دریائے ہنزہ میں خون بہتا ہے مگر ہم خاموش ہیں


ہنزہ لوک داستان کے مطابق پریوں کے دیس کا شہزادہ کسربلتسان سے ہنزہ آیا تھا۔ یہاں اس نے ایک پری ببلی سے شادی کر لی۔ مدت بعد کسر کو علم ہوا کہ بلتستان میں اس کی پہلی محبوبہ کو کسی جن نے اغوا کر لیا۔ کسر نے ببلی کو اٹھایا اور التر پہاڑ کے سانجھے پہاڑ(لیڈی فنگر پیک) کے اوپر چھوڑ دیا۔ ببلی نے کسرسے پوچھا کہ واپس کب پلٹو گے؟ کسر نے اسے ایک مرغی اور ایک بوری گندم لا کر دی۔ اس نے ببلی سے کہا، ’ تم اس مرغی کو گندم کی بوری سے ہر سال ایک دانہ کھلاتی رہو۔ میں گندم ختم ہونے سے پہلے لوٹ آﺅں گا‘۔ لوک داستان کے مطابق ببلی آج بھی موٹینگ کے اوپر شہزادے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس پہاڑ اسی مناسبت سے مقامی زبان میں ببلی موٹینگ کہا جاتا ہے۔

 ہم کریم آباد میں التت فورٹ کی پہلی منزل پر صدیوں پرانی کچی مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔میرے ساتھ نیوزی لینڈ سے آئی سیاح ایما کھڑی تھی۔ زمین ابھی سورج کی قربت سے دور تھی۔التر کی برف نے کمزور شعاعوں کے سامنے پگلنے سے انکار کر دیا۔سفید پانیوں والا دریا ئے ہنزہ بہت سکوت سے بہہ رہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھاجیسے ببلی موٹینگ سے بہنے والے سفیدبرفانی پانیوں میں کہیں ببلی کے آنسو بھی شامل ہیں۔ ایسے میں دور دریا پار سڑک پر ایک انسان کو کھڑے دیکھ کر ایما نے کہا، اس بڑے پہاڑ کے دامن میں وہ انسان کتنا چھوٹا نظرآتا ہے؟ میں نے یوں ہی بے خیالی میں کہہ دیا ، ہاں ! چھوٹا اور نہتا۔ ایما نے پوچھا ،نہتا کیوں؟ میں نے ایما سے پوچھا تم نے ٹینک مین کا نام سنا ہے؟ ایما نے انکار میں سر ہلایا دیا۔ 4 جون 1989 کو بیجنگ کے تنیامن چوک میں چین کی حکومت نے طالب علموں کے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ہزاروں انسان قتل کر دئیے گئے۔ اس قتل عام کے اگلے روز تنیامن چوک میں فوجی ٹینکوں کا ایک قافلہ چل رہا تھا۔ ٹینکوں کے اس جلوس کے سامنے ایک نہتا نوجوان خالی ہاتھ کھڑا ہو گیا۔ ایک غیر معروف نوجوان جسے دنیا اب ٹینک مین کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ سامنے شاہراہ قراقرم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہاں سے ٹینکوں کا ایک قافلہ آرہا ہے۔۔ ایما کھلکھلا کر ہنس پڑی اور بولی، ’ اور تم نہتے ہو کر ان ٹینکوں کی قطار سے سامنے کھڑے ہو‘۔ میں نے کہا نہیں۔ ان کے سامنے ایک نہتی بلتی لڑکی کھڑی ہے جس کی گود میں بکری کا ایک معصوم بچہ ہے۔

  ہم فورٹ کے سامنے والے ٹیرس میں آئے۔ گائیڈ ہمیں ٹیرس کے بالکل آخری کنارے پر لے کر گیا جو نہایت تنگ تھا۔ اس نے کہا کہ آپ لوگ بہت احتیاط سے نیچے ایک نگاہ ڈال لیں۔ ہم نے نیچے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فورٹ کی دیوار کے ساتھ ساتھ فورٹ کے اس جانب پہاڑ بالکل عمودی ہے اوردریا سینکڑوں فٹ نیچے بہہ رہا ہے۔ ہم فوراََ پیچھے ہٹ گئے۔ گائیڈ نے بتایا یہ وہ مقام ہے جہاں سے بادشاہ کو للکارنے والوں کو سزا موت دی جاتی تھی۔ قلعے کے اندر ان کی آنکھوں پر رات کی تاریکی میں کپڑا باندھ دیا جاتا تھا ۔ جلاد ان کو چلاتے ہوئے اس کنارے تک کرلے آتا اور پھر دھکا دے دیتا تھا۔ سینکڑوں فٹ نیچے گر کر ان کی ہڈیوں کا چورا بن جاتا تھا جسے دریا بہا لے جاتا۔

 ہم وہاں سے چلنے لگے تو ایما نے مجھ روک کر پوچھا؟ کیا ہر لڑائی جیتنا ضروری ہے‘؟ یہ سوال اس موقع پر غیر متوقع تھا۔ میں سمجھا نہیں۔ ایما نے کہا۔ یہاں سے کتنے انسان نیچے پھینکے گئے ہوں گے؟ شاید ہزاروں۔ ایما نے پوچھا ان میں سے کتنے نوجوان بہت بہادر اور بہت خوبرو رہے ہوں گے؟ شاید سینکڑوں۔ ایما بولی، مگر ان کی ہڈیاں بھی نہ ملیں۔ہر جنگ جیتنا ضروری نہیں ہوتا۔ کہیں کہیں لڑنے کے بجائے خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے۔ بدھا کی طرح متانت بھری خاموشی۔ جس سے نروان حاصل ہو۔ ہمارے قصبے میں ایک مشہور قول ہے۔

Be selective in your battles for some time peace is better than being right.

 ایما نیوزی لینڈ سے پہلی بار آٹھ سال پہلے ہنزہ آئی تو مسیحی تھی۔ یہاں سے ایما ماونٹ ایورسٹ دیکھنے نیپال چلی گئی۔ نیپال میں بودھ مذہب سے متاثر ہو کر ایما بودھ ہو گئی۔ اس نے گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ نیپال میں ہی کہیں وہ کسی گھر میں مہمان تھی۔ شام سمے گھر کی خاتون خانہ اصطبل میں گائے کا دودھ دوہنے گئی تو ایما بھی ساتھ چلی گئی۔ اس نے دیکھا کہ گائے کے بچھڑے کو دودھ پینے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ بچھڑے نے ایک تھن پر منہ رکھا تو چند ہی لمحوں بعد خاتون خانہ اس کا منہ دوسرے تھن پر رکھا، پھر تیسرے اور پھر چوتھے تھن کے ساتھ یہی عمل دہرایا گیا۔ اس کے بعد بچھڑے کو باندھ دیا گیا۔ ایما نے پوچھا کہ اس بچھڑے کو دودھ کیوں پینے نہیں دیا گیا؟ خاتون خانہ نے بتایا کہ بچھڑے کو تو چارہ کھلایا جاتا ہے۔ گائے کے تھنوں سے دودھ اس لئے تھوڑا تھوڑا پلایا جاتا ہے تاکہ گائے کے تھنوں میں دودھ آنا شروع ہو جائے۔ ایما کو لگا کہ یہ ظلم ہے مگر وہ مہمان تھی۔ اسے رات بھر نیند نہیں آئی۔رات کسی پہر وہ اٹھی ۔اصطبل میں گئی اور بچھڑے کو کھول کر خوب دودھ پینے دیا۔ اس کے بعد اس نے طے کیا کہ وہ کبھی بھی دودھ اور اس سے بننے والی کوئی چیز نہ کھائے گی اور نہ پیئے گی۔ ایما مست او الست ملنگنی تھی۔ محبت اس کا مذہب تھا۔

ایک ایما کی تصویر ہمارے ملک میں شائع ہوئی ہے۔ بستر پر لیٹی ایک معصوم لڑکی جسے پچھلے سال کئی مرتبہ خنجر کے وار کر کے زخمی کیا گیا تھا ۔ مشال کے والد نے عدالت میں بتایا کہ مشال کی بہنوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا دشوار ہو چکا ہے۔ مشال خان ٹینک مین کی طرح نہتا تھا۔ ریاست کی سرحدوں پر کسی نامعلوم، مبہم مگر مقدس نظیریے کی خیالی قناتیں ایستادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسان کا بدن قحط زدہ ہے۔ مزدور کے ہاتھوں میں چھالے ہیں مگر ہونٹوں پر پپڑیاں جمع ہیں۔سامری سنہرے بت تراش رہے ہیں۔ مجرم کا تعین کرنا اور مظلوم کو تحفظ دینے کی بجائے اہل اقتدار اصطلاحات کی جگالی میں جڑے ہیں۔ حرف کی حرمت پامال ہے۔ معلوم سیاسی بندوبست کو لادینیت قرار دیا جا رہا ہے۔ لادینیت کو سزا سڑکوں پر د ئیے جانے کا رواج شروع ہو چکا ہے۔ حرف پر پابندی عائد کرنے کا حکم صادر کر دیا گیا۔ جی ٹی روڈ کی زرخیز پٹی میں جنم لینے والے نیم جدید رجل رشیدخیالی گھوڑوں پر سوار قصیدہ گوئی کے میدان میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وزیر باتدبیر کی تصدیق بھی میسر آ گئی ہے۔ ڈنڈے کے زور پر احترام کا نقارہ بج چکا ہے۔ وطن کی گلیاروں میں محبت کے چشمے خشک ہونے کو ہیں۔ وقار ملک نے لکھا تھا، ’ ہم بے غیرتوں کو نئی دنیا بسانی چاہیے ‘۔ ایما کہتی ہے، ’ زندہ رہنے کے لئے خاموش رہنا ضروری ہے‘۔ دوردریائے ہنزہ کے برفیلے سفید پانیوں میں صرف ببلی کے آنسو ہی نہیں بہتے، التت فورٹ کے ٹریس سے پھینکے گئے نوجوانوں کا خون بھی بہتاہے ۔ اک غم پس عمر رواں ٹھہرا ہوا ہے اس لئے ہم خاموش ہیں ۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah