پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی اور عام شہری


پانامہ کیس کا صدیوں یاد رکھا جانے والا 540 صفحات پر مشتمل فیصلہ 20 اپریل 2017 کو منظرعام پر آگیا ہے۔ جس کے مطابق پانامہ لیکس فیصلے میں ججز کی جانب سے مزید تحقیقات کے لیے جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا گیا۔

پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی ہر دو ہفتے بعد ایپکس کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے گی اور تمام تحقیقات 60 روز کے اندر مکمل کرے گی۔
جے آئی ٹی کی تحقیقات کےبعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائےگاکہ وزیراعظم اور ان کے بچے مجرم ہیں یا بےقصور۔
پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں
جے آئی ٹی کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ﮈاریکٹر واجد ضیاء کررہے ہیں۔ اسکےاعلاوہ بلال رسول ایگزیکٹیو ﮈاریکٹر سیکورٹی ایکسچینج آف پاکستان، عرفان منگی ﮈاریکٹر نیب، آئی ایس آئی کے نعمان سعید، ایم آئی کے بریگیڈئر کامران خورشید اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز، شامل ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن میں سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے وزیراعظم صاحب اور ان کے بچوں کے وکیل کوئی ٹھوس دلائل نہ دےسکے تو کیا اب جے آئی ٹی کے سامنے حقیقت بیان کرسکے گے ؟ اگر حقیقت بیان کر دی یا نہیں بھی کی تو پھر بھی اصولی طور پر مجرم قرار دیے جائیں گے۔

اگر وزیراعظم صاحب یا ان کے بچے جے آئی ٹی کے سامنے کچھ الگ چیزیں یا منی ٹریل لے آتے ہیں تو سوال یہ اٹھے گا کہ پہلے معزز ججز کے سامنے یہ دلائل یا ثبوت کیوں نہیں رکھےگئے یا سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے پیش کیوں نہیں کیے گئے وغیرہ وغیرہ۔ اب چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر آخر میں کٹنا خربوزے کو ہی ہے۔

پانامہ لیکس کو جس طرح ہمارے میڈیا نے ہوا دی اس سے ایسا لگتا ہے کہ ملک کے سارے مسائل کا حل پانامہ کے فیصلے میں ہے۔ شاید جس سے عام شہری کی تمام مشکلات دور ہوجائیں گی۔ مگر حقیقت میں پانامہ کا فیصلہ جو بھی ہو عوام کو مہنگائی کی چکی میں ہی پس دیا جاناہے۔

عام شہری پانامہ لیکس فیصلے سے لاتعلق نظر آتا ہے۔ کیونکہ عوام کو اگر فکر ہے تو روزی روٹی کی اسے یہ فکر نہیں کہ پانامہ کیس میں اس کا وزیراعظم مجرم قرار پائے گا یا پھر کلین چٹ ملے گی۔ کچھ لوگوں سے جب اس حوالے سے گفتگو ہوئی تو ان میں کچھ کا کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہوگا۔

آج وزیراعظم کے ماتحت ادارے کا کوئی آفسر ملک کے وزیراعظم سے تحقیقات کرے گا اور اس سے جواب طلب کرے گا جوکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
ایک مزدور آدمی کا کہنا تھا کہ ہمارا ان سب باتوں سے کیا واسطہ نواز شریف صاحب مجرم ہو یا ملزم یا کوئی حاجی ہمیں تو روز صبح اٹھ کر مزدوری کرنی ہوتی ہے۔
اگر مزدوری نہیں کرینگے تو بچے بھوکے رہ جائیں گے۔
نہ تو وزیراعظم صاحبجے آئی ٹی سے کلین چٹ حاصل کرکے عوام کو مہنگائی کے طوفان سے بچائیں گے اور نہ ہی وزیراعظم کو مجرم قرار دینے سے ہم مزدوروں کی قسمت بدل جائےگی۔
یہاں تو ایک جاتا ہے تودوسرا اس سے بڑا آجاتا ہے۔

ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کتنے ہی بڑے بڑے سانحات کی تحقیقات کے لیے کمیشن، جے آئی ٹیز بن چکی ہیں کیا کسی بھی کمیشن یا جے آئی ٹی کا آج تک کوئی نتیجہ نکلا ہے۔ کیا سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ جس میں وزارت داخلہ کی کارکردگی پر سوال اٹھایا گیا تھا اس پر کوئی عمل ہوا؟ کیا کسی بھی غیرزمہ دار شخص نے استعفی دیا؟

کیا حمود الرحمن کمیشن رپورٹ آج تک سامنے آئی ہے۔ یا پھر کیا سانحہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا؟ جب ماضی میں کبھی کسی رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا تو کیا اب پانامہ کی جے آئی ٹی کی اصل کہانی منظر عام پر لائی جاسکتی ہے؟

پہلے ہی قوم نہ جانے کتنے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہے۔ اب ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصلے سے عام شہریوں کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یا حکمران حقیقت میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو یوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے عوام دوست اقدام پر توجہ دیں ورنہ اپنا اور قوم کا مزید وقت ضائع نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).