مستونگ کے دھماکے نے مجھے بھی مار دیا ہے


میں مستونگ میں ہونے والے حالیہ دھماکے میں تھوڑا سا اور مر گیا ہوں۔ زمین پر رائیگاں بہنے والا خون میرا بھی تھا۔ دیواروں، درختوں اور گاڑیوں کے تباہ شدہ ڈھانچوں پر چپکے گوشت میں میری بوٹیاں بھی شامل تھیں۔ اس سانحے کے نتیجے میں یتیم اور بے سہارا کرنے والا بھی میں ہوں اور ہونے والا بھی میں ہی ہوں۔ مجھے قسطوں میں مارا جا رہا ہے، یتیم اور بے سہارا کیا جارہا ہے، لیکن شاید مجھے محسوس نہیں ہونے دیا جارہا۔ متاثرہ علاقے کو سیکورٹی ایجنسیوں نے تحویل میں لے لیا، فوری طبی امداد کا اہتمام بھی کر دیا گیا، ذمہ دار سرکاری اہلکاران بھی بر وقت موقع پر پہنچ آئے، تحقیقات کا آغاز ہو گیا، سار ے نمونے حاصل کر لئے گئے لیکن میں بتا رہا ہوں کہ میں بچنے کا نہیں۔ جتنی بھی جلدی سے جتنے بھی اعلیٰ ہسپتال میں مجھے پہنچا دیا جائے میں بچنے کا نہیں۔

میں بچنے کا نہیں کہ انسان سیکورٹی ایجنسیوں، ہسپتالوں، تحقیقات، علاج معالجے سے بچتا ہے لیکن اسی وقت جب اُس کی نیت جینے کی ہو۔ میں ہر دھماکے میں جتنا مرتا ہوں اُتنا ہی بے حس ہوتا جاتا ہوں۔ میرے جسم کے باقی کے کسی حصے میں نہ درد ہوتا ہے اور نہ ہی چپکے قدموں اپنی طرف آتی موت کا احساس ہوتا ہے۔ موت دبے پاؤں آتی ہے مجھے تھوڑا سا مارتی ہے، یتیم اور بے سہارا کرتی ہے لیکن پھر معاوضے کا اعلان ہوتا ہے، علاج معالجے کا بندوبست شروع ہوجاتا ہے، اور میں باقی کا زندہ انہیں دھندوں میں مصروف ہو جاتا ہوں۔

میری طرف سے موت سے مذاکرات بھی کیے گئے، اُس کے خلاف انتہائی شدید آپریشنزکیے گئے، ارد گرد کے دوست احباب کو بیچ میں ڈالا گیا لیکن کچھ بھی رد المرگ ثابت نہیں ہوا۔ اُس کا جب بھی جہاں بھی جی چاہتا ہے وہ مجھے تھوڑا سا مار دیتی ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ مذہبی انتہاپسندوں کے ٹھکانوں میں چھپی رہتی ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ یہ سرحد پار سے آتی ہے۔ لیکن موت آتی ہے، مارتی ہے اور پکڑائی نہیں دیتی۔ میں مسلسل قسطوں میں مر رہا ہوں۔

مجھے کون بچائے گا؟
کوئی ہے!

کوئی ہے!شاید کوئی نہیں۔ کوئی نہیں۔ مجھے میرے علاوہ کوئی نہیں بچا سکتا۔ نہ فوج، نہ علاج معالجہ، نہ معاوضہ اور نہ ہی دوست احباب۔ میں نے یہ سب کچھ کر کے دیکھ لیا ایک دفعہ نہیں کئی کئی دفعہ لیکن میں مر رہا ہوں قسطوں میں مر رہا ہوں۔ شاید موت بھی کہیں کہیں سے مری ہو لیکن اُس کے ہاتھ سلامت ہیں مجھے مارنے کے لئے، اُس کی برق رفتارٹانگیں سلامت ہیں مجھے مار کر بھاگ جانے کے لئے۔ میں مر بھی رہا ہوں اور بھاگ بھاگ کر تھک بھی رہا ہوں۔ میرے قویٰ ٹوٹ رہے ہیں، مرے حوصلے ہار رہے ہیں، میں بکھر رہا ہوں، میں بھٹک رہا ہوں۔

کوئی ہے!

بند کرو یہ رحم کی اپیلیں، مذمت کے بیان، مر ثیے، نوحے، نعرے، سب بند کر دو۔ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اپنی سانسیں بحال کرو۔ اپنی دھڑکنیں سنبھالو۔ اپنے وجود پر توجہ دو۔ کلاچی سے لے کراچی تک جب سارے مارنے والے ایک ہیں تو مرنے والوں کو ایک ہونے کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟ یہ جو مستونگ میں مرے ہیں، وہ جو اے پی ایس میں مرے تھے، وہ سب جو مسجدوں، مزاروں پر لقمہ ء اجل بنے وہ سب میں ہوں، وہ سب ہم ہیں۔ فیصلہ کرو کہ ہم نے مرنا ہے یا زندہ رہنا ہے۔ اور اگر زندہ رہنا ہے تو پورا زندہ ہونا ہو گا۔ پورے وجود کے ساتھ زندہ ہونا پڑے گا۔

اس دنیا میں دو ہی تہذبیں ہیں دو ہی تمدن ہیں۔ ایک موت کی تہذیب اور دوسری زندگی کی تہذیب۔ مجھے عرض کرنے دیں کہ برصغیر کے دہشت گرد حکمران طبقات نے اس خطے میں ہمیشہ موت کو رواج دیا ہے۔ موت کی کالک میں اُن کے گناہ، جرم اور ظلم چھپے رہتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ آج کے دہشت گرد، گھُس بیٹھیے، حملہ آور ہماری تاریخ کی راہداریوں میں لائق پرستش مسلم بادشاہ قرار دیے گئے ہیں۔ کیوں؟ جواب بہت سادہ ہے کہ یہاں حکمرانی کے لئے لوٹ مار، قتل و غارتگری، وحشت و بربریت کو جائز تسلیم کر لیا جائے۔ یہاں حکومت لاٹھی، گولی، آہنی ہاتھ کے ذریعے چلانے ہی کو حکمت سمجھ لیا جائے۔ محکوموں کی تقدیر میں اندھی تقلید اور خود کُش جذباتیت کے سوا کوئی دیگر عنصر شامل نہ ہونے دیا جائے۔ سوال پہ قدغن، مکالمے کے گلے میں عقائد کا پھندا اور سوچ پر مذہبی ٹھیکیداری کا دھندا یہ دہشت گردی کی جنم بھومی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).