جہالت اور ظلم قبول نہیں ہو سکتے


ایک دفعہ پھر بے ہنگم شور و غل کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ غدار، وہ غیر کا ایجنٹ۔ یہ بد عنوان اور وہ لائق ِتعزیر۔ یہ شور و غوغا وطن عزیز میں کچھ برسوں بعد پوری شدت سے عام ہوتا ہے۔ تطہیر اور احتساب کے بگل بجتے ہیں۔ پکڑ دھکڑ، قید مقدمہ ایک غل پڑتا ہے اور پھر غدار، بدعنوان اور لائق تعزیر نجانے کس حمام میں نہا دھو کر پاک و پاکیزہ محتسبوں کے ساتھ شامل اختیار و اقتدار ہو جاتے ہیں۔ کوئی ایک دو دہائیوں کی بات ہے کہ شہر کراچی کی ایک نمائندہ جماعت غدار قرار پاکر سخت ترین احتسابی اور تادیبی عمل کا شکار ہوئی۔ محسوس ہوتا تھا کہ کراچی کوئی عرصہ میں امن وامان اور ترقی و خوشحالی کی جنت کا نقشہ ہوگا لیکن وہ جو اس عمل میں محتسبوں کے شانہ بشانہ تھے معتوب ٹھہرے اور غدار اور لائق تعزیر اقتدار شریک ہوئے اور ایسے شریک ہوئے کہ رہے نام االلہ کا۔

کبھی کبھی تو یقین آنے لگتا ہے کہ اس ملک میں حب الوطنی، شرافت اور دیانت کا تمدن یا تو چھاؤنیوں میں رائج ہے یا پھراس قسم کی اعلیٰ اقدار ذرائع ابلاغ کے دفتروں اور اسٹوڈیوں میں ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ شائقین، ناظرین کی تعداد ان ذرائع ابلاغ اور ان کے شہکاروں کی مبنی بر حق مقبولیت کی دلیل تو قرار پاتی ہے لیکن یہی تعداد اگر رائے دہندگان کی صورت میں کسی سیاستکار کے حق میں فیصل ہو تو عوام کی نادانی یا تعلیم کی کمی کے سوا کچھ نہیں رہتی۔ وہ عوام جو قطار اندر قطار انتخابات میں اپنی آرا سے ایک معروف عمل کے ذریعے اپنے نمائندگان منتخب کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اور وہ جو دانش و بصیرت کے مخصوص ایجنڈے کے پیکٹوں میں حمایت و مخالفت بیچتے ہیں وہی اس ملک کے تقدیر کے ناخدا ہیں۔

آجکل وطن عزیز میں نئے بیانیے کا بہت شور سنتے ہیں۔ آئین جسے چند صفحات کا کتابچہ قرار دے کر گیارہ سال تک موم کی ناک بنائے رکھا گیا اُس کے ابتدائیے میں بھی ایک بیانیہ درج ہے لیکن تبدیلی کے وائرل میں مبتلا جذبات نے آئین کو بھی دانش و بصیرت کے پچھواڑے برآمدے میں بڑھاپا کاٹنے بٹھا دیا ہے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ لامکاں خدا کو زبردستی پاکستانی شناختی کارڈ تھما کر یہ ملک اُس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اگر جسارت کیجئے کہ یہ ساری کائنات ہی خدا کی ہے لیکن اس کی ضرورت خدا کو نہیں خلق خدا کو ہے تو توہین مذہب کی ننگی تلوار تھامے مولوی صاحبان کے ساتھ ایک بپھرا ہوا ہجوم اور اس ہجوم کی اوٹ میں نظام ِ عدل و انتظام کے کار پردازان ہم ایسوں کو جراٗت ِاختلاف کا مزہ چکھانے کو تیار۔

اسے کیا کہیے کہ پاکستان میں سے لا الہٰ کا مطلب نکال کر قرارداد ِ پاکستان کو بھاڑ میں جھونکنے والے جب خود طالبان ِ خدا کے ہتھے چڑھے تو پاکستان کا نیا مطلب بنانے کی سوجھی۔ میں پوری ذمہ داری سے محسوس کرتا ہوں کہ زندگی اور موت کا مالک خدا اپنا یہ اختیار کسی کے ہاتھ میں دینے پر کبھی بھی تیار نہیں ہوتا۔ کسی پر بھی کفر اور گنا ہ کا فتویٰ لگا کر اُسے جہنم واصل کرنا بھی تو مالک یوم الدین کی صوابدید میں مداخلت بے جا ہے۔ خدا نے یہ پوری کائنات ایک نظام پر تخلیق کی ہے اور اس کی ہستی بھی اُسی نظام پر اُستوار ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ اپنے ذات و صفات میں لا شریک اپنی اختیار و طاقت میں کسی دوسرے کی کسی بنا پر بھی شرکت قبول کرے۔ یا کسی نظام کے بغیر کسی فرد، ادارے یا ریاست کو قبول کرے۔ اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ خدا کا نظام عین عقل اور عین عدل ہے۔ جہالت اور ظلم ہر دو کسی بھی رنگ میں ہوں، کسی بھی نام سے ہوں اور کسی بھی جواز سے ہوں، اور کوئی تو شاید قبول کر لے، خدا ہر گز قبول نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).