کیا ٹرمپ جال میں پھنس رہے ہیں


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک کے بعد دوسری ایسی مشکل کا سامنا کررہے ہیں جس کا محور روس کے ساتھ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے تعلقات سے ہے۔ کل شام واشنگٹن پوسٹ نے یہ دھماکہ خیز خبر شائع کرکے واشنگٹن کے سیاسی ماحول میں تہلکہ مچا دیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف اور سفیر سرگئی کشلیاک کے ساتھ ملاقات میں انہیں ایسی انٹیلی جنس معلومات فراہم کی تھیں جو انتہائی خفیہ تھیں اور یہ معلومات امریکہ کو اس کے ایک حلیف ملک نے فراہم کی تھیں۔ اصولی طور پر امریکی صدر کوئی بھی خفیہ ملاقات کسی کو بھی فراہم کرنے کا اختیار رکھتا ہے لیکن اس معاملہ میں ایک تو یہ معلومات روس کو بتائی گئی تھیں جسے امریکہ میں دشمن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے ماہرین کا کہنا کہ کسی حلیف ملک سے حاصل ہونے والی معلومات اس کی اجازت کے بغیر کسی تیسرے ملک کو بتانا درست اقدام نہیں ہو سکتا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ پیغام کے ذریعے اس خبر کی تصدیق کی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں بطور صدر اس کا حق تھا۔

صدر ٹرمپ کا یہ اعتراف ان کے لئے سیاسی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرچہ ایوان نمائیندگان اور سینیٹ میں ری پبلیکن پارٹی نے گزشتہ ہفتہ کے دوران ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو برطرف کرنے کے معاملہ پر ٹرمپ کی سیاسی حمایت کی ہے لیکن روسی حکام کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کے سوال پر شدید تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اب ری پبلیکن پارٹی کے نمائیندے بھی اس بارے میں تفصیلی رپورٹ سامنے لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اب یہ معاملہ صدر کے اختیار اور ان کی سیاسی حکمت عملی کی بجائے امریکہ کی قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے جیمز کومی کو برطرف کرنے کے معاملہ پر سامنے آنے والے ہنگامہ کی بنیاد بھی یہی تھی کہ صدر نے ایک ایسے ادارے کے سربراہ کو برطرف کیا تھا جو وہائٹ ہاؤس کے خلاف اس معاملہ پر تحقیقات کررہا تھا کہ اس کے اہلکاروں کے روسی سفیر کے ذریعے روس کے ساتھ کس حد تک تعلقات تھے اور کیا ٹرمپ یا ان کے ساتھی انتخابی مہم کے دوران روسی حکام کے ساتھ رابطہ میں تھے۔ ٹرمپ اگرچہ اس حوالے سے کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردید کرتے رہے ہیں لیکن ایف بی آئی کے سربراہ کو ایک ایسے وقت برطرف کرنے سے ڈیموکریٹک پارٹی نے شدید احتجاج کیا ہے جبکہ وہ روسی معاملہ پر تحقیقات کو وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

جیمز کومی کی برطرفی کے بعد ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے مختلف وضاحتیں پیش کی گئی تھیں جس کی وجہ سے مزید شبہات پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ پیغام میں ایف بی آئی کے سابق سربراہ کو دھمکی آمیز انداز میں متنبہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہونے والی اپنی باتوں کے بارے میں بیان بازی نہ کریں کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کون سی گفتگو ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے خود ایک انٹرویو میں یہ بتانا ضروری سمجھا تھا کہ کومی نے ان سے کھانے پر بلانے کی درخواست کی تھی جسے انہوں نے مجبوری کے عالم میں منظور کرلیا تھا۔ اس ملاقات میں ایف بی آئی کے سابق سربراہ نے بقول ٹرمپ انہیں اپنی مکمل وفاداری کا یقین دلایا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کومی نے تین بار انہیں بتایا تھا کہ ایف بی آئی ان کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کررہی۔ انٹیلی جنس سے متعلق ذرائع کا کہنا کہے کہ ایف بی آئی کا سربراہ کسی صدر کا وفادار نہیں ہوتا۔ وہ ملک کے آئین کا وفادار ہوتا ہے اور ضروری معاملات میں صدر کی معاونت کرتا ہے۔ اسی طرح اس بات پر بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تجربہ کار بیوروکریٹ ہونے کے ناطے جیمز کومی نے وہائٹ ہاؤس میں دعوت کا تقاضا کیا ہوگا۔ اس کے برعکس ماہرین کا خیال ہے کہ کومی نے مجبوری کے عالم میں یہ دعوت قبول کی ہوگی۔

روسی وزیر خارجہ کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کا معاملہ اب اس لئے بھی اہم ہو گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کومی کو برطرف کرنے کے ایک ہی روز بعد روس کے وزیر خارجہ اور سفیر سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر امریکی میڈیا کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن روسی فوٹو گرافر موجود تھا اور روس نے اس ملاقات کی تصویریں شائع کردی تھیں۔ اس پر وہائٹ ہاؤس نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملاقات کے دوران فراہم کی جانے والی معلومات اس نوعیت کی تھیں کہ صدرکے عملہ کو صورت حال کی حساسیت کا اندازہ ہو گیا تھا اور انہوں نے فوری طور سے سی آئی اے اور محکمہ نیشنل سیکورٹی کو اس بارے میں مطلع کیا تھا۔ اس دوران سینیٹ کمیٹی بھی روس کے ساتھ ٹرمپ کے ساتھیوں کے روابط کے بارے میں تحقیقات کررہی ہے۔ اب جیمز کومی کو بھی بیان دینے کے لئے طلب کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ صدر ٹرمپ کے سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مائیکل فلین کے بارے میں وزارت انصاف نے وہائٹ ہاؤس کو بتا دیا تھا کہ ان کی روسی سفیر کے ساتھ ملاقاتوں کی وجہ سے وہ قومی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہو سکتے ہیں لیکن اس وارننگ کے اٹھارہ روز بعد واشنگٹن پوسٹ میں خبر کی اشاعت کے بعد فلین کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ تاہم ٹرمپ اس بات کا جواب دینے کی بجائے یہ سوال کرتے ہیں کہ واشنگٹن پوسٹ کوخبر کس نے فراہم کی تھی۔

ہو سکتا ہے ٹرمپ اس سیاسی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس بارے جوں جوں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی نئے سوالات بھی جنم لیں گے۔ روس کے ساتھ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے تعلقات کی نوعیت واضح ہونے اور اس بارے میں تحقیقات مکمل ہونے تک امریکی صدر کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali