سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کا ایک عبرت ناک ورق


جیسا کہ ہم جانتے ہیں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خلافت عثمانیہ سے گہری محبت رہی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب خود ترک قوم اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں خلافت کا بستر لپیٹ رہی تھی، برصغیر کے کونے کونے میں نہ صرف مسلمان تحریک خلافت چلا رہے تھے بلکہ مسلمان عورتوں نے خلافت کے دفاع کے لئے اپنے زیور تک اتار کر چندے میں دے دیے۔ اس دور کا ادب بھی اس مذہبی حمیت کی گواہی دیتا ہے۔ ایک طرف تو مولانا محمد علی اور شوکت علی کی والدہ سے منسوب وہ ترانہ نما مصرع مقبول عام تھا ”بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو“۔ دوسری طرف گلی گلی میں بچے گاتے پھرتے تھے ”مصطفیٰ کمال وے، تیریاں دور بلاواں“۔ ایک ہی وقت میں خلافت کے لئے جان دینے اور مصطفیٰ کمال کی بلائیں دور ہونے کی دعاؤں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند کا سیاسی اور تاریخی شعور کس درجہ بلند تھا۔

بلقان کی جنگوں کے دوران ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں طبی وفد بھی ترکی بھیجا گیا۔ اسی طرح 1920۔ 21 میں تحریک خلافت کے مسلمان رہنماؤں نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ افغانستان ہجرت کر جائیں جو کہ دارالسلام تھا۔ عام توقع یہ تھی کہ افغان حکومت دل و جان سے دارالحرب ہمدوستان سے ہجرت کر کے افغانستان آنے والے مسلمانوں کا خیر مقدم کرے گی۔ واضح رہے کہ ہجرت تحریک میں کسی قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما نے دارالحرب ہندوستان سے رخصت ہونا قبول نہیں کیا۔ البتہ غریب اور نچلے متوسط طبقے کے ہزاروں مسلمان اپنی جائیدادیں اونے پونے داموں فروخت کر کے کر افغانستان چلے گئے۔ افغانستان میں غیرمتوقع مشکلات کے باعث یہ مسلمان مالی، معاشرتی اور سیاسی طور پر تباہ ہو گئے۔ ہزاروں نوجونوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ سرکاری ملازمتوں کو خیر باد کیہ دیا۔ ہجرت کرنے والوں کی ایک بڑے تعداد کبھی واپس ہندوستان نہ آ سکی۔ اس سے تحریک خلافت کے رہنماؤں کی دور رس بصیرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج کی طرح اس زمانے میں بھی ہندوستانی مسلمان عالمی حالات و واقعات سے بڑی حد تک بے خبر تھے۔ ساڑھے آٹھ سو برس تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان بادشاہوں نے کبھی ترکی کے خلیفہ کی اطاعت کا اعلان نہیں کیا۔ تاہم پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا تو مسلمانوں کو خیال آیا کہ عثمانیہ خلافت تو مسلم امہ کا ایک جزو لاینفک تھی۔

سلطنت عثمانیہ کی تاریخ ایک دلچسپ مطالعے کا موضوع ہے۔ آئیے اس بندوبست حکومت کے صرف ایک پہلو پر نظر ڈالتے ہیں۔ عثمانی نطام حکومت کا ایک بنیادی اصول برادر کشی تھا یعنی بادشاہ بننے والا خلیفہ اپنے تمام بھائیوں کو قانونی طور پر قتل کر سکتا تھا تاکہ اس کی حکومت کے خلاف سازشوں کا امکان ختم ہو جائے۔ سلطنت عثمانیہ باقاعدہ طور پر 1292 میں قائم ہوئی۔ چار سو برس تک برادر کشی کے اصول پر عمل ہوتا رہا۔ 1595ء میں برسراقتدار آنے والے حکمران محمد سوم نے برادر کشی کے اصول کی بنیاد پر ایک ہی رات میں اپنے انیس بھائی قتل کیے۔ ان میں سے سب سے بڑے بھائی کی عمر گیارہ برس تھے۔ اس موقع پر محمد سوم کی چہیتی خواتین کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ سلطان کی وفات کے بعد ان کے بچوں سے بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ چنانچہ حرم سرا میں کچھ جوڑ توڑ کے بعد ایک نیا اصول وضع کیا گیا۔

وہ اصول یہ تھا کہ ہر بادشاہ حکومت سنبھالتے ہی اپنے اگلے ممکنہ امیدوار یا ولی عہد کو قید تنہائی میں ڈال دے گا۔ اسے کسی شخص سے میل جول کی اجازت نہیں ہو گی تاکہ کسی قسم کی سازش کا امکان باقی نہ رہے۔ یہ امکان سلطنت عثمانیہ کے ذہین حکمرانوں کے ذہن سے ماورا تھا کہ نامعلوم مدت تک تمام انسانی روابط سے محروم رہنے والے ولی عہد کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی نیز یہ کہ انسانی معاملات سے مکمل علیحدگی کے باعث ایسا شخص امور مملکت چلانے کی تربیت کیسے حاصل کرے گا۔ ولی عہد کی قید تنہائی کا یہ اصول سترہویں صدی کی ابتدا میں اپنایا گیا۔ اس ضابطے سے گذرنے والے بیشتر حکمران ذہنی طور پر مختل یا مفلوج ہو جاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ولی عہد کی قید تنہائی کئی برس پر محیط ہوتی تھی جب کہ اسے محض چند مہپینوں کے لئے حکومت ملتے تھی۔ ہر طرح کے علمی، تمدنی اور سیاسی معاملات سے قطع تعلق کے باعث یہ حکمران عام طور پر صرف جنسی سرگرمیوں نیز مضحکہ خیز کجروی مین دکچسپی رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ اس دوران میں یورپ اصلاح مذہب اور احیائے علوم جیسی تحریکوں کے علاوہ ابتدائی صنعتی انقلاب سے بھی گذر رہا تھا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ 1603 میں ولی عہد کی جبری قید تنہائی کے بعد برسراقتدار آنے والے حکمرانوں کی قید اور تخت نشینی میں کیا تناسب رہا۔

25 مئی 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).