کی رفتار بڑھا دی۔ مشر نے گاڑی آہستہ کر دی، سائیکل والے نے ہمارے یاروں کو برا بھلا کہا انہوں نے اپنے مشر پر غصہ کیا کہ گاڑی کیوں آہستہ کی۔ مشر نے جواب دیا کہ متاثرین کا جذبہ چیک کرنے کے لیے آہستہ کروں گا ڈرو مت اس غریب کو ٹوپی واپس کر دو، جو فوری کر دی گئی۔

دوسرا نشانہ ایک بزرگ بنا جس کی چادر اس کے کندھے سے اٹھا لی۔ اس نے اپنی رفتار تو ہلکی سی ہی بڑھائی لیکن جس رفتار سے گالیاں دیں وہ حیران کن تھی۔ مشر نے گاڑی بالکل آہستہ کر دی کہ بزرگ نے اگر دوڑ لگا کر اپنے ملزم پکڑنے ہوں تو کوشش کر لے۔ اس بزرگ کی چادر بھی واپس پھینک دی گئی۔ مشر نے کہا سمرا خئستہ کنزلے کئی لگیا دے دا بڈھا یعنی اس بابے نے کتنی پیاری گالیاں دی ہیں۔ ساتھ ہی مشر نے ڈبل کیبن کے پیچھے کھڑے دستے کو حکم دیا کہ اب جہاں میں کہوں وہاں یہی کام کرنا ہے تاکہ ذرا مزہ تو آئے۔

مشر نے کارروائی کے لئے جو لوگ منتخب کیے وہ ایک کی بجائے تین تھے۔ کھڑے وہ بالکل ایک چھوٹی سی آبادی کے پاس تھے۔ مشر کا دستہ عقل سے فارغ تھا انہوں نے صورتحال دیکھے بغیر ان تین میں سے ایک بندے کی ٹوپی اس کے سر سے اٹھا لی۔ وہ تینوں ہمارے پیچھے بھاگے تو مشر نے گاڑی کو بریک لگا دی۔ نیچے اترا اپنی چادر زمین پر بچھائی اور دو رکات نماز کی نیت باندھ لی۔

خاصی آبادی تھی لوگ اکٹھے ہو گئے۔ مشر نماز پڑھ رہا تھا اس کے شیطانی دستے کو لوگوں نے گھیر لیا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ مشر کو بالکل نظرانداز کیا تھا۔ مشر البتہ مجھے کہہ گیا نیچے مت اترنا پریدا چہ لگ اے وے ٹکئی، تم نیچے مت اترنا چھوڑو کہ انہیں ذرا پھینٹ لیں۔ لوگ ہمارے دستے میں پیار محبت عقل کا ایزی لوڈ کر رہے تھے۔ اس لیے کوئی بھی گاڑی کی طرف نہیں آیا۔ مشر نے تسلی سے نماز پڑھی فارغ ہو کر دعا کی، اس کے بعد اٹھ کر ان کی طرف گیا۔

ہجوم کی طرف گیا تو انہوں نے مشر کے احترام میں ہاتھ روک لیا۔ مشر نے ایک زوردار سلام کیا اور بولا۔ دہ یو پکے لیونئے دے ان میں سے ایک دیوانہ ہے۔ یہ دیوانہ وہی لاٹو تھا جس نے ٹوپیاں اٹھانے کا مشورہ دیا تھا۔ پھر مشر نے کہا کہ ڈاکٹر نے بولا تھا کہ اس کو سوات لے جا کر رکھو میں اس کو وہاں لے جا کر باندھوں گا۔ اس کو ٹوپیاں چرانے کا مرض لگ گیا ہے۔ مشر کا اعتماد تھا اس کی روحانی طاقت تھی اس کی پارسائی والی شکل تھی کہ لوگوں نے سب کو چھوڑ دیا۔ ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

گاڑی روانہ ہوئی تو مشر بولا کہ ٹوپی چرانا تو آسان ہے۔ پکڑے جانے پر بچ نکلنا بھی ہنر ہے آ بہ دے سوک خئی یعنی وہ تمھیں کون سکھائے گا۔ یہ آخری عقل کی بات تھی جو مشر کر سکا اس کو پھر خوب دھویا اس کے اپنے دستے نے تسلی سے گاڑی سائیڈ پر لگا کر۔

لاٹو کے ساتھ بری ہوئی تھی۔ اس نے کہا وسی تمھیں یاد ہے وہ جو ایک بار ہم آلوچے توڑنے گئے تھے کسی کے گھر۔ ہمارا یہ مشر آلوچے کے درخت پر بہت اوپر چڑھ گیا تھا۔ جب مالک مکان آیا تو ہم سب اتر کر بھاگ گئے مشر درخت پر بہت اونچا چڑھا ہوا تھا تو پکڑا گیا۔

مالک نے پوچھا الاکہ سوک اے التہ برا دے سہ کول یعنی کون ہو اور وہاں اوپر کیا کر رہے ہو۔ مشر نے درخت کے اوپر سے جواب دیا تھا کہ اودس کوم یعنی وضو کر رہا ہوں۔ مشر کا جواب سن کر مالک مکان بھی حیران پریشان رہ گیا تھا کہ درخت کے اوپر وضو۔ مالک کی حیرانی کا فائدہ اٹھا کر ہی مشر فرار ہو گیا تھا، وہ سب یاد آ گیا تھا۔ لاٹو اپنا کندھا دباتے ہوئے بولا اج اس کمبخت نے آج اسی وضو والی نماز پڑھی ہے۔

یہ سب تو بچپن کی باتیں ہیں، یاد آتی رہتی ہیں۔ آپ سے ہی کہنا کسی اور سے مت کہیے گا۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہماری ریاست بھی ہمارے مشر کی طرح ہی ہم لوگوں کو نت نئے پنگوں میں ہی پھنسائے رکھتی ہے۔ نہ مشر کا پتہ لگتا تھا کہ وہ ہمیں کیا سکھا رہا نہ ریاست کی سمجھ آتی کہ وہ ہمیں کیوں ادھر ادھر پھنسا کر بزت کراتی رہتی ہے۔ ہم جب اپنی ریاست کو درخت کے اوپر مچان پہ بیٹھے پکڑ بھی لیں تو ہمیں کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہم تو یہاں وضو ہی کر رہے ہیں بیٹھے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi