میاں بیوی کے لطائف اور سماج کا دُہرا رخ


پھر آپ کہیں گے ہماری تو عادت ہے رونے دھونے کی۔ حالانکہ ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ خدا لگتی کہنے کی بیماری ہے۔ زمانے کا تو کام ہے باتیں بنانا اور وہ اپنا یہ فرض بڑی جانفشانی سے ادا کر رہا ہے۔ وہ کیا ہے کہ

ذرا سی بات ہے اندیشہ عجم نے اسے

بڑھا دیا ہے فقط زیب داستان کے لئے

جو ہے وہ ہے۔ جو نہیں ہے وہ نہیں ہے۔ آپ کو برا لگے یا بھلا۔ ہم تو بولیں گے۔ یہ بات صرف ہماری صنف نازک کی ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ جگہ جگہ ہماری اور آپ کی نظر سے گزارنے والی پوسٹس نے مجبور کر دیا ہے کہ اس مدعے پر بات اٹھائی جائے۔

ہمارا اشارہ مردوں کی طرف سے یا ان کی زبان میں کہے جانے والے ان لطائف کی طرف ہے جہاں شوہر کو مظلومیت کا پیکر بنا کر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کو انسان نہیں بلکہ اے ٹی ایم مشین سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ شوہر دن رات نوٹ اگانے کا درخت بنا رہتا ہے جس سے بیگم صاحبہ صبح شام نوٹ توڑتی ہیں۔ دن میں نوکروں پر حکم چلاتی ہیں۔ روز مہنگے ہوٹلوں میں کمیٹی پارٹیوں میں حرکت کرتی ہیں۔ لان کے جوڑوں کی نمائش پر جاتی بھی ہیں اور اپنی سہیلیوں میں پہن کر وہی نمائش خود بھی کرتی ہیں۔ جی میں آئے تو بچوں کا اسکول کا کام بھی دیکھ لیتی ہیں۔ لیکن یہ ٹیوشن والے ماسٹر صاحب آخر کس مرض کی دوا ہیں۔ شوہر نامدار کا پسینہ سوکھنے کو نہیں آتا اور خاتون خانہ کی عیاشیاں۔ بیچارہ تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ دو چار لقمے زہر مار کرتا ہے اور کروٹ بدل کر سو جاتا ہے۔ کہیں خوشی کہیں غم کے مصداق زندگی سمجھئے۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے ہمارے ہاں کچھ رشتےدار خواتین دبئی کی سیر کو آئیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو شاپنگ کا عالمی ریکارڈ غالباً رقم ہونے کو ہی تھا۔ لیکن کیا کیجئے کہ مقابلہ بہت سخت تھا۔ شوہر صاحبان کمانے کی فکر میں سرگرداں اور یہ اسی کمائی کو خرچ کرنے کی جستجو میں ہلکان۔ ہیرے کی انگوٹھیاں لیجئے یا وہ جوتیاں جنہیں بس طاق کی زینت ہی بننا تھا، سب ملے گا صاحب۔ ہماری تو ٹانگیں شل ہو جاتی تھیں لیکن ان کی ہمت رات کی طرح جوان ہی رہتی تھی۔

تو صاحب یوں کہئے کہ اس ملک کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی اپنے آپ کو انہی شغلوں میں مشغول رکھے ہوئے ہے۔ کسی تعمیری سرگرمی کا ذکر تو بھول ہی جائیے۔ شاید آپ کو سننے میں یہ لگے کہ ان خواتین نے کوئی خاص تعلیم تو حاصل کی نہیں لہٰذا یہی طور اور طریقہ ٹھہرا۔ لیکن معاف کیجئے گا یہی حال پڑھی لکھی ڈاکٹر اور انجنیئر لڑکیوں کا بھی ہے۔ شوہر کماتا ہے اور یہ آرام سے گھر بیٹھ کر نہ صرف  عیاشی کرتی ہیں بلکہ گلہ کرتی بھی نہیں تھکتیں۔ جا بجا یہ ذکر بھی آتا ہے کہ خوامخواہ ایک لڑکے کی سیٹ ہی ضائع کی۔ انہوں نے تو گھر ہی بیٹھنا ہے۔

صحیح کہا۔ کچھ غلط نہیں کہتے یہ لطائف اور حقائق۔ بالکل سچی تصویر کھینچی ہے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ تصویر کا ایک رخ تو کبھی ہوا بھی نہیں۔ دوسرے رخ کی جانب روشنی ڈالئے تو معلوم ہو گا کہ کہانی صرف سفید نہیں، سیاہ بھی ہے۔ کہیں کہیں سرمئی بھی۔

آخر وہ کیا اسباب ہیں جنوں نے اس ملک کے پچاس فیصد سے زائد روشن دماغوں کو زنگ لگا کر زیورات اور کپڑوں میں غرق کر دیا ہے؟ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر مرد پیسہ کمانے کی مشین بن چکے ہیں اور عورتیں وہی پیسہ اڑانے کا چرخہ؟ معلوم کرنا ضروری ہے، وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر۔

ذہانت یوں تو ایک نعمت ہے لیکن صرف اسی صورت میں اگر صحیح سمت میں استعمال کی جائے۔ ورنہ اس سے بڑھ کر ناسور اور زہر قاتل بھی کوئی نہیں۔ آج کل لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج عام ہو رہا ہے۔ لڑکوں کے شانہ بشانہ تعلیم دلائی جاتی ہے۔ لیکن بیٹی چاند پر بھی پہنچ جائے تو ماں باپ کا خواب پھر بھی ایک کھاتے پیتے شریف گھر کے ہونہار لڑکے سے بیاہ ہی ٹھہرتا ہے۔ زرق برق کپڑے اور سیروں زیور۔۔۔ کہانی ختم! یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ بی بی یہی تمہاری ذات کی تکمیل ہے۔ یہی واحد مقصد حیات ہے۔ گھر بیٹھنا، بچے پیدا کرنا اور شوہر کی کمائی پر عیاشی کرنا۔ جو کوئی اس صراطِ مستقیم سے آگے پیچھے ہونے کی کوشش کرے تو اس کا انجام بھی آپ کے سامنے ہی ہے۔

اچھی اور بری عورت کا ترازو خود ہی سنبھالیں۔ ہمارا تو یہی ماننا ہے کہ جب تک خواتین کو قومی اور معاشی دھارے میں شامل نہ کیا جائے مرد اے ٹی ایم مشین کے رتبے سے آگے نہ بڑھ پائیں گے اور نہ ہی خواتین کی زندگی میں کوئی تبدیلی آ پائے گا۔ بصیرت سے کام لیا جائے تو مردوں کا بھلا بھی عورتوں کی معاشی خودمختاری میں ہی ہے۔ دو رویہ سڑک ہے۔ دونوں اطراف استعمال ہوں تو ہی اچھا ہے۔ لطیفے بھی بدلنا ہوں گے اور ذہن بھی۔ اسی میں بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).