ہندوستان میں فارغین مدارس کے معاشی مسائل کا ایک جائزہ


(نجم الہدیٰ ثانی)۔

فارغین مدارس کے معاشی مسائل کا تعلق ان موضوعات سے ہے جن پرماضی میں کچھ لکھنا اوربات کرنا تقویٰ اورعزیمت کے خلاف سمجھا جاتاتھا۔ مدارس کوفرشتوں کی دنیا سمجھنے والوں کے نزدیک علماء کے معاشی مسائل پرگفتگوکرنا ایسا ہی تھا جیسا گنجوں کی آبادی میں حجامت کی ضرورت اورفوائد پر بات کرنا۔ لیکن اب وقت بدل رہا ہے، حالات کے جبر کے سامنے لوگوں نے سپرڈالنا شروع کردیا ہے اوردین وملت کی خدمت کے محدود اورجذباتی دائروں کے اردگردسوالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ سوالات درون خانہ اٹھائے جارہے ہیں اس لئے انہیں غیروں کی سازش یا اپنوں کی نادانی کہہ کرنظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے اس موضوع پرشمالی ہند میں مختلف مکاتب فکرکی مرکزی دینی درس گاہوں کے فارغین سے بھی ان کی آراء جاننے کی کوشش کی۔ ان کے خیالات اورتجاویزکوبھی اس مضمون میں مناسب موقعوں پرجگہ دی گئی ہے۔ امید ہے اس تحریر سے وقت کے ایک اہم مسئلہ پرغوروخوض اورتبادلہء خیالات کی راہیں کھلیں گی اورذمہ داران مدارس طلبہ کی نئی نسل کے احساسات اورضرورتوں سے آگاہ ہوسکیں گے۔

تحریک مدارس کا ابتدائی دور اور ایک خاص رویہ کی تشکیل

ماضی میں ہمارے طبقہ علماء نے معاش کے متعلق یک گونہ لاپرواہی یا غیرعملی ’توکل‘ کا رویہ اپنایاتھا۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا مطلب ہی یہ سمجھاجاتا تھاکہ والدین نے اس بچے کو دین کی خدمت کے لئے وقف کردیا ہے اورآخرت کے فائدے کے لئے اس کی اورخود اپنی دنیا کا ’نقصان‘ گوارہ کرلیا ہے۔ اس رویہ کی تشکیل میں تقویٰ اوردنیا بیزاری کا حصہ کتنا تھا، ہمیں معلوم نہیں۔ مگرتحریک مدارس کے ابتدائی دور، یعنی انیسویں صدی کے نصف آخر، کے سیاسی اورسماجی حالات کے مطالعہ سے یہ بات کسی قدرواضح ہوجاتی ہے کہ اقتدارسے محرومی، انگریزوں کی مسلم یا اسلام دشمنی، اورعلماء کی سیاسی بے وزنی نے اس رویہ کی تشکیل میں اہم کرداراداکیا۔ ہمارے مذہبی حلقوں نے اپنے اپنے دائروں میں اس سوچ کومضبوط کیا۔ انہیں اس کی دینی اوراخلاقی بنیادیں خود اسلامی تعلیمات میں مل گئیں۔ بہت جلد مدارس نے خودکو ایک ایسے ذہنی اورنفسیاتی خول میں بند کرلیا جس کے باہردین کی خدمت ایک نامانوس تصوربن کررہ گیا۔

لیکن اس رویے نے مدارس میں اپنے قدم اتنی مضوطی سے کیوںکر جمالئے؟ ہماری رائے میں تحریک مدارس کے آغاز میں اس رویہ کو برقراررکھنا آسان تھا۔ اس کی پہلی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ دورتحریک مدارس کا ابتدائی دورتھا۔ ذمہ داران مدارس جذبہ عمل سے سرشاراوراپنے مقصد کے متعلق انتہائی حساس اورفرض شناس تھے کہ اس دور میں یہی ان کا کل سرمایہ تھا۔ یوں بھی کسی تحریک، تنظیم یا دعوت کا ابتدائی زمانہ عمومی طورپرزیادہ جوش وخروش اورقربانیوں سےبھراہوتاہے۔ لوگ ایک دوسرے کی اخلاقی قوت اورایثاروقربانی سے طاقت حاصل کرتے ہیں اوراس طرح ایک ایسی اجتماعیت بن جاتی ہے جواس تحریک، تنظیم یادعوت کے لئے بنیاد کا پتھرثابت ہوتی ہے۔ اسی مضبوط بنیاد پرتحریک مدارس کی وہ عظیم الشان عمارت تعمیرہوئی جس نے جدید ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی اوراخلاقی تعلیم وتربیت کا حکومت کی مداخلت سے آزاد ایک مستحکم نظام قائم کردیا۔

اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس دورمیں جو افراد مدارس کے ترجمان سمجھے جاتے تھے ان کی ذاتی زندگی اورکردار دنیاداری، حرص وہوس، اورذاتی مفادات کے تحفظ سے پاک تھا۔ سادگی، جفاکشی اوردنیا بیزاری ان کا شعارتھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مدارس اپنی تاریخ کے ایک مختلف دورمیں داخل ہوچکے ہیں۔ اب ان کے مسائل بھی انیسویں اوربیسویں صدی کے مسائل سے الگ ہیں اورامکانات کی دنیا بھی وسیع ہوچکی ہے۔ اخلاق ودیانت کے اعتبارسے بھی مدارس سے وابستہ موجودہ افراد کاتحریک مدارس کےدوراول کے لوگوں سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا ادراک ہمارے مذہبی حلقوں میں ہرکسی کو ہے مگر اس پرلب کشائی کی جرات بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ مگراس صورت حال کا صرف رونا رونے کے بجائے ضرورت ہے کہ مدارس سے ہمدردی اورانہیں ایک اہم ملی اورانسانی ضرورت سمجھنے والے لوگ اصلاح حال کے لئے سرجوڑکربیٹھیں اورکوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔

بہرحال، تبدیل شدہ صورت حال میں فارغین مدارس کے سامنے معاش کا مسئلہ ہرگزرتے دن کے ساتھ زیادہ اہمیت اخیتار کرتاجارہا ہے۔ ہمارے مدارس کی عمومی فضا کسی تبدیلی کا ادراک اوراعتراف بہت دیرسےکرتی ہے۔ اس کے باوجوداب مدارس کے حلقوں میں بھی اس مسئلہ کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ اس کا احساس اب اس لئے بھی شدید ترہوگیا ہے کہ فارغین مدارس کی نئی نسل ذرائع ابلاغ کے جن تیزرفتاروسائل تک رسائی رکھتی ہے وہ ان سے پہلے لوگوں کو حاصل نہیں تھے۔ اسی لئے نئی نسل ایک دوسرے کے مسائل اورحالات سے زیادہ واقف ہے۔

معاشی مسائل: فارغین مدارس بولتے ہیں

اپنے مقصد کےلئے ہم فارغین مدارس کو تین خانوں میں بانٹ سکتے ہیں: ان میں وہ ’خوش قسمت‘ فارغین شامل نہیں ہیں جن کا خانوادہ پہلے سے ہی کسی مدرسہ کے مسند اہتمام پرجلوہ افروز ہے۔ ایسے فارغین، عموماً، معاشی اعتبار سے ’فارغ البال‘ ہی ہوتے ہیں اورعام فارغین کی طرح انہیں معاشی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

اول، جوطلبہ نسبتاً خوش حال گھرانوں سے آتے ہیں وہ مزید تعلیم کے لئے کسی عصری تعلیم گاہ کا رخ کرتے ہیں یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبارشروع کردیتے ہیں۔ دوم، معاشی اعتبار سے کمزورترین طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ اپنی صلاحیت کے مطابق کسی مسجد میں امام ، خطیب یا مؤذن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگ جاتے ہیں۔ سوم، ان میں بھی جو امامت و خطابت کے شعبے میں نہیں جانا چاہتے وہ مسلمانوں کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں میں دینیات، اردو، عربی، وغیرہ کی تدریس سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔

بظاہریہ تقسیم بہت آسان اورمنطقی لگتی ہے مگرسماج کے مختلف طبقوں سے آنے والے یہ فارغین مدرسہ کی چہاردیواری سے باہرنکلنے کے بعد کس قسم کی ذہنی کشمکش اورکرب سے گزرکراپنے نان شبینہ کا انتظام کرتے ہیں اس کا احساس شاید علماء کے اس طبقہ کو نہیں ہے جس کے ’قبضہ قدرت‘ میں اہتمام کی باگ ڈورہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف اسلام ہے جو مذاہب عالم میں دین ودنیا اورجسم وروح کی دوئی کوختم کرنے کا سب سے بڑا علم بردارہے اوردوسری طرف ہمارے مدارس کا وہ ماحول ہے جونظری نہیں مگرعملی سطح پراپنے فارغین کے حوالے سےکسب حلال کے لئے کسی تیاری اورتربیت کو حقارت اورشبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے۔

اس سلسلے میں اکرام الرحمٰن فلاحی، اسسٹنٹ وائس پریسیڈنٹ، ہیڈ آف شریعہ کوآرڈی نیشن، الہلال بینک، ابوظہبی، کے خیال میں ’’فراغت کے بعد مدرسہ کا ایک طالب علم ہر قسم کے معاشی مسائل سے دوچارہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مدارس کے اندردین کی وہ تعلیم جو غیرروایتی اندازمیں طلبہ کو دی جاسکتی ہے اسے بھاری بھرکم نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے مدارس کا موجودہ نصاب نہ صرف یہ کہ معاش کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی تعاون فراہم نہیں کرتا بلکہ طلبہ کے اندراس سلسلے میں ایک منفی سوچ پروان چڑھا نے میں بہت ہی مددگاربھی ثابت ہورہا ہے۔ حالات سے غیرہم آہنگی اورزندگی کے اصل مسائل سے دوری مدارس کے نصابِ تعلیم کا وہ عنصر ہے جس نے طلبہ کے اندرمعاش کے تعلق سے غیریقینی کی کیفیت پیدا کررکھی ہے۔‘‘

ہم نے جب یہی سوال دارالعلوم ندوۃ العلما کے فارغ التحصیل محمد مطلوب ندوی، ٹیم لیڈر، انٹرنیشنل مارکیٹنگ، آرٹیمس ہاسپٹل، گروگاؤں، کے سامنے رکھاتو انہوں نےفارغین کی پریشانیوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ’’مدارس کے طلبہ فراغت کے بعد کافی پریشان ہوتے ہیں، ان کا رخ پہلے سے متعین نہیں ہوتا ہے، اورجن لوگوں کا ارادہ پہلے سے ہی درس و تدریس، تصنیف و تالیف اورامام و خطیب کے طورپرکسی دینی ادارہ میں خدمت کرنے کا ہوتا ہے انہیں بھی کہیں اچھی جگہ ملنا دشوارہوتاہے کیوں کہ فارغین مدارس کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اوراسامیوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اوراس وقت طالب علم بھی اس لائق نہیں ہوتے ہیں کہ کسی عصری ادارہ یا کسی کارپوریٹ میں نوکری حاصل کرسکیں۔‘‘

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیرملک میں نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاش کا ہوتا ہے۔ اس میں روایتی اورعصری یا مذہبی اورسیکولر اداروں کے فارغین سب برابر ہیں۔ ہاں، ان دونوں کے مسائل اوران کے لئے موجود امکانات کی نوعیت میں، ممکن ہے، کچھ فرق ہو۔ ملک کی مشہوردینی درس گاہ، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کے فارغ التحصیل اورجامعہ عارفیہ، سید سراواں، الٰہ باد کے استاد ذیشان احمد مصباحی کا خیال ہے کہ ’’تعلیم کے بعد ملازمت کا مسئلہ ہر فارغ التحصیل کا مسئلہ ہے۔اس میں مدرسہ، کالج اوریونیورسٹی کا فرق نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے فارغین کا بھی یہی المیہ ہوتا ہے جو مدارس کے فارغین کا ہوتا ہے۔ مدارس والوں کے لئے آسانی یہ ہوتی ہے کہ وہ کہیں بھی امامت و خطابت کے ذریعے اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل، بمشکل تمام ہی سہی، کرلیتے ہیں۔ یہ آسانی یونورسٹی کے طلبہ کے لئے نہیں ہوتی ہے۔‘‘

مشہوررفاہی تنظیم ’طیب ٹرسٹ‘ دیوبند سے وابستہ شاہ نوازبدرقاسمی کا بھی خیال ہے کہ مدارس اورکالجزدونوں کے فارغین کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے: ’’معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنے والے طلبہ کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ ہاں، یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ انہیں کم تنخواہوں پر گزاراکرنا پڑتا ہے لیکن کالجز کے تعلیم یافتہ طلبہ کے برعکس ان میں بے روزگاری کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔‘

غورکرنے کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ طلبہ کے مقابلہ میں مدارس کے فارغین کومعاش کے سلسلے میں جو ’آسانی‘ حاصل ہے انہیں اس کی بھاری نفسیاتی اورسماجی قیمت بھی اداکرنی پڑتی ہے۔ مدارس میں ’اقوام و ملل‘ کی قیادت و سیادت کے جو خواب انہیں دکھائے جاتے ہیں اس کے مقابلہ میں حقیقی زندگی یکسرمختلف ہوتی ہے۔ یہاں ان کا واسطہ مسجد اورمدرسہ کمیٹی کے ایسے افراد سے پڑتا ہے جوپانچ وقت کی نماز کے علاوہ دنیا کے کسی اورمعاملہ میں ان کی بات ماننا اپنی کسرشان سمجھتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس پرکیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کوئی بھی حساس شخص بآسانی کرسکتا ہے۔ ذیشان احمد کو اس تکلیف دہ صورت حال کا احساس ہے: ’’ہاں! طلبہء مدارس کے لئے معاش کا یہ پہلو بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ ان کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے۔ اس کا ذمہ دارہمارا مذہبی معاشرہ ہے جو ایک امام کو چوبیس گھنٹے ملازم کی شکل میں باندھ کررکھتا ہے اور اس کے بدلے اسے اتنی بھی رقم نہیں دیتا کہ فارغ البالی کے ساتھ اس کی دال روٹی چل سکے۔‘‘

کنگ عبد اللہ اٹامک سٹی، ریاض میں مترجم کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر ذاکراعظمی ندوی فارغین کے معاشی مسائل اوراس سے پیداہونے والے نتائج کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’دوران طالب علمی اسے قیادت ملی کے وہ سہانے سپنے دکھائے جاتے ہیں جس کا عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں۔ دیگر ہم جولیوں کی طرح وہ بھی خوش حال زندگی گزارنا چاہتا ہے مگر معاشی مضبوطی کو حاصل کرنے کے ذرائع سے وہ ناآشنا ہوتا ہے، بالآخرمایوسی، محرومی اوراحساس کمتری اس کا مقدربن جاتی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ وہ خوابوں کی ایسی دنیا سے آتا ہے جس کا تعلق حقیقی دنیا سے نہیں ہوتا۔‘‘

مدارس میں دین کی خدمت کا تصوربہت محدودہے۔ دینی درس گاہوں میں تعلیم و تدریس کی خدمت بھی ایک ضروری کام ہے۔ اس کے فوائداوردوررس اثرات سے شاید ہی کسی کو انکارہو۔ مگرمدارس میں داخلے کے لئے کوئی اسکریننگ یا فراغت کے بعد کاؤنسلنگ کا کوئی نظام نہیں ہونے کی وجہ سے طلبہ اپنی صلاحیتوں کو بروقت پہچان کراس کے مطابق اپنی علمی اورعملی زندگی کے لئے تیاری نہیں کرپاتے ہیں۔ جوطلبہ کمزورمعاشی طبقے سے آتے ہیں وہ امامت و خطابت یا تعلیم و تدریس کے شعبوں میں چلے جاتے ہیں۔ کسی نوعمر اورتازہ دم سول سرونٹ کی طرح وہ بہت جوش وخروش کے ساتھ اپنی زندگی کا یہ نیا سفرشروع کرتے ہیں۔ مگرآئی اے ایس اورآئی پی ایس افسران ہی کی طرح انہیں بھی بہت جلد اس تلخ حقیقت کا احساس ہوجاتا ہے کہ منچ سے پروسی جانے والی ‘نے تِکتا’ (اصول پرستی) اورمنبرسے پروسے جانے والے زہد وتقویٰ دونوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے حروف میں ‘شرطیں لاگو’ بھی لکھا تھا۔ لڑکیوں کے مشہورتعلیمی ادارہ، جامعہ الصالحات، رام پورکی تعلیم یافتہ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں سنٹرفورپروموشن آف ایجوکیشنل ایڈوانسمنٹ آف مسلمس آف انڈیا (سی پے کامی) میں اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹرکوثرفاطمہ کے مطابق ‘‘مدارس کے ذمہ داران اپنے بچوں کو تو دنیا کے سردوگرم کے لئے تیار کرلیتے ہیں لیکن مدارس کے دوسرے طلبہ کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان پر صرف اورصرف دین کی ذمہ داری عائد ہے۔ خواہ اس کے لئے وہ پانچ سے آٹھ ہزار کی امامت کریں، کھال جمع کرتے پھریں اورجب کچھ نہ بن سکے تو اپنے علاقے میں ایک نئے مدرسے کا آغاز کردیں۔’’

ہروہ شخص جس کا آنا جانا شہروں اورقصبات کےمسلم علاقوں میں لگارہتا ہے اورجودیہاتوں اورگاؤں میں آنے والی سماجی تبدیلیوں پربھی نظررکھتا ہے وہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ چھوٹے چھوٹے نئے مدارس آئے دن کھل رہے ہیں۔ کوثرفاطمہ کی اس بات سے اختلاف مشکل ہے کہ مدارس کے ذمہ داران نے مالیات اورانفرادی اخلاقیات کے تعلق سے جو منفی مثال پیش کی ہے اس نے مدارس کے اخلاقی ساکھ کوبٹہ لگانے میں بڑاکردارادا کیاہے۔ اس بات کا اعتراف ہے کہ آج بھی مدارس کے اربابِ اہتمام وانتظام میں خال خال ایسے لوگ نظرآجاتے ہیں جو مدارس کی مالیات کوذاتی ملکیت کے بجائے اجتماعی امانت سمجھتے ہیں اورایک امین کی طرح اس میں تصرف کرتے ہیں۔ لیکن اکثریت کا طرزعمل انتہائی افسوس ناک ہے۔ دین وشریعت کی تعلیم دینے والے علماء نما ان افراد کی پہچان کرنا مشکل نہیں مگربدقسمتی سے ابھی تک ہندوستانی مسلم سماج کا اجتماعی ذہن ایسے لوگوں کی سرزنش کرنے کے لئے خود کوتیار نہیں کرسکا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے علما کا وقاردن بدن مجروح ہوتا جارہاہے۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے مدارس میں چاپلوسی اورتملق پسندی کی فضا عام ہوتی ہے جس سے باصلاحیت مگرخودداراساتذہ حاشیہ پرچلے جاتے ہیں۔ ارباب اہتمام جو اپنے حواریوں کے نازنخرے اٹھاتے ہیں ایسے خودداراساتذہ کے ساتھ سردمہری کا رویہ اپناتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ یہ لوگ بددل ہوجاتے ہیں اورتعلیم و تدریس میں ان کی دلچسپی بتدریج کم ہوجاتی ہے۔ ایسے فارغین ہرچند سال بعد جگہ بدلنے کے لئے مجبورہوجاتے ہیں۔ لیکن کم و بیش ہرادارہ میں انہیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مدرسہ کے تعلیمی معیارپراس کے جو منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ اہل نظرسے پوشیدہ نہیں۔

اسی صورت حال کی وجہ سے فراغت کے بعد جو طلبہ تعلیم و تدریس کے شعبے میں جاتے ہیں ان کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ انہیں باربارفقرآمیز توکل کی گھٹی پلائی جاتی ہے تاکہ ’حکمراں‘ کی ساحری سے کوئی بیدارہوکراپنا حق نہ مانگنے لگے۔ اس سلسلہ میں ذیشان احمد کہتے ہیں کہ ’یہ بات حقیقت ہے۔ اگر ذمہ داران مدارس نے اس سمت اپنی روش نہیں بدلی، علما کو فارغ البال نہیں کیا، اور توکل کے اس فلسفے پر عامل نہیں ہوئے جسے وہ اپنے حق میں پسند کرتے ہیں، تو مستقبل میں دینی تعلیم و تدریس کا خدا ہی مالک ہے! طالبین مدارس تیزی کے ساتھ اس ذلت آمیز فقروتوکل سے باہرآرہے ہیں اور اپنے طور پر وہ دینی اداروں سے باہر معاشی دنیا تلاش کر رہے ہیں۔ یہ دینی تعلیم کے لیے کوئی اچھا فال نہیں ہے۔‘

یہاں یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ عام طورپرباصلاحیت طلبہ مدارس میں تدریس سے وابستہ نہیں ہونا چاہتے اورفراغت کے بعدوہ معاش کے دیگرمیدانوں میں قسمت آزمائی کوترجیح دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صلاحیت کے اعتبارسے ہمارے مدارس صف اول کے طلبہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس صورت حال کے متعلق ڈاکٹرذاکراعظمی کہتے ہیں کہ ’المیہ یہ ہے کہ جن فارغین کے اندر تھوڑی بہت صلاحیت ہوتی ہے وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی مناسب ذریعہ تلاش کرلیتے ہیں مگر وہ طلبہ جو دنیا کی کسی مشین میں فٹ نہیں ہوسکتے وہ خواہی نخواہی پیشہ تدریس سے وابستہ ہوتے ہیں مگر کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ البتہ نظماء مدارس کے لئے یہ مشغلہ بہت ہی با برکت ثابت ہوتا ہے۔‘

لیکن شاہ نواز بدرقاسمی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ سرکاری اداروں سے مدارس کا تقابل کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’مدارس میں اساتذہ کی تنخواہوں کا انحصار بھی ان کی صلاحیتوں اورذمہ داریوں پرہوتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کئی سرکاری محکموں کے برعکس مدارس میں اساتذہ کووقت پرتنخواہیں مل جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ہمارے سامنے رہنی چاہئے کہ کچھ لوگ خواہ وہ مدارس میں ہوں یا کسی اورسرکاری ادارہ میں وہ اپنے ذمہ داروں سے ناخوش رہتے ہیں۔ اس لئے یہ بات صرف مدارس کے متعلق کہنا مناسب نہیں ہے۔‘

قناعت، توکل اورصبر: مگرکس کے لئے؟

موجودہ صورت حال میں فارغین مدارس کھل کرذمہ داران مدارس کے دوہرے معیارپرتنقید کرنے لگے ہیں۔ یہ تبدیلی اس لئے آرہی ہے کہ ایک طرف انہیں صبروشکراورتوکل وقناعت کے ساتھ دین کی خدمت کا درس دیا جاتا ہے اوردوسری جانب وہ اپنے سرکی آنکھوں سے یہ دیکھتے ہیں کہ مہتمم صاحبان کے ناکارے صاحبزادگان بھی یتیم وناداربچوں کے نام پرسمیٹے گئے مال کی بدولت آسودہ حال زندگی گزارہے ہیں۔‘

اکرام الرحمٰن فلاحی کے مطابق مدارس میں مقبول یہ سوچ کہ ’مدرسین کو بہرحال یہ سب کچھ نظرانداز کرکے ایمان داری اورامانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فریضہ کی ادائیگی پرتوجہ دینی چاہئے ان کی زبوں حالی کے اسباب میں سے ہے۔‘ جوذمہ داران اس سوچ کے برخلاف اساتذہ کے لئے بہتر معاشی مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اپنے محدود وسائل کی وجہ سے مجبورہوجاتے ہیں۔‘

مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگرکچھ بیدارمغزذمہ داران طلبہ کے لئے کچھ ایسا کرنا چاہیں بھی جس سے طلبہ کوکوئی تکنیکی ٹریننگ یا تصنیفی تربیت دی جائے توان کے وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ مدارس نے عالم عرب اورجنوبی افریقہ میں اہل ثروت کے تعاون اورملک میں عام مسلمانوں کے چندے کےعلاوہ مالیات کی فراہمی کے لئے کوئی متبادل ماڈل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبہ رابطہ عامہ سے وابستہ نوجوان صحافی محمد علم اللہ اصلاحی کہتے ہیں کہ ’اب مدارس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئےغیرروایتی معاشی ذرائع کا جائزہ لیں:

ملت کے مختلف ماہر ین اقتصادیات کو جمع کر کے مدرسہ کے لئے فنانشیل سپورٹ فنڈ کاپروگرام بنائیں، اور محض زکواة،صدقات اور فطرہ کی بنیاد پرادارہ کو چلانے کے بجائے کچھ دوسرے راستے مثلاٹرسٹ، دوکان یا بزنس وغیرہ کچھ پروگرام بنائے جائیں جس سے مدرسہ کی اپنی آمدنی بھی ہوتی رہے۔‘

نئے مدارس کا قیام اورہمارے مذہبی حلقے

جب حکومت کی جانب سے مدارس کی تعداد میں اضافہ کی بات کہی جاتی ہے تو مسلمان اسے اپنے خلاف حکومت وقت کا پروپیگنڈہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن اس بات کا مشاہدہ تو عام ہے کہ مسلم علاقوں میں ایسے مدارس کی تعداد میں جن میں حفظ قرآن اورابتدائی درجات کی تعلیم ہوتی ہے اضافہ ہورہاہے۔ اس سلسلے میں اعدادوشمارکی کمی نفس مسئلہ کی تحقیق میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن عمومی طورپرایسے مدارس کی تعداد میں اضافہ کی وجہ صاف ہے۔ جو فارغین مدارس تعلیم و تدریس کی اہلیت رکھتے ہیں نہ کسی مسجدمیں جگہ حاصل کرپاتے ہیں ان کے لئے ایک نئے مدرسہ کاآغازکچھ مشکل نہیں ہوتا۔ مدرسہ اوردین کی خدمت کے نام پرعوام سے تعاون حاصل کرنا آسان کام ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق، جیسا کہ یہ بات پہلے بھی گزرچکی ہے، سماج میں علماء کے مقام ومرتبہ سے بھی ہے۔ ایسے مدارس کے ذمہ داران اورتحریک مدارس کے اکابر کے درمیان بھلا نام کی نسبت کےعلاوہ کون سی قدرمشترک ہے؟ اسی کا نتیجہ ہے کہ مدارس سے وابستہ علماء کی ساکھ دن بدن کمزورہوتی جارہی ہے۔ یہ ہماری ملی اورمذہبی زندگی کے لئے کوئی خوش آئند خبر نہیں ہے۔ مسلک و مشرب کے خانوں میں تقسیم ہمارے مذہبی حلقے اس کے تدارک کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب علماءکرام کو تلاش کرنا چاہئے۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیگرمسائل کی طرح اس مسئلہ کے لئے بھی ان کا ایک پلیٹ فارم پرجمع ہونا بہت مشکل ہے۔ اب مسئلہ صرف مسلک ومشرب کا بھی نہیں رہا بلکہ اس سے بڑھ کرنوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہی مسلک و مشرب میں کئی کئی ’بزرگوں‘ کے الگ الگ حلقہ ء ارادت ہیں جن سے مریدین باصفا کی ایک تعداد وابستہ ہے۔ علاقائی تعصب اوراس کے گنڈے بچے الگ رہے۔ ’بزرگان‘ کی کوشش یہ رہتی ہے کہ ان کے حلقے کا اثرونفوذ مسلسل بڑھتاجائے تاکہ ملی قیادت کے عہدے ومناصب اورحکومت کے الطاف خسروانہ کے لئے ان کی طرف نگاہیں اٹھیں۔ اس لئے اپنے مریدین کی بے اعتدالیوں پر ٹوک کریہ انہیں ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ مدارس میں ایک مثبت تبدیلی بھی آرہی ہے۔ اس تبدیلی کا ہراول دستہ بھی فارغین مدارس کی موجودہ نسل ہے۔ مدارس کے ذمہ داران خواہ اس بات کا کنتا ہی انکار کریں مگریہ بات اب ایک حقیقت بن چکی ہے کہ انہوں نے بدلتے ہوئے حالات کے سامنے سپرڈال دیاہے۔ اب انگریزی زبان کی مثال ہی لے لیجئے کہ اگراسے مدارس میں جگہ نہیں دی گئی تو طلبہ نے انفرادی طورپراسے سیکھنے کی کوششیں شروع کردیں۔ آج دیوبند سے لےکرلکھنؤ اوراعظم گڑھ سے لے کرسہارن پوراوربنارس تک ہرجگہ ایسے طلبہ موجود ہیں جواس زبان کے حصول کے لئے تگ ودوکرتے نظرآتے ہیں۔

اکرام الرحمٰن فلاحی کے مطابق اس تبدیلی کے وجہ یہ ہے کہ ’معاش کا مسئلہ دورجدید کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ اس سے صرف نظرنہ طلبہ مدارس اورنہ ہی ذمہ داران مدارس کے لئے ممکن رہا۔ اسی لئے دونوں کو اپنے اندازفکرمیں تبدیلی لانی ہی تھی۔ آج سے بیس پچیس سال قبل ایسی باتیں کرنے والے دونوں کی نظر میں مدارس کے ہمدرد نہیں تھے لیکن آج ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کی دوڑ میں مدارس بھی نظرآرہے ہیں۔‘

فارغین مدارس معاش کے نئے میدانوں میں

ہم نے جب فارغین مدارس سے یہ پوچھا کہ کیا حالیہ برسوں میں امامت، خطابت، تدریس، طب، وغیرہ جیسے روایتی میدانوں کے بجائے معاش کے نئے میدانوں کا انتخاب کرنے والے فارغین کے لئے مدارس کے حلقہ میں یک گونہ نرمی پیدا ہوئی ہےتومحمد مطلوب ندوی نے اس کی ایک دلچسپ وجہ بتائی۔ انہوں نے کہا کہ معاشی اعتبارسے مستحکم طلبہ مدارس سے اہل مدارس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے اس لئے ان کے تئیں ایک نرم گوشہ کا پیداہونا لازمی تھا: ’گزشتہ دہائیوں میں جن طلباء نےعصری اداروں کا رخ کیا وہ مادر علمی سے وابستگی رکھتے ہوئے زندگی کے سارے شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی سطح پر علمی، سماجی، رفاہی اور تعمیری کام انجام دے رہے ہیں. معاشی طور پر مضبوط ہونے کے بعد وہ دینی اداروں کا تعاون بھی کرتے ہیں. شاید ذمہ داران مدارس کو یہ بات دیر سے سمجھ آئی کہ مسلمان معاشی طور پر ٍکافی پریشان ہیں، معاش اور تعلیم آپس میں لازم اور ملزوم کی طرح ہیں. اگر معاش اچھا ہوجائے تو پھر تعلیم کا معیار بھی اچھا ہوجائے گا.‘

ڈاکٹراعظمی کے مطابق اہل مدارس کے رویہ میں مثبت تبدیلی کی وجہ عالمی سطح پرپیدا ہونے والی وہ تبدیلیاں ہیں جنہیں ہم گلوبلائزیشن سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ ’جب ضرورت سے زیادہ مدارس قائم ہوئے اورفارغین کی تعداد بھی بڑھتی گئی تو (فارغین کو) مختلف نئی جہتوں میں قسمت آزماناپڑا۔‘

شاہ نواز بدرقاسمی اسے تبدیلی نہیں مانتے ہیں۔ ان کے خیال میں مدارس کا رویہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مدارس نے ہرزمانہ میں ہرمیدان کونیک صالح اوراچھا شہری دیا ہے جنہوں نے بحسن وخوبی اپنی ذمہ داری نباہا ہے۔ دن بدن علماء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اورموجودہ تبدیلیوں اورتقاضوں کی وجہ سےعلماء کی ایک تعداد سرکاری کالجوں میں تدریس، میڈیا اورذرائع ابلاغ اوربیرون ملک بھی مختلف میدانوں میں قسمت آزمائی کررہی ہے۔ دیوبند جیسے اداروں کے بارے میں میں ایک غلط فہمی دورکرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہمارے یہاں جمود ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں بہت زیادہ دقیانوسی اورایسے ذہن کے لوگ ہیں جو ترقی اورتبدیلی نہیں چاہتے ہیں۔ دارالعلوم، دیوبند کی حد تک میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ نصاب اورنظام تعلیم کے اعتبارسے گو یہاں کوئی بہت بڑی تبدیلی نظرنہیں آئے گی مگراس کے باوجود یہاں کے فارغین زندگی کے مختلف میدانوں میں اس دورکے تقاضوں اورچیلنجز کوسمجھ کرخدمات انجام دے رہے ہیں ۔ یہ نرمی کی بات نہیں ہے بلکہ وقت اورحالات کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی تبدیلی ہے۔ اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔‘

اس کے برعکس کوثرفاطمہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ اہل مدارس میں ان فارغین کے لئے جو نئے راستوں کا انتخاب کرتے ہیں اب کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ذمہ داران ابھی بھی اس طرح کی تبدیلیوں کے خلاف ہیں: ’ابھی اہل مدارس نے اس کو بہت کھلے دل سےقبول نہیں کیا ہے بلکہ میرا احساس تو یہ ہے کہ ان کا بس چلے تو وہ انہیں کسی دوسرے میدان میں قسمت آزمانے ہی نہ دیں. لیکن جب ان کا کوئی طالب علم کسی اور میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے تو اس سے تعلق جوڑنے میں وہ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ علماء بھی عام انسانوں کی طرح پیسہ اورعہدہ سے مرعوب ہوتے ہیں, الا ما شاء اللہ۔‘

ظاہر ہے کہ تبدیلی، خواہ اس کی رفتار کتنی ہی دھیمی کیوں نہ ہو، اپنی جگہ خود بنا لیتی ہے۔ اکرام الرحمٰن فلاحی کے مطابق ’حالات سے ایسی واقفیت جو آج کے دورمیں ہوتی ہے پندرہ سال قبل اس کا تصورنہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس چیز نے اہلِ مدرسہ پرکافی اثرڈالا ہے اورانہیں اس بات کااحساس پہلی بارہوا ہے کہ ان کے اورانسانی سماج کے مسائل میں کتنا بڑاگیپ ہے۔ لیکن تبدیلی کا عمل جتنا تیز ہے ہماری سوچ اس کے مقابلہ میں کچھ سست روثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ ہم حالات کا تجزیہ کرکے جب تک کوئی لائحہ عمل بنانے کی پوزیشن میں آنا چاہتے ہیں ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالات تو بالکل ہی بدل چکے ہیں۔ اس ہم آہنگی کے لئے ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘

ذیشان احمد مصباحی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حالات کے جبرسے جن تبدیلیوں کا آغاز مدارس کے حلقے میں ہوا ہے اس میں منصوبہ بندی مفقود ہے: ’اس سمت جس حسن تنظیم اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، وہ مفقود ہے۔ابھی اس سمت جو کچھ اقدام ہوا ہے وہ جزوی اوراستثنائی ہے جس پررائے زنی قبل از وقت ہوگا۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امت مسلمہ کو اپنے علماء کے معاشی استحکام کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر دینی تعلیم و تدریس کا مستقبل خطرہ میں ہے۔‘

شاہ نواز بدرقاسمی اس بات کو نہیں مانتے کہ فارغین مدارس کے معاشی مسائل اورمدارس کے موجودہ نصاب میں باہمی تعلق ہے۔ وہ اس کی وجہ ذاتی محنت، دلچسپی اورصلاحیت کو مانتے ہیں۔ ’مولویوں کو معاشی مسائل کا سامنا نہیں ہے بلکہ مولوی نما لوگ پریشان حال ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محنت اورلگن سے پڑھائی نہیں کی اس لئے انہیں کوئی کامیابی بھی نہیں ملی۔ یہ بات بھی ہمارے پیش نظررہنی چاہئے کہ مدارس کے طلبہ میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ ان صلاحیتوں کو موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے اوران کے اندرجواحساس کمتری ہے اس کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔‘

گرسنے کوئی۔۔۔۔۔۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ فارغین مدارس کے معاشی مسائل پر ہمارے مذہبی حلقہ کے اکابرین سنجیدگی اورہمدردی سے غورکریں۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتاجائے گا۔ اصلاح نصاب کا مطلب صرف کچھ کتابوں کا حذف وآضافہ نہیں ہے۔ یہ ایک ہمہ گیرعمل ہے جس کے اثرات مدارس کے نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کے نظام تربیت، اساتذہ کی صلاحیت، طلبہ کی علمی وفکری آبیاری اورطبقہ علماء کی حیثیت عرفی پربھی مرتب ہوتے ہیں۔

معاش کے متعلق اس عمل کے دوپہلوہیں: اول، مدارس میں داخلہ کے نظام کوبہتربنانے کے لئے ماہرین تعلیم کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایسے اصول وضوابط بنائیں جس سے مختلف قسم کی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی تربیت مناسب ڈھنگ سے کی جائے۔ اس بات سے کون واقف نہہں ہوگا کہ مدرسہ میں آنے والا ہرطالب علم علوم شریعہ کے حصول کے لئے شعوری طورپرنہیں آتا۔ ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کی ہوتی ہے جوکسی مجبوری یا دباؤ میں یہاں آتے ہیں۔ اگر کچھ مدارس کالج کے طلبہ کے لئے ان کی ضروریات کے لحاظ سے الگ ںصاب بنا سکتے ہیں تو آخراس میں کیا قباحت ہے کہ مدارس میں آنے والے طلبہ کو تخصص کے مرحلہ سے پہلے ایک بار پھر یہ موقع دیا جائے کہ وہ دین کی بنیادی تعلیمات اورعربی زبان وادب کے ثانوی کے مرحلہ کوطے کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرسکیں کہ آیا وہ ضروری تیاری کے بعد دسیویں کا امتحان دے کر کالج میں جانا پسند کریں گے یا مزید چند برس مدرسہ میں گذارکرعلوم شریعہ میں تخصص پیدا کریں گے۔ ماضی میں اس طرح کی تجاویزسے لوگ چیں بجبیں ہوجاتے تھے مگر ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی یہ آواز اب اجنبی نہیں رہی میرااندازہ ہے کہ یہ تبدیلی کئی اعتبارسے خوش آئند ثابت ہوگی۔ اول، دنیا کے ہرتعلیمی نظام کی طرح اس میں بھی ایک مرحلہ کے بعد طلبہ کی دلچسپی اورافتادطبع کی رعایت ہوگی جس کے مثبت اثرات ان کی کارکردگی پرپڑے گی۔ دوم، مدارس کے ذمہ داران کو اپنے فارغین کی ایک بڑی تعداد سے یہ شکایت رہتی ہے کہ فراغت کے بعد وہ اپنی ’شناخت‘ کھودیتے ہیں۔ اگر پہلی تجویزپرعمل کیا گیا تو ایسے طلبہ جو روایتی معنی میں ’عالم دین‘ یا ’مولوی‘ نہیں کہلائیں گے ان کی جانب سے مخصوص وضع قطع کی پابندی نہ ہونے کی صورت میں مدارس کا نام بھی ’بدنام‘ نہ ہوگا۔ سوم، ایسے طلبہ کی تعداد میں بھی کمی کی امید ہے جو فراغت کے بعد کسی اورذریعہ معاش کی عدم موجودگی میں ایک اور مدرسہ کا فیتہ کٹوادیتے ہیں۔ وہ لوگ جو معاشی فارغ البالی اورمدارس کے نصاب کے اکہرے پن کی وجہ سے اپنے بچوں کو مدارس میں نہیں بھیجتے ہیں ان کی سوچ میں بھی تبدیلی آئے گی اورعین ممکن ہے، گو ایک محدود سطح پرہی سہی، ہم دینی اوردنیوی تعلیم کی دوئی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہمارے عہد کی حقیقت ہے۔ مدارس کے نام سے موسوم علمی اورروحانی جزیرے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ تقویٰ، دین داری، ایثار اورزہد کے تمام دعوؤں کے باوجود ہمارے مدارس میں امیروغریب کی کشمکش جاری ہے۔ جس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں امیرامیرتراورغیرمزیدغریب ہوجاتا ہے اسی طرح ہمارے مدارس میں بھی ’چندہ‘ کی برکت سے صرف چندلوگوں کی چہروں کی سرخی بڑھتی ہے۔ دہقاں یہاں بھی سرمایہ دارسے مات کھاتا ہے۔ ذمہ داران کوچاہئے کہ وہ بیدارمغزی کاثبوت دیں اورنئے راستوں کا انتخاب کرنے والے حوصلہ مند طلبہ اورمعاشی پریشانیوں میں مبتلامتوسط اوراس سے بھی کم علمی صلاحیت کے فارغین کو اپنے اعتماد میں لے کرایک ایسا لائحہ عمل مرتب کریں جس سے فارغین مدارس آرام وسکون اورخودداری کی زندگی گذارسکیں۔

مضمون نگار کا تعارف:

نجم الہدیٰ ثانی پڑھنے لکھنے کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس پر بجا طور پر لوگوں کو ناز ہو سکتا ہے ۔17 فروری 1984 کو بہار کے ضلع مدھو بنی میں پیدا ہوئے ۔ دارالعلوم ند وۃ العلماء سے جامعۃ الفلاح اور پھر علم کی پیاس جامعہ ملیہ اسلامیہ لے آئی جہاں انھوں نے شعبہ تاریخ و ثقافت سے گریجویشن تقابل ادیان میں ایم اے اور تقابل ادیان سے ہی ایم فل کیا ۔ شروع سے ہی اخاذ ذہن اور غور و فکر کی عادت پائی ہے ۔ جامعہ میں تعلیم کے دوران نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک معیاری اسکول کی ضرورت محسوس کی اور اس کے بعد ہی اس خیال کو علمی جامہ پہنانے کے لئے جٹ گئے ۔ طبیعت رومانوی پائی ہے مگر دل کی کمزوری کی وجہ سے میر صاحب کے طائفہ میں شامل ہونے سے محروم ہیں۔ کبھی میر صاحب کی دہلی کبھی نہ چھوڑنے کا کہا کرتے تھے اب کشن کنج بہار میں میں آکسفورڈ انٹرنیشنل اسکول کے نام سےعلمی در وا کر کے بچوں کے معصوم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).