پیپلز پارٹی اور مفاہمت کی توسیع …. ؟


 \"wajahat\"رواں ہفتے ملک کی سیاسی فضا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں آصف زرداری کے ایک مبینہ بیان سے گونج اٹھی۔ حیران کن طور پر یہ بیان آصف زرداری صاحب کے ترجمان فرحت اللہ بابر صاحب یا بلاول ہاﺅس کے ترجمان جمیل سومرو نے جاری نہیں کیا۔ اس امر کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ یہ بیان ذرائع ابلاغ سے رابطہ رکھنے والی پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے جاری کیا ہو۔ عام تاثر یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ایک بڑی شخصیت کے ذریعے یہ بیان ذرائع ابلاغ تک پہنچا اور اسی سے متعلقہ خبر یہ کہ آصف زرداری صاحب نے منگل کی رات ہی ایک محترم صحافی کو ٹیلی فون پر مطلع کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں ان سے منسوب بیان من گھڑت ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ آصف زرداری صاحب اپنی جمہوری ساکھ کے بارے میں بہت حساس ہیں لیکن انہوں نے خود سے منسوب اس بیان کی معروف طریقے سے براہ راست تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی پنجاب کے سربراہ منظور وٹو کے صاحبزادے خرم جہانگیر نے اسی مضمون کی ایک قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی ہے۔ خرم وٹو نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں فرمایا کہ انہوں نے یہ قرارداد اپنی ذاتی رائے کی روشنی میں پیش کی ہے۔ کسی رکن اسمبلی کا اپنی ذاتی رائے اور جماعتی وابستگی میں امتیاز کرنے کا یہ خوش کن واقعہ دسمبر 2014 ءمیں فوجی عدالتیں قائم کرنے کو مسودہ قانون کے بارے میں رضا ربانی صاحب کی اس تقریر کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے جب انہوں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے اپنی ذاتی رائے بیان کی تھی لیکن اسمبلی فلور پر پارٹی کے مؤقف کی تائید کی تھی۔ رضا ربانی اب سینٹ کے چیئرمین ہیں ۔ دیکھنا چاہیے کہ تاریخ رضا ربانی کو اپنی پارٹی کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی قرار دیتی ہے یا اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے پر خرم جہانگیر کا نام سنہری حروف سے لکھتی ہے۔ اس تمثیل کا یہ زاویہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ سندھ اسمبلی میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کے کسی رکن نے ضمیر کی پاسداری کا وہ درخشاں نمونہ پیش نہیں کیا جو خرم جہانگیر کے حصے میں آیا۔ وقت کے تالاب پر پھینکے گئے اس کنکر سے پیدا ہونے والی لہریں مختلف سمتوں کو نکلتی ہیں لیکن بظاہر ابہام کی چادر میں لپٹی اس صورت حال سے کچھ نتائج اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

گزشتہ برس جون کے مہینے میں آصف زرداری نے اسلام آباد میں ایک دھواں دھار تقریر کی تھی جس میں انہوں نے ہمہ مقتدر قوتوں کے مقابلے میں سیاسی قوتوں کا پرچم لہرایا تھا ۔ اس موقع پر کچھ نہایت سخت جملے بھی عمومی طور پر متحمل مزاج زرداری صاحب سے سرزد ہوئے اور اس کے چند روز بعد وہ دوبئی روانہ ہو گئے۔ آصف زرداری جنوری 2013 ءمیں بھی دوبئی تشریف لے گئے تھے جب میمو گیٹ سکینڈل سے اٹھنے والی آنچ بہت تیز ہو گئی تھی۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے جمہوری دعوﺅں سے انحراف کرتی ہے تو اس میں اوکاڑہ کے سیاسی خاندان کا نام ضرور آتا ہے۔ 1993ءمیں میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کے خاتمے کا طوفان میاں منظور وٹو صاحب کے دست معجز نما کا کرشمہ تھا۔ بالکل اسی طرح راولپنڈی کی مری روڈ پر درجہ حرارت بڑھ جائے تو آصف زرداری دوبئی چلے جاتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی جلاوطنی کا معتدبہ حصہ دوبئی میں گزارا تھا اور ان کی وطن واپسی کا ارادہ ایک قد آور سیاست دان کی اپنے عوام کے درمیان آنے کی جائز سیاسی خواہش تھی اور یہ خواہش 27 دسمبر 2007 ءکے سانحے پر منتج ہوئی۔ آصف زرداری بھی دوبئی میں ہیں ۔ملک کے اندر پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی کسی صورت اطمینان بخش قرار نہیں دی جا سکتی اور آصف زرداری 2018 ءکے انتخابات میں قومی منظر پر پیپلز پارٹی کی زور دار واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ خواب جائز ہے لیکن اس کے لیے پیپلز پارٹی کی نصف صدی پرمحیط سیاسی روایت کو داﺅ پر لگا دیا گیا ہے۔ آصف زرداری ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما ہیں اوران کی زندگی بہت قیمتی ہے۔ تاہم سمجھنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی کی جمہوری روایت ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے راستے سے تجسیم پاتی ہے۔ آصف علی زرداری لچک دار سیاست کے لیے جانے جاتے ہیں۔ سیاست میں لچک کی بہت اہمیت ہے بشرطیکہ آپ جانتے ہوں کہ آپ کی فالٹ لائن کس عرض بلد سے گزرتی ہے۔

پاکستان میں ریاستی اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت کی روایت بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں ہمارے نوآبادیاتی تجربے سے جا ملتی ہیں۔ 1947 ءمیں تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے مالی وسائل میں سے صرف ساڑھے سترہ فیصد اثاثے مل سکے تھے اور متحدہ ہندوستان کی عسکری قوت کا 33 فیصد پاکستان کے حصے میں آیا۔ گویا ہماری آزادی کی ابتدا ہی مضبوط ریاستی اداروں اور کمزور تمدنی قوتوں کی کشاکش سے ہوئی۔ ہماری معیشت کمزور تھی ۔ خواندگی کی شرح کم تھی۔ہمارے حصے میں آنے والی سیاسی روایت پر ابہام اور پیوستہ مفادات کے گہرے سائے تھے۔ دوسری طرف ریاستی ادارے منظم تھے ، تربیت یافتہ تھے اور ریاستی بندوبست کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔اپریل 1953 ءمیں خواجہ ناظم الدین کی برطرفی سے شروع ہونے والی روایت میں بہت سے اتار چڑھاﺅ آئے۔ بیشتر موڑ اندھے تھے اور راستہ تاریک تھا۔ نصف صدی کے بعد 14 مئی 2006ءکو پاکستان کے دو بڑے سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو اور نواز شریف لندن میں ایک میز پر بیٹھے اور انہوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ میثاق جمہوریت کے نپے تلے متن کا یک سطری خلاصہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتوں کا اس نکتے پر اتفاق تھا کیا کہ آئندہ جمہوری اداروں کے تسلسل میں کسی غیر آئینی مداخلت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی قوتوں نے آئین کی پاسداری کا عہد کیا تھا اور 1988ءسے 1999ءکے عشرہ ¿زیاں کی غلطیوں سے گریز کا فیصلہ کیا تھا۔ ان دس برسوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے بہت سی سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ میاں نواز شریف نے ہیئت مقتدرہ کے سائے میں سیاست شروع کی تھی اور بے نظیر بھٹو جمہوری جدوجہد کا نشان تھیں ۔ انسانی زندگی میں ساکھ اور توقعات میں براہ راست تناسب پایا جاتا ہے ۔ 1993 ءکے موسم گرما میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت کو ہٹانے میں جو کردار ادا کیا وہ ہمالیہ جیسی غلطی تھی۔ آصف علی زرداری صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ دانشور جہاں پہ ختم ہوتا ہے ، سیاست دان وہاں سے شروع ہوتا ہے۔ بات غلط نہیں ہے لیکن دانشور ہو یا سیاست دان، بہرصورت انسان ہوتے ہیں ۔ اور ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ سیاست دان کی غلطی کے اثرات زیادہ دور رس ہوتے ہیں۔ 2012 ءکے موسم سرما میں پیپلز پارٹی نے طاہر القادری اور عمران خان کی پس پردہ پشت پناہی کا جو فیصلہ کیا تھا آج اس کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ 2012 ءکے انہی تہلکہ خیز دنوں میں میاں نواز شریف صاحب نے میمو گیٹ سیکنڈل میں جو موقف اختیار کیا تھا، اس کے نتائج بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ہماری سیاسی روایت کا قابل قدر اثاثہ ہیں۔ دونوں جماعتوں کو ایک بڑا امتحان درپیش ہے۔ مسلم لیگ کا روایتی ووٹ بینک سنٹر رائٹ کا نسبتاً قدامت پسند سیاسی اور معاشرتی رجحانات رکھتا ہے۔ میاں نواز شریف معیشت کے گرد آئندہ سیاست کی عمارت کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنے حامی گروہوں کو معیشت کی سیاست کے آداب کیسے سکھائیں۔ پیپلز پارٹی کا بنیادی تشخص سنٹر لیفٹ کا ہے۔ اس جماعت کی نفسیات 70 ءکی دہائی کے نیم اشتراکی رجحانات سے تشکیل پائی ہے۔ آصف علی زرداری صاحب کا امتحان یہ ہے کہ اپنے حامیوں کو اکیسویں صدی کی ترقی پسند سیاست کے زاویے کیسے سمجھائیں ۔ یہ بنیادی سوالات ہیں ۔ میثاق جمہوریت سے مراجعت عملی طور پر ممکن نہیں۔ آرمی چیف کے بارے میں ابہام پیدا کرنا کسی کے حق میں نہیں اور خرم جہانگیر وٹو کی قرارداد تو کاغذ کی وہ کشتی ہے جو چھوٹے تالاب کے دوسرے کنارے پر بھی نہیں پہنچ سکتی۔ بیدل نے کہا تھا…. چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بہ کنار ما۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments