مشال خان: قانون یا انتشار۔ فیصلہ آپ خود کریں


(طاہرعلی خان۔ مردان)

صرف مشال خان کے قتل پر ہی ہمارا معاشرہ مخالفین اور حامیوں میں تقسیم نہیں ہوا، صرف اس کے قاتلوں کو ہی ہیرو اور غازی نہیں قرار دیا گیا اور صرف اس کےہی حق میں ملک مذہبی سیاسی جماعتیں میدان میں نہیں آئیں۔ یہ سلسلہ لمبے عرصے سے جاری ہے۔

کسی فرد یا مجمع کے ہاتھوں توہین مذہب و رسالت کے کسی بھی مبینہ مرتکب کے قتل کے معاملے میں دائیں بازو کے متعلقین کے خیالات حیرت انگیز طور پر یکساں ہوتے ہیں۔

سب اس قسم کے واقعات کو بیرونی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کیسوں میں عدالتی نظام سے رجوع کی مخالفت کرتے، موقع پر عوامی انصاف کے حق میں دلائل دیتے، قانون ہاتھ میں لینے والوں کو غازی اور ہیرو جبکہ حکمران، تمام اداروں اور اہلکاروں کو مغربی ایجنٹ اور توہین مذہب کے مرتکبین کے حامی قرار دیتے ہیں۔

یہ لوگ شوق سے اپنی کنفیوژن میں پڑے رہیں مگرقوم کا حق ہے کہ اس کو چند سوالات کے جوابات دیےجائیں تاکہ اب پتہ چل ہی جائے کہ ان میں سے کون کون دہشت گردوں کی طرح پاکستانی قانون، آئین اور عدالتی ںظام کے باغی اور فسادیوں کے ساتھی ہیں اور کون کون جمہوریت، آئین و قانون اور انسانیت پر یقین رکھنے والے۔

1۔ کیا شریعت کی رو سے کسی کو قید کرنے سزا دینےیا قتل کرنے کا اختیاراور حق ہر فرد یا گروہ کوحاصل ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو گناہ گار قرار دے اور سزا دے دے یا کسی کو گرفتار کرنے، مقدمہ چلانے اور سزا دینے اور نافذ کرنے کا حق اور اختیار صرف عدالت اور حکومت کے پاس ہے؟

2۔ کیا شریعت کی رو سے کسی کو مارنے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس پر محض توہین رسالت کا الزام ہی لگا دیا جائے یا یہ کہ ملزم کو سزا دینے سے پہلے ایک مکمل عدالتی عمل کےذریعے قصور وار ثابت کرنا ضروری ہے؟

3۔ کیا کوئٰی بیک وقت خود ہی مدعی، منصف اور جلاد بن سکتا ہے؟ کیا شریعت کی رو سے دوسرے مسلمان کو قتل کر نے والے کو غازی قرار دیا جا سکتا ہے؟

4۔ فرض کریں کوئی شخص واقعی قصور وار ہو تو کیا یہ اس کے ماورائے قانون قتل کے لئے جواز بن سکتا ہے؟ کیا اس کو ماورائے قانون قتل کرنےکے لیے کوئی قانون ہاتھ میں لے سکتا ہے؟

5۔ کیا یہ کہنا کہ چونکہ ہماری عدالتیں انصاف نہیں دیتیں، یہاں امیروں کو کبھی سزا نہیں ہوتی اور صرف مذہبی لوگوں کو ہی سزا ملتی ہے، قانون صرف کمزوروں کے خلاف ہی بروئے کار آتی ہے، یا یہ کہ یہاں کبھی توہین رسالت کرنے والوں کو سزا نہیں ہوئی کیونکہ ’’سارا سیکولر میڈیا، ساری لادین پارٹیاں، ناقص عدالتی نظام اور امریکہ وغیرہ‘‘ انہیں بچانے آجاتے ہیں، اس بات کا جواز ہے کہ کوئی بھی فرد، گروہ یا مجمع قانون کو ہاتھ میں لینے اور خود ہی مدعی، منصف اور جلاد بننے کا حق رکھتا ہے؟

6۔ کیا یہ نکتہ شریعت کا حصہ ہے یا نہیں کہ کسی پر الزام لگانے والے کو ثبوت لانا ہوتی ہے اور جو ثبوت نہ لا سکے یا اس کا الزام جھوٹا ثابت ہو اس پر قذف کی حد جاری ہوتی ہے؟

7۔ کیا شریعت مسلمانوں کو یہ ہدایت نہیں دیتی کہ اگر ان کے پاس کوئی خبر لائےتو تحقیق کر لیا کریں اور اس خبر کو اپنوں میں سے ارباب حل و عقد یعنی معاملہ فہم، زیرک اور دانا لوگوں کے پاس لے جائیں؟ کیا اس کے لیے حکومتی ادارے اور اہلکار مناسب ہیں یا نوجوانوں کو اس قسم کی صورتحال میں خود فیصلے کرنے کےلےآزاد چھوڑ دیا جائے؟

8۔ کیا شریعت کی رو سے کسی مؤمن پرکفر یا منافقت کا الزام ایک بڑی جسارت نہیں ہے؟ ایک حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق اگر کسی بندے پرمنافقت یا کفر کا الزام لگا دیا جائے اور اس بندے میں وہ بات اور خاصیت نہ ہوتو یہ بات الزام لگانے والے پر چسپاں ہو جاتی ہے اور وہ خود منافق یا کافر لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا مشال پر یہ الزام لگانے والےاس خطرناک نتیجے کے خطرے میں نہیں ہیں؟

9۔ مشال خان کے قتل کے حامی کیا یہ چاہتے ہیں اگر کسی سے کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہو جائے تواس کے خلاف پولیس اور عدالت کے پاس مقدمہ لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں بس اس کو موقع پر ہی سبق سکھایا جائے کیونکہ عدالت اور پولیس ان کے بقول مجرموں، گناہگاروں اور دین دشمنوں سے ملی ہوئی ہے اور وقت بھی زیادہ لیتی ہے اس لیے کیوں نہ خود قصوروار کو سزا دی جائے تاکہ دوسرے بھی عبرت پکڑیں؟ قانون کا ایک اصول ہے کہ جب تک کوئی عدالتی عمل کے ذریعے گناہگار ثابت نہ ہو وہ بے گناہ ہے۔ کیا مجمع کے ہاتھوں قتل کے معاملوں میں اس اصول کی واضح خلاف ورزی نہیں کی جاتی؟

10۔ مشال پر الزام لگانے والےاور اس کو قتل کرنے والوں کے حامیوں نےعجیب وغریب قصے کہانیاں بھی مشہور کر دی ہیں کہ اس نے کئی یورپی ملکوں کی سیر کی، اس کے پاس کروڑوں روپے تھے اور کہتے ہیں کہ اتنے پیسے اس کو سیکولر مغربی اور اسلام دشمن لابی نے حضورؐ کی توہین کے لیے ہی دیے تھے۔ ایک واقف کار جو اتفاق سے سرکاری استاد بھی ہیں نے جب مشال کے مبینہ بیرونی دوروں پرگفتگو میں یہ کہا کہ مشال روس گیا تھا جہاں کمونسٹوں نے اس کی برین واشنگ کی تھی تو میں حیران ہو گیا۔ اس نے کہا کہ کمیونسٹ اتنے خطرناک لوگ ہیں کہ اپنی بہن تک سے شادی کرلیتے ہیں اور اپنی بات میں مزید وزن ڈالنے کے لیے جب اس نے کہا کہ میرے ذاتی تجربے میں بھی ایسے ایک کمیونسٹ کا واقعہ موجود ہے جب وہ روس سے واپس آیا اور اس کے والدین نے اس سے شادی کی بات کی تو اس نےاپنی بہن سے شادی کی بات کی تھی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس سے وضاحت اور تفصیلات مانگیں اور کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ کمیونزم روس سے کب کا ختم ہو چکا ہے؟ کم ازکم 26 سال قبل۔ مشال تو تب پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ اور یہ کہ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہے کہ ایک ہی بیرونی دورے سے وہ واش ہو جائے گا، تو وہ ادھر ادھر کی ہانکنے لگا۔ آخرمیں یہ کہتےہوئے سوری کہا کہ یہ بات کسی نے بتائی تھی مگر اس کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا اوریہ کہ ہوسکتا ہے اسے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو۔ کیا یہ طرز عمل کسی منصف مزاج انسان کے شایان شان ہے؟

11۔ مشال کو قتل کرنے والوں کے حامی کہتے ہیں کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب مسلمانوں کے دلوں سے حضورﷺ کی محبت ختم کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ مشال جیسے لڑکوں کو منتخب کرتا ہے، انہیں پیسے دیتا ہے اور اس کام پر لگا دیتا ہے۔ ایک ملانے مشال خان کے قاتلوں کے حق میں مردان میں منعقدہ ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پولیس، عدلیہ، میڈیا، وکلاء وغیرہ سب پر الزام لگایا کہ وہ توہین رسالت کرنے والے کی مدد کو آجاتے ہیں۔ اس کے بقول اسےایک دوست نے بتایا تھا کہ مغرب پاکستان میں توہین رسالت کرنے والوں کی آڑمیں انتشار پھیلانا چاہتا ہے، اس کے لیے توہین مذہب کرنے والوں کی حمایت کرے گا، انہیں اپنی شہریت فوراً دے گا لیکن اس کے بقول مشال خان کو ’لٹا کے‘ عوام نے یہ سازش ناکام بنانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اس ملا نے لوگوں کو یہ بھی کہا کہ مشال خان کو مارنے والے ‘غازیوں‘ کی تصویریں ہر چوک میں آویزاں کریں۔ جب ایک بڑی مذہبی جماعت کا یہ رہنماء یہ باتیں کر رہا تھا تو دوسرے مذہبی جماعتوں کےچند رہنماء پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ کیا واقعی ہمارے سارے ادارے اور اہلکار اسلام دشمنوں کے آلۂ کار ہیں اور دین کے دشمن ہیں؟ کیا دوسرے مسلمانوں کی اس طرح توہین، تحقیر اور تفسیق و تکفیر کی شریعت میں کوئی گنجائش ہے؟

12۔ ان لوگوں نے جو حرکت کی ہے اس کی وجہ سے اسلام، پاکستان اورمسلمانوں کا ایک نہایت ہی کریہہ چہرہ ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں متعارف ہوا ہے۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں امن رواداری اور علم و تحقیق کے مراکز گردانی جاتی ہیں جہاں باہمی احترام کی بنیاد پر غیرجذباتی فضا میں دلیل کی بنیاد پر بات کی اور سمجھائی جاتی ہے مگر یہ تمغہ بھی ہمارے حصے میں آنا تھا کہ دن دیہاڑے ایک انسان کوطلبہ ہی کا ایک ہجوم یونیورسٹی کے اندر ہی فنا کے گھاٹ اتار دے۔ جب ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنماء ایسے اقدامات کی ڈھکی چھپی حمایت کو معمول بنا لیں تو نتیجہ تو یہی نکلے گا۔

13۔ مذہبی پارٹیوں کے کارکنان لگتا ہے ابھی تک ماضی کے سحر سے نہیں نکل سکے۔ واضح رہے یہ لوگ موسیقی اور نیو ائیر نائیٹ کے پروگراموں کو الٹانا ماضی قریب تک اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے، سینماؤں پر فحاشی کا الزام لگا کر ان پر حملے کرنا اور اشتہاری ہورڈنگز کو تباہ کرنا اور کھلم کھلا جہاد وقتال کی ترغیب دینا ان کی پہچان تھی۔ طالبان دہشت گردوں نے ظلم کی انتہا کردی تھی اور وہ تمام ظالمانہ کارروئیوں کا ڈھٹائی سے اعتراف کرتے مگر یہ لوگ یہ کہہ کہہ کر کنفیوژن پھیلاتے رہے کہ یہ سب بیرونی ایجنسیاں کر رہی ہیں تاکہ ان کے بقول مسلمانوں، طالبان اور اسلام کو بدنام کرسکیں ورنہ ان کے مطابق کوئی مسلمان کیسے یہ کام کرسکتا ہے یہ ضرور یہودی عیسائی اور ہندو ایجنسیوں کی کارستانیاں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ قتل عمد کے اندوہناک اور سیدھے سادے معاملوں کو وہ اپنے معمولی سیاسی مفادات کے لیے کیوں کر بیرونی سازشوں کا شاخسانہ قرار دے کر پیچیدہ بنا رہے ہیں؟ کیا واقعی یہ لوگ نہیں جانتے کہ مشال خان کے قاتلوں اور ان پر حملہ کرنے والوں کی حمایت کرکے وہ کتنا بڑا رسک لے رہےہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ اس قسم کے ماورائے قانون قتل کرنے والوں کی حمایت کرکے یا ان کے خلاف آواز نہ اٹھا کر وہ معاشرے کو انتہائی خطرنک رخ پر لے جا رہے ہیں؟ کیا اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ان کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ یہاں انتہاپسندی، لاقانونیت اور جذباتیت کو لگام دیں اوررواداری، قانون پسندی، برداشت، احترام انسانیت اور انسانی جان کی عظمت کو فروغ دیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).