سوزی اور مولا بخش کی یاد میں


بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں، شہزادوں، نواب، دیوان اور ان جیسے دوسرے بڑے لوگوں کے لیے پرانے زمانے میں شاہانہ سواری کا واحد تصور ہاتھی ہوتا تھا۔ بہت زیادہ امارت دکھانا مطلوب ہوتی تو سفید ہاتھی امپورٹ کر لیے جاتے۔ برصغیر میں ویسے بھی شروع سے ہاتھی انسانوں کے ساتھ رہنے والے جانوروں میں شمار ہوتے آئے ہیں۔ جنگی طاقت، شان و شوکت، عقل، وفاداری اور کئی دوسری خصوصیات ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ پتھر کے زمانے میں بنیں یا آج این سی اے میں کوئی طالب علم بناتا ہو، ہاتھی کی تصویریں، مجسمے، سکیچز ہمیشہ سے آرٹ کا اہم حصہ رہے ہیں۔ مغل بادشاہوں نے تو ہاتھی کی سواری کو اتنا کمفرٹیبل کر لیا تھا کہ باقاعدہ محل والے مزے ہاتھی پر بیٹھے بیٹھے ہو جاتے تھے۔ اکبر کے زمانے میں ایک سو ایک ہاتھی ایسے تھے جو صرف بادشاہ کی سواری کے چکر میں کھڑے جھولتے رہتے تھے۔ پرانی منی ایچر تصویروں میں ہاتھیوں کے اوپر بیٹھے بادشاہ کے سر پہ جو چھتری سی نظر آتی ہے اسے میگھ ڈمبر کہتے تھے اور وہ بھی شہنشاہ اکبر کی ایجاد تھی۔ پھر ہاتھیوں کو سجانے کے لیے کئی طرح کے زیورات ہوتے تھے الغرض ان زمانوں میں امرا کے ہاتھی آج کل کی فلی لوڈڈ آپشنز والی گاڑیوں سے کم نہیں تھے۔

ہاتھیوں کا ہاتھی ہمارا مولا بخش تھا۔ بہادر شاہ ظفر کا یہ ہاتھی جب بیٹھتا تو قد میں عام ہاتھیوں کے برابر آتا۔ ہر وقت فل مست رہتا، حرام ہے جو کوئی ملازم آس پاس پھٹک جائے۔ صرف ایک خدمت گار سے اٹیچ تھا۔ شاہی سواری سے ایک دن پہلے ہرکارہ آ کے ہوشیار کر جاتا تھا کہ میاں مولا بخش، تیار رہو، کل بادشاہ سوار ہوں گے۔ اب مولا بخش کی تیاریاں دیکھنے والی ہوتیں۔ پہلے جمنا کنارے لے جا کر نہلایا دھلایا جاتا، خوب اچھے سے صاف ستھرے ہو کر کھڑا ہو جاتا تو ایلیفینٹ ڈیزائنر آ جاتے۔ وہ لوگ کافی دیر تک اس پر نقش و نگار بناتے۔ پھر زیورات چڑھنا شروع ہوتے، طرح طرح کی موتیوں والی جھالریں لٹکتیں۔ ویلوٹ کی چادریں اوڑھائی جاتیں۔ بادشاہ کے موڈ کے مطابق ہودا یا عماری کسے جاتے۔ ہودا نسبتاً کم آرام دہ چیز تھی اور عماری کو چھوٹا سا ہوادار کمرہ سمجھ لیجیے، تو بادشاہ کے سفر کی طوالت، موسم اور مزاج کے حساب سے مولا بخش کو بہترین آراستہ کر کے فیل خانے لایا جاتا۔

جب بادشاہ کے باہر آنے کا وقت ہوتا تو وہی خاص ملازم اسے ڈیوڑھی میں لے آتا۔ بہادر شاہ ظفر آتے تو انہیں دیکھتے ہی تین مرتبہ سونڈ لہرا کے اپنی سی آواز میں مولا بخش سلام کرتا اور پھر ایسے بیٹھ جاتا جیسے کوئی بت ہو۔ مجال ہے جب تک بادشاہ سوار نہ ہوں یا ہاتھی چلانے والا جم کر نہ بیٹھ جائے وہ اپنا کان بھی ہلا لے، ایک دم سٹل! پھر ان سب کے بیٹھنے پر ایک مرحلہ اور باقی ہوتا تھا۔ بادشاہ سلامت کا حقہ بھی جمایا جاتا تھا اور سیٹنگ اس کی ایسی ہوتی تھی کہ تقریباً ہاتھی کے دونوں کانوں کے درمیان وہ شاہی حقہ فٹ ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ ہو جاتا تو اس کے بعد مولا بخش کھڑا ہوتا اور چوبدار کے اشارے پر چلناشروع کرتا۔ اب کسی مستی کا نام و نشان دور دور تک نہیں ہوتا تھا۔ جب تک بادشاہ سوار ہیں، حقہ سر پہ ہے، سوال ہی نہیں کہ یہ جانور ذرا لہرا کر بھی چل لے۔ ایسی سبک اور ہموار چال ہوتی کہ چلم تک نہیں ہلتی تھی۔ شاہی سواری کا وقت ختم ہوتا، بادشاہ کو ڈیوڑھی سے رخصت کرتا، اپنے تھان پر آتا تو مولا بخش پھر وہی مست، وہی غصیل ہاتھی ہوتا تھا۔

وہ بڑوں کو تو خاص لفٹ نہیں کراتا تھا لیکن چھوٹے بچوں سے دوستی کے لیے مشہور تھا۔ دس گیارہ برس تک کی عمر کے بچے اسے گھیرے رکھتے اور وہ ان سے کھیلا کرتا۔ جینئیس پن کی انتہا یہ تھی کہ بچے اسے کہتے ”نکی آوے“ تو وہ اگلا ایک پیر ہوا میں اٹھا لیتا اور ادھر سے ادھر لہراتا رہتا اور یہ سب کچھ بچوں کے بتائے گئے وقت کے حساب سے ہوتا تھا۔ بچے ایک گھڑی کے لیے کہتے تو اتنی دیر، کوئی دو گھڑی کہتا تو ٹھیک اتنے وقت پاؤں ہوا میں رکھتا، یا پھر جب بچے کہتے کہ ”ٹیک دے“ تو مولا بخش کا پیر زمین سے لگ جاتا۔ اب بچوں کی باری ہوتی تھی۔ وہ منہ سے آواز نکالتا اور بچے پیر اٹھا لیتے، کوئی تھک جاتا اور کہتا کہ بس اب ایک گھڑی ہو گئی تو ہاتھی صاحب سر ہلا کر اشارہ کرتے کہ نہیں ابھی ٹائم پورا نہیں ہوا جب وقت ہو جاتا تو دوبارہ شوں کی سی آواز نکالتے اور بچوں کے پیر زمین پر آ جاتے۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ کے بعد جب محل پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تو جانوروں کا معاملہ بھی ان کے سپرد ہو گیا۔ مولا بخش نے قبضے والے دن کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ اس کی رکھوالی کے لیے جو بندہ رکھا گیا تھا اس نے اوپر جا کے رپورٹ دے دی کہ صاحب مولا بخش کھانا پینا چھوڑ چکا ہے، کل کلاں کو مر گیا تو ہمارا قصور نہیں ہو گا۔

گورا صاحب خود بہت سے لڈو اور مٹھائی لے کر آئے، ہاتھی کے آگے رکھوایا، ہاتھی نے سونڈ میں لپیٹا اور ایسے گھما کر پھینکا کہ اسی وقت افسروں نے باغی ہونے کا چارج لگا دیا اور ہاتھی والے سے کہا کہ اسے نیلام کر دو۔ بہادر شاہ کا لاڈلا بازار میں نیلامی کے لیے آیا، آنا ہی تھا، ان کے تو بیٹوں کے سر بھی ان کے سامنے ٹرے میں سجا کر لائے گئے تھے، یہ تو پھر بھی ہاتھی تھا۔ بولی لگی اور کچھ دیر بعد ایک پنساری نے آخری بولی دے کر اسے خرید لیا۔ ہاتھی کے مہاوت نے دکھ سے کہا، میاں مولا بخش، ساری عمر بادشاہوں کی نوکری کرتے کرتے تمہاری اور ہماری قسمت ایسی پھوٹی کہ اب ہلدی بیچنے والے کے دروازے پر بندھیں گے۔ مولا بخش کھڑے قد سے گرا اور وہیں مر گیا۔

ایک ہمارے لاہور کے چڑیا گھر کی سوزی تھی جو بیلجیم سے اسی کی دہائی میں منگائی گئی تھی اور شروع میں صرف انگریزی اور ایک آدھ بدیسی زبان سمجھتی تھی۔ افریقی نسل کی سوزی پی آئی سے لاہور آئی تھی اور اس کے لیے بطور خاص یہ ہدایات تھیں کہ اسے دھوپ سے بچانا ہے۔ شروع میں شاید یہ نخرے اٹھائے گئے ہوں بعد میں تو سوزی اس اجاڑ ڈھنڈار پنجرے میں دھوپ چھاؤں سے بے نیاز کھڑی نظر آتی۔ بچپن میں چڑیا گھر کی اٹریکشن میں پہلے نمبر پر ہاتھی ہوتا تھا۔ سوزی نے کم از کم دو نسلوں کو سواری کروائی، ان سے مونگ پھلی، کیلے اور پتہ نہیں کیا کیا لے کر کھایا۔ بچے ہاتھ آگے بڑھاتے اور سوزی کی سونڈ پہنچ جاتی۔ پھر اس کے نہانے کا سین بھی بڑا مزے کا ہوتا تھا۔ بعد میں یہ بڑے بڑے کان لہرا کر واک کی جاتی۔ لیکن کب تک، ہر جاندار آتا اسی لیے ہے کہ اسے جانا بھی ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں جب آس پاس دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہوں، سیاست میں جماعتوں کا پارہ چڑھا ہوا ہو اور نت نئے لیکس چلے آ رہے ہوں ایک ہاتھی کی موت پر کالم پڑھنا کچھ عجیب چریا پن لگے گا۔

مولا بخش بادشاہوں کا ہاتھی تھا۔ شاہانہ خوراکیں کھاتا تھا۔ زیوروں سے سجایا جاتا تھا۔ پورے ناز نخرے اٹھائے جاتے تھے۔ صرف بادشاہ کی سواری کے لیے مخصوص تھا، مرا تو ہر لکھنے والے نے اس کو ٹریبیوٹ پیش کیا، خوب واہ واہ ہوئی کہ کیسا وفادار ہاتھی تھا، مالک کے لیے جیا اور جب اس سے بچھڑا تو صدمے سے مر گیا۔ سوزی ہماری ہتھنی تھی، عوام کی، غریب غربوں کی، ہمارے بچوں کی، ایویں میلی کچیلی، کیچڑوں میں لوٹتی، ہر بچے کی یادداشت کا حصہ بن چکی تھی۔ ساری عمر ان کو سیریں کروائیں، ہر روز نت نئی فیملیز کے ساتھ شغل لگائے، کھانے پینے میں بھی سرکاری جانوروں کی طرح مست ملنگ تھی اور پھر ہم سب کا دل بہلاتی ایک دن پٹ سے گری اور مر گئی۔ تو جب شاہی ہاتھی کے لیے اتنے سارے لوگ لکھ سکتے ہیں تو ایک چھوٹی سی، بدصورت سی، کالی سی، میلی سی مگر من موہنی اور ہمارے بچوں کی دوست سوزی کو یاد کرنے میں کیا حرج ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain