سائنس والے سوشل ایکٹوسٹ کیوں نہیں ہو سکتے؟


ہماری تعلیمی نفسیات میں سائنس کا شعبہ سوشل علوم سے بالکل الگ تھلگ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بلکہ سائنس پڑھنے کے لیے سماجی علوم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ سائنسی علوم میں دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سماجی علوم خصوصاً سیاست، تاریخ اور علومِ انسانی سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ مذہبی معاملات میں کسی سائنس سے وابستہ فرد کا بولنا تو نہایت معیوب اور گستاخانہ کہلاتا ہے۔

یہ تفریق کچھ زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ سائنس پڑھنے والوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ آپ تاریخ، سیاست اور مذہب سے کیا تعلق، اپنا کام کریں۔ ہمارے میڈیکل کے شعبے میں انسانی رویوں کی نفسیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ہم ڈاکٹرز سب سے پہلے انسانی سطح پر مریضوں سے واقف ہوتے ہیں، ان کا مرض بعد میں ہمارے تجربے کا حصہ بنتا ہے۔ بعض اوقات تو مریض کی حالت، رویہ اوران سے کلام کرکے ہی بہت سا مرض معلوم ہو جاتا ہے۔ سائنس دان یا سائنسی علوم سے وابستہ افراد سماجی رویوں کو زیادہ بہتر جانتے ہیں یا انھیں جاننا چاہیے۔

پچھلے کچھ دنوں سے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جو سائنس کے ایک اعلیٰ استاد اور ریسرچر کے طور پر جانے جاتے ہیں، کو کسی تقریب میں قومی معاملات پر گفتگو کی وجہ سے ہدفِ ملامت بنایا جا رہا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انھوں نے کیا کہا اور انھیں کیا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ مگر کچھ بلاگ پڑھ کے مجھے عجیب لگا۔ کالم نگار لکھ رہے ہیں کہ ہود بھائی ایک سائنس دان ہیں، ان کا میدان فزکس ہے، انھیں چاہیے کہ وہ فزکس کی طرف توجہ دیں۔ قومی سیاست اور مذہبی معاملات سے ان کا کیا تعلق۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایک سائنس دان کو کونے میں بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے ہماری تربیت کی نفسیات کام کر رہی ہے جو صدیوں سے سائنس اور سوشل مسائل کو الگ الگ تصور کرتی آ رہی ہے۔ سائنس خصوصا میڈیکل میں ایسے بہت سے مسائل اور ایشوز ہیں جو براہِ راست سماجی ہیں۔ ایک ڈاکٹر ان علوم پر سماجی معلومات کو سمجھے بغیر اپنی رائے دے ہی نہیں سکتا۔ جیسے ضبطِ تولید اور حفظانِ صحت، اتلافِ جنین، بانجھ پن کا مسئلہ، جنین کشی، ٹیسٹ ٹیوب عمل بارآوری (IVF) یا (In Vitro)، اور اطفال کے حوالے سے (Paediatries STD) مسائل وغیرہ۔ ان مسائل کو ضرور ڈسکس کیا جانا چاہیے۔ سائنس دان درحقیقت قومی شناخت اور انسانی نفسیات کے درمیان سفر کر رہا ہوتا ہے۔

پرویز ہود بھائی لفٹ اور رائٹ کی جنگ کے علاوہ سماجی علوم میں بھی بہت اعتبار رکھتے ہیں۔ میں نے چھوٹی عمر میں ان کے ہائر ایجوکیشن پر آرٹیکلز پڑھ رکھے ہیں جو ڈان میں شائع ہوتے۔ انھوں نے تعلیم، صحت، اخلاقیات اور سیاسی مسائل جن میں طالبانائزیشن کے خلاف کھل کر لکھا ور بولا۔ ایسے کردار تو فالو کیے جانے چاہیے۔ ہمارے اساتذہ خصوصاً سائنس کے ٹیچرز دنیا جہان سے بے خبر ہوتے ہیں۔ میتھ پڑھانے والا اپنی مساوات سے باہر سوچ ہی نہیں سکتا اوریہی حال انجینرنگ کے شعبہ جات میں پڑھانے والوں کا ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے ہاں سائنس اور قومی مسائل کے درمیان بہت دوری ہے۔

پرویز ہود بھائی کی رائے کو ایک سائنس دان کی رائے کے طور پر لینا چاہیے جو بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جو غلط بھی ہو سکتی ہے مگر یہ کہنا کہ وہ سائنس کے آدمی ہیں ان کے سماجی مسائل اور مذہب سے کیا تعلق نہایت غلط مفروضہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).