پرویز ہود بھائی کا مسئلہ کیا ہے؟


آپ جب کبھی یوٹیوب پرڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا نام لکھیں گے، صرف نام، یوٹیوب آپ کے سامنے ان کے سیاسی مباحثے نہیں، علمی مباحثے رکھے گا۔ ایک کے بعد ایک وڈیو کلک کرتے جائیں اور سائنس کے جہانِ حیرت میں گم ہوتے جائیں۔

فزکس کے استاد اور محقق کی حیثیت سے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کردار پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ اس پر کلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا بھر کی جامعات اپنی درس گاہوں میں انہیں سننا پسند کرتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی جامعات میں فزکس پڑھانے والے اساتذہ دنیا کو یہ بتاکر اچھا محسوس کرتے ہیں کہ ڈاکٹر پرویز ہمارے استاد ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر پرویزایک سوشل ایکٹیوسٹ ہیں۔ سوشل ایکٹیوسٹ بننے یا ہونے کے لیے ابھی تک دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ڈگری کی شرط لاگو نہیں ہوئی ہے۔ آپ برسر روزگار ہیں کہ بے روزگار، ڈرامہ نگار ہیں کہ کالم نگار، افسانہ نویس ہیں کہ شاعر، استاد ہیں کہ شاگر، غریب ہیں کہ امیر، مذہبی ہیں کہ غیر مذہبی، آپ سوشل ایکٹیوسٹ بن سکتے ہیں۔ یہ بتانے کی قطعا ضرورت نہیں کہ سوشل ایکٹی وسٹ بنیادی طور پر انسان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے حساس ہوتا ہے، اور بنیادی حقوق میں اظہار رائے کی آزادی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جس معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں، وہاں مذہبی انتہا پسندی کو وہ ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ کوئی غلط احساس بھی نہیں ہے۔ یہاں سیاسی اشرافیہ اورمذہبی اشرافیہ علم پرعقیدے کے اجارے کو تسلیم کرتا ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر شہریوں کے بیچ امتیاز برتنے کو وہ اسلامی تعلیمات قرار دیتا ہے۔ شہریوں کو اپنی مرضی سے افکار کو اختیار کرنے اور ترک کرنے کا حق نہیں دیتا۔ روایتی فکر سے ہٹ کر کسی فکر کی ترویج و ابلاغ کو وہ قومی سالمیت اور اقدار کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ نقطہ نظر کے اختلاف کو اہانت مذہب اور غداری سے تعبیر کرتا ہے۔ ماورائے عدالت اساتذہ اور سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنے کو جائز تصور کرتا ہے۔ اب ایک سوشل ایکٹیوسٹ ان معاملات پر اپنی رائے دیے بغیر کیسے رہے گا۔ ایک شہری اور سوشل ایکٹیوسٹ کے طور پر وہ حق رکھتا ہے کہ اپنی رائے اور جذبات کا اظہار کرے۔

پرویز ہود بھائی فزکس کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عام ذہنوں میں موجود تخلیقِ کائنات کے روایتی تصور کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس نتیجہِ فکر کے پیچھے سائنس کھڑی ہے۔ سائنسی علوم جب کبھی زیر بحث آتے ہیں تو مذہبی رجحانات رکھنے والے طالب علم کے ذہن میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوال اس لیے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ تخلیق کائنات سے متعلق اس کو جو تصورات سائنس سے نابلد ایک عالم کی تفہیم مذہب دیتی ہے، سائنسی کلیے ان تصوارات کی بنیادوں میں پانی چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس فکری ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ایک سچا طالب علم لامحالہ استاد سے تخلیق کائنات پر سوال کرے گا۔ فزکس کا استاد سوال کا جواب دے گا کہ یہی اس کا فرض منصبی ہے۔ اس پر بات کرے گا، اور ظاہر ہے جس تصور کو استاد درست سمجھتا ہے، وہی وہ بیان کرے گا۔

یہ سوالات ہود بھائی سے ہی نہیں ہوتے۔ ہود بھائی سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک فزکس کے ہر استاد سے ہوتے ہیں۔ اب استاد اگر ”صلیبی جنگ اور اسامہ بن لادن“ نامی کتاب کا مصنف ہوگا تو جواب اور ہوگا لیکن استاد اگر A Brief History of Time کا مصنف ہوگا تو ظاہر ہے پھرجواب کچھ اور ہی ہوگا۔ دونوں کو اپنی اپنی بات کہنے کا برابرحق ہے۔ طالب علم کا پھر یہ حق ہے کہ دونوں میں سے جو بات درست معلوم ہوتی ہے، اس کو پلو سے باندھ لے۔ اور فرض یہ ہے کہ جن نتائج تک وہ پہنچا ہے، اسے بلا کم وکاست بیان کردے۔

پرویزھود بھائی جس کردار کے سبب زیرعتاب رہتے ہیں، وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ان کا سیاسی کردار ہے۔ احباب چاہتے ہیں کہ وہ تنقید نہ کریں۔ بات یہ ہے کہ مذہب کے جو خانے پولیٹیکل کیے جا چکے ہیں اور سیاسی نقطہ ہائے نظر کے بیچ رکھے جاچکے ہیں، وہ زیر بحث تو آئیں گے۔ آپ کے سیاسی نقطہ نظر پر اس لیے تنقید نہ کی جائے کہ وہ آپ کا عقیدہ بھی ہے، تو خود بتلایئے کہ اسے کیسے ممکن بنایا جائے؟ جب ہم سب سیاسی میدان میں اپنی اپنی فکر کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر تنقیدی مباحث برابر کی سطح پر ہی ہوں گے۔ ایک شہری ارتداد کی سزا کا قائل ہے دوسرا نہیں ہے۔ دونوں کے اپنے دلائل ہیں، وہ برابر کے درجے میں دیے جانا ہی مکن ہے۔ یہ خواہش قابل احترام ہے کہ ہود بھائی فزکس کے علاوہ کسی مباحثے میں حصہ نہ لیں۔ فیصلہ مگر ہود بھائی کریں گے۔ بات نہ کرنا بھی ان کا حق ہے، لیکن اگروہ بات کرتے ہیں تو دگنے درجے میں ان کا حق ہے۔

جیسا کہ فزکس کا ایک چھوٹا سا متشکک استاد باقاعدہ کتاب لکھ کراسامہ بن لادن کی فضیلت بیان کرنے کا حق رکھتا ہے، جیسا کہ ایک صحافی قیامت کی نشانیاں بتانے کا حق رکھتا ہے، جیسا کہ ایک سول سروسز کا سابق ملازم جمہوریت کو کفریہ نظام کہنے کا حق رکھتا ہے، جیسا کہ سابق بیوروکریٹ سترسال بعد قیامت کے آنے کا اور یاجوج ماجوج کی موجودگی کا بتانے کا حق رکھتا ہے، جیسا کہ ماس کام اور ایل ایل بی کی ڈگری رکھنے والے اہل قلم سیکولرازم کو عین کفر کہنے کا حق رکھتے ہیں، ٹھیک اسی طرح پرویز ہود بھائی اپنے معاشرے میں موجود کسی بھی جبر پر اپنی رائے دینے کا اور اپنے افکار کی ترویج کا حق رکھتے ہیں۔

آغا وقار کو حق ہے کہ وہ پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کرے۔ حامد میر اور خور شید شاہ صاحب کا حق ہے کہ وہ اس دعوے سے متاثر ہوں اور اس کی جی بھر کے ترویج کریں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا حق ہے کہ وہ آغا وقار کے دعوے کو علی الاعلان تسلیم کریں (جیسے کہ انہوں نے کیا)۔ ٹھیک اسی طرح پرویز ہود بھائی کا حق ہے کہ وہ اس دعوے کو مسترد کردیں۔ مگر کیسے؟

وہ ایسے کہ آغا وقار اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے دعوے کے اثبات کے لیے ثبوت و شواہد مہیا کریں گے اور ہود بھائی اس دعوے کے رد پر دلیل پیش کریں گے۔ اب اگر آغا وقار، ڈاکٹرعبدالقدیرخان، جناب خورشید شاہ اورحامد میرصاحب کے دو ماہ کے دعوے باطل ہوجائیں، اورھود بھائی کی پچیس منٹ کی تقریر درست ثابت ہو جائے تو طنز اور طعن کے حقدار ہود بھائی نہیں بنتے۔

انڈے آلو ٹماٹر پیازگائے کی آنکھ بکرے کے پیٹ اور بادل و چاند پر اللہ رسول اور اہل بیت کے نام ڈھونڈنے والے طبقے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ہندوستان میں لو ویٹ سِٹیلائٹ بنانے والے مسلم نوجوان کو لے کرپاکستان کے استاد پرویزھود بھائی پرطعن کسیں۔

احتیاطاً پہلے دیکھ لیں کہ کہیں وہ مسلم نوجوان کہیں ڈاکٹر عبدالسلام ہی نہ ہو۔

کل کو اس مسلم ہندوستانی کے خیالات و افکار خدا نخواستہ پاکستان کی نرگس ماول والا جیسے نکل آئے تو کیا کریں گے؟

اگر وہ مسلم ہود بھائی کی نظر سے ہی دنیا کو دیکھتا ہو تو کعبے کس منہ سے جائیں گے ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).