جنسی ملکیت، محل توالد، آلہ توالد اور نظریاتی کونسل والی سرکار


جناب مولانا محمد خان شیرانی المعروف اسلامی نظریاتی کونسل والی سرکار کا انٹرویو ہمارے دوستوں نے کیا۔ وسی بابا کا ایک معصومانہ سوال ہے اس میں۔ پوچھتے ہیں

”مولانا ہلکے پھلکے تشدد پر آپ کے بیان پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ کیا آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے؟“
اب ذرا جواب ملاحظہ کیجیے

”دیکھیں، بیوی کی محل توالد اس کے شوہر کی ملکیت ہوتی ہے، اب اگر شوہر یہ محسوس کرتاہے کہ میری بیوی میری ملکیت کو یا تو میرے لیے کاشت کی قابل نہیں چھوڑ رہی یا میری کی ہوئی کاشت کو کسی اجنبی تخم سے فاسد کررہی ہے تو یہ خطرہ لاحق ہونے کے بعد چونکہ گھر بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہے، ریاست کی ابتدا ہی گھر سے ہوتاہے، اور ہر اجتماعی زندگی کے لیے ایک نظم ضروری ہوتاہے اور اس میں جزاوسزا کا عمل ناگزیر ہوتاہے تواپنی ملکیت میں خیانت محسوس کرنے کے بعد شریعت مرد کو یہ اجازت کیونکر نہیں دے گی“

آپ میں سے جن لوگوں کی زبان دانی میرے جیسی ہے وہ محل توالد کو گوگل ٹرانسلیٹ بھی کریں تو ملنے والا نہیں۔ ہم نے پہلے ہی پوچھ لیا ہے۔ آپ کو بتائے دیتے ہیں۔ کہنے کو تو محل توالد جائے پیدائش کو کہتے ہیں پر یہاں سادہ انگریزی میں مولانا Vagina اور کم سادہ اردو میں اندام نہانی کا ذکر کر رہے ہیں۔ اب آپ جواب دوبارہ پڑھیے اور سر کے ساتھ جو جو دھننا چاہیں، دھن لیں۔

ہم وہاں موجود نہیں تھے اس لیے قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ قطرے کے گہر ہونے تک ید بیضا، وسی بابا اور عدنان کاکڑ پر کیا گذری ہو گی۔ یہ سچ ہے کہ ایسے سچے موتی کتنی ہی عمروں کی کاوش ہوں گے۔ ایک آدھ زندگی تو بہت ناکافی ہے ایسے اصول زیست تراشنے کے لیے تو سر خم کیجیے ان تمام شانوں کے لیے جن پر سیڑھی لگا کر مولانا محمد خان شیرانی المعروف اسلامی نظریاتی کونسل والی سرکار کا مقام وہاں پہنچا ہے جہاں سے یہ دانش ہم پر نازل ہوئی ہے۔

کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا جب مولانا نے ہلکے پھلکے تشدد کے دینی جواز تراشے تھے اور ہماری دانست میں درست تراشے تھے۔ عمومی یا خصوصی فہم دین کو جتنا مرضی گھما پھرا لیجیے، اس سے مرد کی حاکمیت اور ہتھ چھٹ کوتوالی کی نفی مشکل ہے پر کیا کیجیے کہ شعور انسانی اب سفر کرتا اس مقام پر آ گیا ہے جہاں صدیوں پرانی اس تفہیم پر دل ٹھکتا نہیں ہے اور دماغ تو ہے ہی سدا کا منکر اور گستاخ اس لیے بڑے بوڑھے ان معاملات میں پاسبان عقل کو تنہائی کا خوگر بنانے پر زور دیتے ہیں۔

اس بیان کے آنے کی دیر تھی کہ لوگ باگ ہاتھ دھو کر مولانا کے پیچھے پڑ گئے۔ سوشل میڈیا پر جی بھر کر مذاق اڑایا گیا۔ لطیفے تراشے گئے۔ کالم لکھے گئے۔ ایک ہم اکیلے ہی مولانا کی حمایت کرتے رہے پر نقار خانے میں کوئی اور طوطی تھا ہی نہیں کہ کوئی سہارا ملتا۔

اب اس نئے بیان پر ایک پرانا قصہ سن لیجیے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ عذر گناہ بد تر از گناہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ درباری مسخرے نے کہا کہ میں ایک دن میں ثابت کیے دیتا ہوں پر جان کی امان ابھی سے چاہیے۔ بادشاہ نے ازراہ تجسس امان بخش دی۔ دن گذر گیا۔ رات کو سونے سے پہلے بادشاہ نہانے کے لیے حمام میں اترا۔ کپڑے تن سے جدا کیے کہ اچانک مسخرا حمام میں گھس آیا۔ بادشاہ کہ لباس فطری میں تھا، سخت خفیف ہوا۔ قریب تھا کہ مسخرے پر عتاب شاہی نازل ہوتا کہ وہ پیروں میں گر کر معافی کا خواستگار ہوا۔ بادشاہ نے رحم کھایا اور کہا کہ معاف کیے دیتا ہوں پر یہ حرکت کی کیوں تس پہ مسخرے نے ہاتھ جوڑے اور کہا ” حضور، قسم ہے، مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ حمام میں آپ ہیں۔ میں تو سمجھا تھا کہ ملکہ نہا رہی ہیں“۔

بادشاہ فرط غضب سے تھر تھر کانپا۔ تالی بجائی اور جلاد کو طلب کیا کہ مسخرے کی کھال کھنچوائی جائے۔ ادھر جلاد کی آمد ہوئی ادھر مسخرے نے بادشاہ کو پیشگی جان بخشی کا وعدہ یاد دلایا۔ بادشاہ تلملا کر رہ گیا۔ کہا معاف تو کر دیتا ہوں پر اس یاوہ گوئی کا مقصد تو بتا۔ مسخرا مسکرایا اور کہا ” حضور، آپ کو بس سمجھانا مقصود تھا کہ عذر گناہ بد تر از گناہ کیسے ہوتا ہے“

ایک اور پرانی کہاوت ہے کہ نانی نے خصم کیا، برا کیا، کر کے چھوڑ دیا۔ اور برا کیا۔ شیرانی صاحب نے بھی اس عمر میں ملتی جلتی حرکت کی۔ پہلے بھی چپ رہتے تو اچھا تھا پر چھپر پھاڑ کر بولے اور اپنی بھد اڑوائی۔ غالبا بعد میں سوچا ہو گا کہ یہ کھلے تشدد کا لائسنس دینا غلط ہو گیا تو کیوں نہ ایک عذر تراش کیا جائے کہ تشدد کو بدکاری سے مشروط کر دیا جائے۔ بس وسی کے سوال کی دیر تھی کہ خصم چھوڑنے کا بہانہ مل گیا۔ پر اب کے بات کوٹھوں چڑھنے کا اہتمام پہلے سے سوا ہے۔

مولانا کے قبیل کے علماء کے اعصاب پر عورت تو ہمیشہ سے سوار ہے ہی پر یہ نہیں پتہ تھا کہ ساون کے اندھے کو جوں ہرا سوجھتا ہے ایسے ہی جنس کی آنکھیں بند مالا جپتے ان کو بھی چار سو محل توالد ہی نظر آتا ہے۔ سرکار عورت کو انسان تو شاید پہلے بھی نہیں سمجھتے تھے پر اب تو اسے جانور کے رتبے سے بھی نیچے لے آئے ہیں۔ اور سوال کسی گلی یا سڑک پر پھرتی عورت کا نہیں۔ اس عورت کا ہے جسے مغرب میں عورت کی عزت نہ کرنے والے استحصالی معاشرے نصف بہتر کہتے ہیں۔ پر اہل مغرب تو گدھے ہیں انہیں کیا پتہ۔

بیوی کی عزت کے پیمانے تو مولانا شیرانی نے عین اصول فقہہ کے مطابق طے کر دیے ہیں۔ آپ لاکھ احترام آدمیت، برابری، شراکت داری اور محبت کا ڈھول پیٹتے رہیں۔ الہامی دانش کی اس تشریح کے آگے کسی نے آپ کی نہیں سننی۔ یہ جو نکاح ہے یہ کوئی مقدس بندھن، کوئی معاہدہ دل پذیر، کوئی خاندان کی بنیاد تھوڑا ہی ہے۔ یہ ہے بھیا ایک سیل ڈیڈ۔ ایک فروخت کی رسید۔ آپ نے بیوی خریدی ہے جیسے ٹی وی خریدتے ہیں۔ فریج خریدتے ہیں یا کار خریدتے ہیں۔ پرانا ہو جائے تو ماڈل بدلنے کا اختیار تو ہے ہی آپ کے پاس۔ اور مولانا یہ تو برسہا برس پہلے بتا چکے ہیں کہ نیا ماڈل خریدنے کے لیے پرانے ماڈل سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عائلی قوانین جو مرضی کہتے رہیں۔ چاہیں تو اس خرید وفروخت کو اور آسان مثالوں سے سمجھ لیں۔ جیسے پھل خرید لیا اب یہ بھی خریدنے والے کا استحقاق ہے کہ پکا ہوا آم خریدے یا کچی کیری خریدے۔ اپنی اپنی پسند ہے۔ کوئی پھل سے پوچھے تو پاگل کہلائے۔

تو نکاح کے بعد بیوی آپ کی ملک اور آپ بیوی کے مالک۔ یہ ہے اصل مقدمہ۔ اور بیوی کے سودے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا محل توالد پر اجارہ داری۔ اس کے علاوہ تو بیوی ایسے ہی ہے جیسے انجن کے بغیر گاڑی۔ ہے کہ نہیں۔ یا بیوی کو کھیت سمجھ لیجیے جس میں آپ نے ہل چلانا ہے، سہاگا پھیرنا ہے۔ بیج ڈالنے ہیں۔ پھر فصل اگا کر کاٹنی ہے۔ کھیت میں فصل نہ لگے تو پھر ایسے کھیت کا تو ظاہر ہے کوئی فائدہ نہیں۔ کھیت باتیں کرنے کے لیے یا خالی خولی پیار کرنے کے لیے تو لیا نہیں جاتا۔ بس ایسی ہی مثالوں سے بات سمجھیے کیونکہ کوئی انسانی مثال دینا تو ممکن نہیں ہے کیونکہ انسانوں کا دل ہوتا ہے، جذبات ہوتے ہیں، احساسات ہوتے ہیں، ان کے پاس محل توالد کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے، آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں، زبان پر پیار کے بول ہوتے ہیں، سینے میں ممتا ہوتی ہے، ہاتھوں میں مہندی ہوتی ہے، پیروں میں پائل ہوتی ہے، کلائیوں میں چوڑیاں چھنکتی ہیں، عارض کے شفاف بلور اک حرف اظہار پر بادہ احمر سے دہکتے ہیں، چہرہ غزل ہوتا ہے، زلف میں رات ہوتی ہے۔ پر یہ کس دنیا کی کہانی ہے میاں۔ یہاں تو فیصلہ یہ کرنا ہے کہ محل توالد کی آلودگی روز کیسے ماپی جائے۔ سہاگ رات کو چادر داغدار نہ ہو تو دلہن کو داغدار ٹہرائیے اور گلا دبا دیجیے۔ مال کی پکی وارنٹی ہونی چاہیے۔ ناقص مال کو مسترد کرنے کا اختیار تو ہے نا خریدار کے پاس۔

اس کے بعد شک کا ایک بیرومیٹر ایجاد کیجیے اور روز اس کی ریڈنگ پڑھیے۔ جب ریڈنگ اوپر نیچے ہو تو پروڈکٹ کو فائن ٹیون کیجیے۔ اس کے لیے شریعت کی طرف سے کھلا لائسنس ہے۔ تھپڑ، ٹھڈے، لاتیں، مکے، گھونسے، تیزاب وغیرہ وغیرہ۔ کوشش کریں کہ ہڈی نہ ٹوٹے۔ لیکن اگر ٹوٹ جائے تو بھی کیا ہے۔ آپ کی شے ہے۔ جیسے چاہیں برتیں۔ مولانا کے الفاظ میں محل توالد چونکہ شوہر کی ملک ہے اس لیے مجھے تعجب نہ ہو گا کہ کل وہ اس کو بھی جائز قرار دیں کہ شوہر اپنی ملکیت کا آگے سودا بھی کر سکتا ہے۔ بزنس میں شرم کیسی۔ کم قیمت پر مال اٹھاؤ اور زیادہ قیمت پر آگے ٹکا دو۔ ملکیت کا تو یہی تصور ہے۔

جیسے اپنی خریدی گئی گاڑی کو بدنظروں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس پر غلاف چڑھایا جاتا ہے ایسے ہی عورت کو بھی کالے تھان میں لپیٹنا ضروری ہے۔ تاہم کپڑا کتنے ہی گز کیوں نہ ہو محل توالد کی حفاظت کی گارنٹی نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید مولانا آہنی زیر جاموں کی سفارش کریں گے تاکہ مکمل تسلی رہے۔ گاڑی میں بھی تو اضافی سیکیورٹی لاک لگائے جاتے ہیں۔

لبرل احمقوں کو یہ یاد رہے کہ عورت کا محل توالد مرد کی ملکیت ہے اور مرد کا آلہ توالد بھی مرد کی ملکیت ہے اس لیے وہ چاہے کاشت کے قابل ہو یا نہ ہو، فاسد ہو یا نہ ہو، آلودہ ہو یا نہ ہو، قابو میں ہو یا نہ ہو، اس سے عورت کا کوئی سروکار نہیں ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments