انتہا پسندی کا خاتمہ اور فوج کا کردار


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتہا پسندی کو ملک کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔ کل اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوج دہشت گردوں اور دہشت گردی سے لڑ سکتی ہے اور پاک فوج نے اس میں شاندار کامیابی بھی حاصل کی ہے لیکن انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور قوم کے نوجوانوں کو اس رویہ سے بچانے کےلئے پورے معاشرہ اور اس کے اداروں کو کام کرنا پڑے گا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ملک کی 50 فیصد آبادی 25 برس سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو ایک مقصد اور واضح شناخت دینے میں ناکام رہتے ہیں تو صورتحال ابتر ہو سکتی ہے۔ آج سے دس برس بعد یا تو ہم اپنے نوجوانوں کی درست نشاندہی کرکے اس کے ثمرات سے استفادہ کر سکتے ہیں یا پھر نوجوانوں کی ایسی کثیر تعداد کا سامنا ہوگا جن میں سے بہت سے انتہا پسندی کی طرف رجوع کر رہے ہوں گے۔ پاک فوج کے سربراہ کے اس انتباہ سے گریز ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان کی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس گفتگو کے تناظر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں سماجی رویوں میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران جو تبدیلی رونما ہوئی ہے، اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں ناقص گورننس اور انصاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن جمہوری اداروں کی ناکامی کی وجوہات میں اگر بدعنوانی ، خاندانی سیاست اور جاہ پسندی شامل ہیں تو ادارہ جاتی تصادم بھی ایک اہم وجہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمہ کےلئے نوجوانوں کو واضح نظریہ اور مقصد دینے کےلئے ضروری ہے کہ ملک کے تمام ادارے جن میں خاص طور سے فوج اور حکومت شامل ہیں، باہمی تعاون و احترام کو فروغ دیں۔ گزشتہ چند برس کے تجربات کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ ملک کو درپیش مسائل کے مقابلے میں یہ تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملک کی منتخب سول حکومت ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتی ہے کہ فوج اس کے کسی اقدام سے نالاں ہو کر ماضی کی طرح اس کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ اگر یہ انتہائی صورتحال نہ بھی رونما ہو تو بھی اس تناؤ سے ملک میں سیاسی بے یقینی اور ہیجان کی کیفیت قائم رہتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں اہل پاکستان نے بخوبی اس صورتحال کا مشاہدہ کیا ہے۔ فوج اگر براہ راست حکومت کو کمزور کرنے یا تبدیل کرنے میں ملوث نہیں ہوتی تو بھی اس کی حکمت عملی ، تبصرے اور اشارے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں جس میں مخالف سیاسی پارٹیاں اور گروہ فوج اور حکومت میں افتراق کی صورتحال کی بو پاتے ہی موقع سے فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ماضی قریب کی صرف دو مثالیں ہی صورتحال کو سمجھنے کےلئے کافی ہو سکتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سے فوج کی ناراضگی کا اظہار کرنے کےلئے میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا۔ پھر ملک کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف فوج کا اشارہ پاتے ہی ایک منتخب حکومت کو کمزور اور بے بس کرنے کےلئے مدعی بن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اسے فوج اور حکومت کے سیاسی اختلاف کا معاملہ سمجھنے کی بجائے قومی سلامتی کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بحران کو شدید کرنے اور ملک میں بے چینی پیدا کرنے کےلئے بھرپور کردار ادا کیا۔ اس طرح اگرچہ پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کا دورانیہ تو پورا کر لیا لیکن اس انتشار کی صورتحال میں وہ کوئی انقلاب آفریں کام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اپنے دور حکومت میں مناسب کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے کی سزا بھی ملی لیکن طالبان کی طرف سے پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں کو دی جانے والی دھمکیوں کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی کو سیاسی نقصان پہنچا۔ فوج جو ملک میں دہشت گردی ختم کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے، ان پارٹیوں کو طالبان کی دھمکیوں سے محفوظ ماحول فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس وقت تک فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ یہ وقوعہ دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد رونما ہوا جب حکومت کو طالبان سے مذاکرات ختم کرکے اس کے خلاف جنگ میں فریق بننے پر آمادہ کیا گیا۔
اس حوالے سے دوسرا اہم معاملہ گزشتہ برس ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ رپورٹ سول اور ملٹری قیادت میں انتہا پسندی سے نمٹنے کےلئے بعض اصولی اختلافات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات پر ملک میں سنجیدہ بحث کا آغاز کروانے اور ایک ذمہ دار ادارے کے طور پر اپنا موقف سامنے لانے کی بجائے فوج نے اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر حکومت کو دباؤ میں لانے کو ترجیح دی۔ فوج کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ حکومت ان عناصر کا پتہ لگائے جو وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک خفیہ اجلاس کی رپورٹ باہر لانے کا سبب بنے ہیں۔ یک طرفہ موقف کو مستحکم کرتے ہوئے اسے قومی سلامتی کا اہم ترین معاملہ قرار دیا گیا۔ حکومت فوج کے مقابلے میں اپنی آزادانہ رائے دینے سے خوف کھاتی رہی اور ہر قیمت پر فوج کو مطمئن کرنے اور اس کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اس مقصد کےلئے پہلے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو برطرف کیا گیا اور پھر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی۔ گزشتہ ماہ یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نے ایک حکم کے ذریعے اپنے ایک ساتھی طارق فاطمی کو برطرف کرنے کے علاوہ ایک سرکاری افسر کے خلاف محکمانہ کارروائی کا حکم دیا اور ڈان کے رپورٹر اور ایڈیٹر کے خلاف کارروائی کےلئے اے پی این ایس کو کارروائی کا مشورہ دیا۔ لیکن فوج کے ترجمان نے جس طریقے سے اس حکم کو مسترد کیا اور اس ٹویٹ میں جو لہجہ اختیار کیا گیا، اس سے بحرانوں کا سامنا کرنے والی حکومت اور قوم کی مشکلات دوچند ہوگئیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بالآخر یہ ٹویٹ واپس لینے اور ڈان لیکس کا معاملہ ختم کروانے میں کردار ادا کیا لیکن اس سے موجودہ آرمی چیف کی نیک نیتی اور غیر سیاسی رویہ تو واضح ہوتا ہے لیکن فوج اور حکومت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا پائیدار حل سامنے نہں آتا۔ یہ حل تلاش کئے بغیر وہ مقاصد کیوں کر حاصل کئے جا سکتے ہیں، جن کی طرف جنرل باجوہ نے کل تفصیل سے اپنی تقریر میں اشارہ کیا ہے۔
اس تنازعہ اور اختلاف کی بنیاد اس نکتہ پر ہے کہ پاک فوج نے قومی مفاد اور سلامتی کی حفاظت کرنے کے علاوہ اس کی وضاحت و صراحت کرنے کی ذمہ داری بھی خود ہی قبول کی ہوئی ہے۔ قومی سلامتی کی اصطلاح کو اس حد تک وسیع کر دیا گیا ہے کہ اس میں بھارت کے ساتھ تعلقات کے علاوہ افغانستان کے ساتھ معاملات ، افغان طالبان کے ساتھ روابط ، امریکہ کے ساتھ لین دین اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کنٹرول رکھنے اور اثر انداز ہونے کےلئے کئے جانے والے اقدامات بھی شامل ہیں۔ فوج ان میں سے ہر معاملہ پر اپنے ادارہ کی رائے کو حتمی سمجھتی ہے اور اس حوالے سے اس کی پروپیگنڈا مشینری نے ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ میڈیا اور عوام کی واضح اکثریت فوج کے کسی بھی موقف کی حمایت پر آمادہ و تیار ہوتی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے ادارے اور اس کے سربراہ کی امیج بلڈنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس حکمت عملی کے نتیجہ میں ملک کی منتخب حکومت نشانے پر ہوتی ہے۔ یعنی ملک میں جب فوج کے حق میں مظاہرے کئے جاتے ہیں یا بینر آویزاں کئے جاتے ہیں تو وہ بالواسطہ طور سے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہ ہیجان کسی ایک فرد یا ادارے کےلئے تو وقتی طور پر مفید ہو سکتا ہے لیکن ملک کے نوجوانوں میں ذہنی انتشار اور گمراہی پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ ملک کے نظام پر ان کا اعتماد کمزور پڑتا ہے اور تخریبی عناصر کو اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
قومی سلامتی سے متعلق اصولی طور پر ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو مباحثہ کے بعد واضح خدوخال تشکیل دینے چاہئیں۔ ان کی روشنی میں حکومت جو حکمت عملی تیار کرے فوج اور دیگر ادارے اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں۔ صرف یہی ایک ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کرنے سے ملک میں انتشار ، ہیجان ، سیاسی تناؤ اور معاشی و سماجی بے راہ روی کو ختم کرنے کےلئے پیش رفت ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر قومی سلامتی و مفاد کی مکمل ملکیت فوج کے پاس ہوگی، وہی اس کی وضاحت کرے گی، پالیسی بنائے گی، اس پر عمل کرنے کا منصوبہ تیار کرے گی اور حکومت کو ان خطوط پر چلنے کا اشارہ دے گی تو ادارہ جاتی تصادم کی کیفیت کم ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ منتخب ہونے والے لوگ خواہ کتنے ہی جاہل اور کمزور ہوں ، بہرحال عوام میں پائے جانے والے رجحان کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے والی حکومت خواہ کیسی ہی کمزور یا بدعنوان ہو، اس کے پاس بھی قومی مفاد کی تفہیم کے کچھ نظریات موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان تصورات پر بحث کرنے اور انہیں سامنے لانے کا موقع ہی نہیں ملے گا تو وہ معاشرہ کیسے تشکیل پا سکتا ہے، جو بقول جنرل قمر جاوید باجوہ کے ملک کے نوجوانوں میں انتہا پسندی ختم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
پاک فوج کے سربراہ کی باتیں بروقت اور درست ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کےلئے اسی وقت حکومت اور پارلیمنٹ سے کوئی توقع کی جا سکتی ہے جب فوج بطور ادارہ اپنا کردار متعین کرنے پر تیار ہو۔ اور خود کو حکومت کا رہنما اور سرپرست سمجھنے کی بجائے اس کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پالیسی سازی پارلیمنٹ میں ہوگی۔ حکومت عملی منصوبہ بندی کرے گی اور فوج دیگر قومی اداروں کی طرح اس پر عمل کرنے کی پابند ہوگی۔ دیگر اداروں کی طرح اگر فوج کی بھی اہم قومی معاملہ میں کوئی رائے ہے تو اسے آئی ایس پی آر کے ذریعے براہ راست میڈیا اور عوام تک پہنچانے کی بجائے وزارت دفاع یا دیگر سرکاری ذرائع سے حکومت کے گوش گزار کروانے کے اصول کو تہہ دل سے تسلیم کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali