بنیاد پرستی کا علمی اور سیاسی بحران


بنیاد پرستی مذہب کے نام پر قوموں کے انتظامی اقتدار، معاشی وسائل اور سماجی اختیار پر قبضے کی سیاسی تحریک ہے جس کا مفروضہ مقصد جدید سیاسی ڈھانچوں ، اجتماعی اداروں ، سماجی رویوں اور فکری رجحانات کو رد کر کے معاشرے میں رہنما اصول کے طور پر مذہبی احکامات کی لفظی تشریح اور قدیم مذہبی روایات کی بالادستی قائم کرنا ہے۔

بنیاد پرست گروہ ریاست اور معاشرے میں مذہبی قیادت کی مطلق ، مکمل اور تنقید سے ماورا بالادستی تسلیم کرانا چاہتا ہے ۔ اس سیاسی خواہش کا اظہار چیدہ چیدہ مذہبی عقاید اور ان سے اخذ کردہ روزمرہ اخلاقیات سے متعلق احکامات کی اجتماعی توثیق اور قانونی نفاذ کے مطالبے کی صورت میں کیا جاتا ہے ۔

بنیاد پرستی کے ضمن میں چند نکات خاص طور پر توجہ طلب ہیں

٭ بنیاد پرستی ایک سیاسی تحریک ہے اس کا نفسِ مذہب نیز مذہبی آزادی کے بنیادی انسانی حق سے کوئی تعلق نہیں۔

٭ کسی مذہب سے وابستگی اور اس کے احکامات پر کاربند ہونے کو بنیاد پرستی کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔

٭ بنیاد پرستی کو کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے قریب قریب تمام بڑے مذاہب میں بنیاد پرستی کی تحریکیں موجود ہیں۔ ان بظاہر مختلف تحریکوں میں فکری اور عملی سطح پر بے حد مماثلت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ مختلف مذہبی شناختوں سے وابستگی کے باوجود بنیاد پرستی کی مختلف تحریکوں کو ایک ہی سیاسی نقطہ نظر کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

٭ سیاسی تحریک ہونے کی بنا پر مختلف سیاسی نقطہ نظر رکھنے والے افراد اور گروہوں کی طرف سے بنیاد پرستی کی مخالفت کو کسی مذہب کی مخالفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بنیاد پرستی کی اصطلاح گزشتہ صدی کی ابتدا میں سامنے آئی ۔ تاہمم اس اصطلاح کو دراصل ان رجحانات کا تسلسل سمجھنا چاہیے جو گزشتہ کئی صدیوں سے تمام مذاہب کے پیشواﺅں میں پروان چڑھ رہے تھے۔ ان رجحانات کے ایک سے زیادہ اسباب تھے :

نشاةِ ثانیہ کے علمی انقلاب نے مذہبی پیشواﺅں کے علمی تبحر ، سیاسی بصیرت اور انتظامی اہلیت کا پول کھول دیا۔ مذہبی پیشواﺅں نے صدیوں سے علم، حکمرانی اور تقسیمِ وسائل پر آسمانی احکامات کا قفل لگا کر انسانی امکان کا راستہ مسدود کر رکھا تھا ۔ نشاةِ ثانیہ سے آنے والی تبدیلیوں نے مذہبی پیشواﺅں میں ماضی کے جاہ و حشم کے احیا کی خواہش بیدار کی۔

ایشیا اور افریقہ میں یورپی نوآبادکاروں کی آمد نے مقامی پیشواﺅں کے مفادات تہ وبالا کر دیے۔ یورپی حملہ آوروں کی فوجی، سیاسی اور انتظامی کامیابیاں ،جدید فکری منہاج اور سائنسی طریقہ ¿ کار کی مرہونِ منت تھیں۔ چنانچہ مقامی مذہبی پیشواﺅں میں جدیدیت کے خلاف ردِعمل پیدا ہوا۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں نئے معاشرتی ڈھانچے سامنے آئے۔ قدیم تہذیبی اقدار کا زور ختم ہو گیا۔ دوسری طرف نئے نئے مسائل منظر عام پر آئے ۔ خواندگی اور متبادل سماجی ارتقا کی رفتار علوم اور معیشت میں آنے والی تبدیلیوں سے کہیں سست تھی۔ چنانچہ قدیم اور جدید دنیا کے عبوری عہد میں پیدا ہونے والے مسائل سے گھبرا کر بہت سے حلقوں میں قدیم فکری سانچوں اور سماجی ڈھانچوں سے رغبت پیدا ہونے لگی۔

جدید سائنسی انکشافات ، نظریات، ایجادات کے نتیجے میں عوام کے ذہنوں پر مذہبی پیشواﺅں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ مذہبی پیشواﺅں نے جدیدفکر اور صنعتی تہذیب پر تنقیدنیز تاریخی حقائق کی تاویل و تنسیخ کے ذریعے اپنا اثر و نفوذ بحال کرنا چاہا ۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بیشتر نو آزاد ممالک میں سامنے آنے والی مقامی قیادت اپنے ملکوں میں جمہوری ادارے اور سیاسی روایات مستحکم کرنے نیز عوام کے معیارِ زندگی میں مناسب بہتری لانے میں ناکام رہی۔ قومی قیادتوں کی اس تاریخی ناکامی سے پیدا ہونے والی مایوسی بھی بنیاد پرستی کی مقبولیت کا سبب بنی ۔

سرد جنگ کے دوران سرمایہ دارانہ بلاک نے اشتراکی رجحانات کو روکنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں مذہبی پیشواﺅں کو سماجی، سیاسی اور معاشی امداد بہم پہنچائی۔ علمی ، سماجی اور سیاسی اعتبار سے کئی صدیوں تک مسلسل ہزیمت اٹھانے کے بعد مذہبی پیشواﺅں کو جدید دنیا میں سراُٹھانے کا موقع ملاتو اس سے بھی بنیاد پرستی کو فروغ ملا۔

بنیاد پرستی کی تحریک بنیادی طور پر احیا پسندی، رجعت پرستی اور فسطائیت کے عناصر سے مملو ہے۔ بنیاد پرستی میں انسانی سعی کے نتیجے میں سامنے آنے والے جدید امکانات، تہذیب و تمدن، انسان دوستی اور انسانی فلاح و ترقی کے لیے بہت کم گنجایش ہے ۔ لاکھوں برس کے معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں انسانی نفسیات میں جو جبلّی اور ذہنی رویّے پیدا ہوئے ہیں، بنیاد پرستی ان میں سے منفی پہلوﺅں پر انحصار کرتی ہے۔ انسانی معاشرہ دراصل اداروں، قوانین اور اقدار کے ایک مربوط نظام کے ارتقا کی مدد سے حیوانی جبلّت کی تہذیب کا نام ہے۔ انسانی معاشرے کا ارتقا جبلت سے شعور کی طرف ایک صبر آزما اور کٹھن سفر ہے۔ بنیاد پرستی فسطائیت اور منافرت پر مبنی غیر فلاحی اور غیرمتمدن سماجی اور سیاسی رجحانات کی طرح انسانی جبلت میں موجود گہرے اور مضبوط منفی رجحانات کو سامنے لاتی ہے۔

قدیم انسانی سماج میں لاعلمی، اوہام، عقیدہ پرستی اور عدم رواداری دراصل ایک ہی صورت حال کے مختلف نتائج تھے۔ اسی طرح وسائل اور مواقع کی قلت سے لالچ اور خود غرضی کے رویے جنم لیتے تھے جو بالآخر اجارے اور استحصال پر منتج ہوتے تھے۔ ناگہانی آفات کے امکان سے خوف اور عدم تحفظ برامد ہوتے تھے۔ یہ خوف ہی قوت پسندی کے رجحان مین کارفرما تھا۔

مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی بنیاد پرستی کی تمام تحریکوں میں مشترک سیاسی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ تمام تحریکیں انسانی اخوت اور بھائی چارے کی بجائے منافرت اور تفرقے پر یقین رکھتی ہیں۔ علم سے خوف کھاتی ہیں اور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ بنیاد پرستی کی تمام تحریکیں تقلید کو تخلیق پر ترجیح دیتی ہیں اور قدیم کو جدید پر برتر سمجھتی ہیں۔

بنیاد پرستی کی تمام تحریکوں میں مذہبی احکامات، عقائد اور روایات کی لفظی تشریح کی جاتی ہے۔ خواہ یہ تشریح ان احکامات اور اصولوں کی حقیقی روح کے منافی ہو، بدلتے ہوئے زمانے میں ناقابلِ عمل ہو چکی ہو یا نئے سماجی ، علمی اور سیاسی تناظر میں مضحکہ خیز نظر آئے۔ دراصل بنیاد پرست لفظی تشریح کی آڑ میں مذہبی احکامات اور عقائد کی تعبیر اور تشریح پر اجارہ چاہتا ہے تاکہ معاشرے میں دوسرے سیاسی مکاتبِ فکر ، سماجی گروہوں، جدید علوم سے بہرہ ور پیشہ ورانہ ماہرین اورابھرتے ہوئے معاشی مفادات پر بالادستی حاصل کر سکے۔

بنیاد پرست اس حقیقت سے چشم پوشی کرتا ہے کہ ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے پیشواﺅں نے ایک ہی مذہبی اصول کی مختلف لفظی تشریحات کر رکھی ہیں۔ اسے اس امر سے بھی غرض نہیں کہ قدیم مذہبی روایات کا بہت بڑا حصہ سائنسی شواہد ، جدید علمی دریافتوں اور منطقی استدلال کے نتیجے میں جدید تشریح کا متقاضی ہے۔ بنیاد پرست کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ سچائی کے علم اور بیان پر اس کا اجارہ تسلیم کیا جائے ۔ سائنس دان دنیا بھر کی رصدگاہوں میں گوناگوں تجربات اور ان گنت شواہد کی بنا پر ثابت کرتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے لیکن بنیاد پرست یہ چاہتا ہے کہ وہ گلیلیو کو ایک کائناتی حقیقت بیان کرنے پر مذہبی عقائد میں تحریف کا مجرم ٹھہرائے۔

بنیاد پرست کے نزدیک علم جامد ہے اور علم کے جملہ امکانات قدیم مذہبی عقائد اور اصولوں میں مکمل طور پر بیان کر دیے گئے ہیں ۔ اب انسانوں کا کام سچائی کی کھوج اور علم کی تحقیق نہیں بلکہ بنیاد پرست گروہ کی بیان کردہ تشریح کی روشنی میں مذہبی احکامات اور روایات کی تصدیق اور پیروی کرنا ہے۔ چنانچہ بنیاد پرست کا تصور علم بنیادی طور پر روایت پسند، تقلید پسند اور قدامت پسند ہوتا ہے۔ بنیاد پرست ہر لحظہ بدلتے ہوئے سماجی حقائق اور معاشرتی خدوخال میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بھی منکر ہوتا ہے۔ وہ زبان کو انسانی سوجھ بوجھ اور معاشرتی میل جول کے تعامل سے ارتقا پانے والا مظہر نہیں سمجھتا کیونکہ ایسا سمجھنے سے ان ماخذ کی از لی اور ابدی حیثیت پر حرف آنے کا اندیشہ ہوتا ہے جن سے بنیاد پرست اپنی سندِ جواز اخذ کرتا ہے ۔ بنیاد پرست کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل اُسے معلوم ہے اور وہ یہ حل دنیا کے سامنے اس وقت لائے گا جب اُسے سیاسی اقتدار پر بلاشرکت غیرے اجارہ سونپ دیا جائے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بنیاد پرست دنیا کے مسائل کا تعین بھی خود کرنا چاہتا ہے۔ کسی علاقے میں طاعون کی وبا پھیلنے سے انسان موت کا شکار ہونے لگیں تو بنیاد پرست کے نزدیک حقیقی مسئلہ طاعون کے اسباب کی تحقیق اور اس کے سدِباب کی جستجو نہیں بلکہ مذہبی عقائد کی درستی ہے۔ کسی علاقے میں خشک سالی سے انسان اور مویشی قحط کا شکار ہو جائیں، ہرے بھرے کھیت بیابانوں کا منظر پیش کرنے لگیں تو بنیاد پرست اس ماحولیاتی آفت کا مقابلہ مفروضہ فحاشی کے خلاف مہم چلا کر اور موسیقی کے آلات توڑ کے کرنا چاہتا ہے۔

قابلِ غور حقیقت یہ ہے کہ بنیاد پرستوں نے جدید معاشرے کے علمی حقائق، فکری بنیادوں اور اداراتی ڈھانچوں کی تشکیل میں صدیوں سے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ان پیچیدہ مظاہر کے بارے میں بنیاد پرست کی بہتر سوجھ بوجھ کی کوئی دلیل موجود ہے لیکن بنیاد پرست علم کے ایک موہوم تصور اور حقیقت کے غیرمرئی تصور کی بنیاد پر ان تمام معاملات میں دخل اندازی کا اختیار بلکہ فیصلہ سازی پر مکمل بالادستی چاہتا ہے۔ جدید دنیا میں عقائد ، مذہبی احکامات اور روایات کی لفظی تشریح نہ صرف یہ کہ ناقابلِ عمل ہے بلکہ انسانیت کے بہت بڑے حصے کے لیے ناقابلِ قبول بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).