’مشال کی بہنوں کا علاقے میں تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا‘


توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے جانے والے عبدلوالی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان کے والد کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں مشال کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق انھوں نے یہ بات اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں اس معاملے پر چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہی اور عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ اگر ممکن ہو تو مقتول کی بہنوں کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منتقل کر دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ گواہان اور شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بدھ کو سماعت کے دوران خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل وقار بلور نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مشال خان کے قتل کے مقدمے کا حتمی چالان اگلے دو ہفتوں میں ٹرائل کورٹ میں پیش کردیا جائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل وقار بلور نے عدالت کو بتایا کہ ویڈیو کے ذریعے ابھی تک اس مقدمے میں 57 افراد کی نشاندہی ہوئی ہے جبکہ 53 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ مشال خان پر گولیاں چلانے والے ملزم عمران نے اقبال جرم کر لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعترافی بیان پر کتنا انحصار کیا جا سکتا ہے؟ اس پر ڈی آئی جی مردان نے عدالت کو بتایا کہ ثبوتوں کی روشنی میں اقبالی بیان کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ مشال خان کے قتل کا واقعہ صرف ایک دو روز میں تو نہیں ہوا بلکہ اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے ایک مہم چلائی گئی تھی جس پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ مقامی علاقے کی پولیس کو اس بارے میں تمام معلومات تھیں لیکن اُنھوں نے بھی اس کے سدباب کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے۔ چیف جسٹس نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ابھی تک یونیورسٹی کی انتظامیہ کے کردار کا تعین نہیں ہو سکا۔ مشال خان کے قتل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے مردان پولیس کے ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے کردار کا تعین ہو چکا ہے جس کے بارے میں رپورٹ حتمی چالان میں پیش کی جائے گی۔ مشال خان کے والد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت مقامی علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او موقعے پر موجود تھے لیکن اُنھوں نے نہ تو ملزمان کو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت پر اُن کے خلاف محکمانہ کارروائی نہ ہونا بھی کسی سنگین جرم سے کم نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ خوداحتسابی کے عمل کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے مقتول کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں انصاف فراہم کرنے سپریم کورٹ کے فرائض میں شامل ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مشال کے والد نے چیف جسٹس سے اس مقدمے کو اسلام آباد منتقل کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ مقدمے کی منتقلی کا طریقہ کار قانون میں درج ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ طیبہ تشدد کیس میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کو از خود بھی ٹرائل کا اختیار حاصل ہے۔ اس از خود نوٹس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp