تبدیلی کا گجر بج چکا ہے


تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کا گجر بج چکا ہے۔ جمہوری تبدیلی آنے کو ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں آخری معرکے کے لئے بر سر پیکار ہیں۔ میدان جنگ سج چکا ہے۔ فریقین آمنے سامنے آچکے ہیں۔ پس پردہ لوگ بے نقاب ہو رہے ہیں۔ منفی قوتیں سامنے آ رہی ہیں۔ مثبت لوگ اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ خواب کی کیفیت اب ختم ہو رہی ہے۔ حقیقت واشگاف ہو رہی ہے۔ کرائے کے لوگ نئے مالک کی تلاش میں در بدر ہونے والے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے یہ پہلے نہیں ہوا۔ جو نہیں ہو رہا اس کی یاد بھی لوگوں کو رلارہی ہے۔ پنجرے میں مدتوں رہنے والوں کو قفس کی یاد ستا رہی ہے۔ بے گھری کے زخم لگا رہی ہے۔ گلے میں لٹکے طوق کے بوجھ سے جھکی گردنیں سر اٹھا رہی ہیں۔ ماتھے پر مسلسل پھٹکارکے نشان والے باوقار ہو رہے ہیں۔ حبس کی فضا میں سانس آ رہی ہے۔ لیکن سب کو یہ بات راس نہیں آ رہی۔ اچھنبے کی کیفیت میں رہنے والے تماشائی ششدر ہو رہے ہیں۔ آخریہ ہو کیا رہا ہے؟

کیا کیا نہیں ہوا ان گذشتہ چار برسوں میں؟ کون سی چال ہے جو نہیں چلی؟ کون سا مہرہ ہے جس نے شاہ کو مات دینے کی کوشش نہیں کی؟ کون سا نفرت کا نعرہ ہے جو ان چاربرسوں میں نہیں لگا؟ کون سی سازش ہے جس نے محلات کی دیواروں کو نہیں چاٹا؟ کون سا ذی شعور ہے جوذہنی تقسیم کا شکار نہیں ہوا؟ مختصر رواداد ان برسوں کی یہی ہے کہ دلفریب نعرے دلوں کو تقسیم کرتے رہے؟ خوش آواز لوگ نفرت کی ترغیب کرتے رہے؟ ہجوم تقلید کے طلسم میں گم ہوتا رہا۔ خواب بنتے رہے، بکھرتے رہے۔ امید بندھتی رہی، ٹوٹتی رہی۔ حوصلہ بڑھتا رہا، گھٹتا رہا۔

دھاندلی کے الزام سے بات شروع کریں تو وہ دور تاریک یاد آتا ہے جب ہر زبان اسی دھاندلی کی شکوہ کناں تھی۔ ہر فرد اسی کا ماتم کرتا تھا۔ ہر آنکھ اسی غم میں اشک بار تھی۔ سب کو لگتا تھا کہ دھوکہ ہوگیا ہے؟ ایک سوچ کو لوٹ لیا گیاہے؟ ایک عہد کو پامال کر دیا گیا؟ ایک نسل کے نئے نویلے اور اجلے خواب فروخت کر دیے گئے ہیں۔ دھاندلی کی دھند چھٹی تو واقعہ کچھ بھی نہ نکلا۔ تصدیق اور تفتیش نے سفلی خوابوں کی تعبیروں کو سر بازار بھسم کر دیا۔ لیکن ایک پوری قوم کو ایک نظریہ فروخت کر دیا گیا۔ جیتنے والے مطعون قرار دیے گئے، ہارنے والے فاتح بنا دیے گئے۔ سچ، جنون میں ڈوب گیا۔ حق بات دھند میں گم ہو گئی۔ ذہن پامال ہوگئے۔ سوچ تقسیم ہو گئی۔ ایک نسل اسی پھیر میں برباد ہو گئی۔ تب سے اس نسل نے سوچنا بند کر دیا۔ حقائق سے پردہ پوشی اختیار کرلی۔ فرار میں پناہ ڈھونڈ لی۔

ماضی قریب ہی کی بات دھاندلی سے نجات کے لئے دھرنا دیا گیا۔ ایک فارغ نسل کو پھر ایک کام سونپ دیا گیا۔ ریاست سے بغاوت کی سرعام دعوت دی گی۔ جلاو، گھیراؤ اور مٹاؤکا نعرہ مقبول کیا گیا۔ ہر فرد، ہرادارے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ہر شخص کو مجرم بتایا گیا۔ با اعتبار لوگوں کو بے اعتبار بنایا گیا۔ یقین کو متزلزل کیا گیا۔ گمان کو حقیقت بتایا گیا۔ نفرت کے شعار کی تلقین کی گئی۔ توڑ پھوڑ کی ترغیب دی گئی۔ ریاست کو چیلنج کیا گیا۔ اداروں پر قبضہ کیا گیا۔ ایک ہجوم کو نفرت پر مجبور کیا گیا۔ پھر دھند چھٹی۔ پھر سویرا ہوا۔ روشنی ہوئی تو سب ایک بھیانک خواب تھا۔ جس میں سچ کی شہزادی شہید ہو گئی تھی۔ خفیہ طاقتیں پھر بے نقاب ہو گئیں۔ پس پردہ ہاتھ سامنے نظر آنے لگا۔ یہ جیت بھی سچ کے نام ہوئی۔ لیکن اس سے نفرت کا کاروبار بند نہیں ہوا۔ کچھ دن نہیں گذرے تھے کہ نئی دوکان اور نئے ٹھیلے پر پرانا سامان فروخت کے لئے پیش کر دیا گیا۔

پاناماکا ڈھول ایسے پیٹا گیا جیسے مجرم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ جیسے چور کی داڑھی میں تنکا نظر آگیا ہے۔ جیسے ملزم مجرم ثابت ہو گیا۔ ایک پوری نسل اسی کام میں لگ گئی۔ نئے ٹھیلے پر پرانا سامان پھر بازار سے ارزاں نرخوں پر بکنے لگا۔ کسی نے نہیں سوچا کہ عدالتیں کیا کہتی ہیں؟ انصاف کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔ سچ کس چڑیا کا نام ہے؟ ایوان کی آواز کیا کہہ رہی ہے؟ خلق کیا صدا دے رہی ہے؟ کسی کو اس کا ہوش نہیں رہا؟ سب مجرموں کے پیچھے پڑ گئے۔ سب سزا کا تقاضا کرنے لگے۔ اسی میں انصاف کے ایوان سے آواز آئی سچ وہ نہیں جو سستے داموں بیچا جا رہا ہے۔ سچ وہ نہیں جو سکرینوں پر فروخت ہو رہا۔ انصاف کے تقاضے الزام کے سو ابھی کچھ ہیں۔ ترازو کے دونوں پلڑوں میں برابر وزن ہونا لازمی ہے۔ الزام کی حقیقت جاننے کے لئے تفتیش درکا رہے۔ یہ خبر ان خواب فروشوں پر بجلی بن کر گری۔ یہ پانسہ بھی ناکام گیا۔ اس چال کو بھی مات ہو گئی۔ لیکن اس سے نفرت کے منافع بخش کاروبار میں کوئی تنزل نہیں آیا۔ نیا قضیہ سامنے آگیا۔ لاک ڈاؤن کی کال دے دی گئی۔ شہر کی بندش کا دعوی کر دیا گیا۔ ہر ذی روح کو قید کرنے کا طبل بجا دیا گیا۔ ریاست سے بغاوت کو بہادری بنا دیا گیا۔ قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ صوبوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا۔ بھائیوں کو لڑا دیا گیا۔ اس منظر سے دھند چھٹی تو بات کچھ بھی نہ نکلی۔ جلاؤ گھیراؤکا دعوی کرنے والے اپنے گھروں میں بیٹھے ٹی وی پر خلق کی بے حرمتی کا تماشہ دیکھتے رہے۔
اسی دوران نفرت کی فروخت کرنے والوں کے ہاتھ ڈان لیکس کی چڑیا آگئی۔ اب تماشہ پورے جوبن پر آگیا۔ اداروں کا ٹکراؤ بہت مصالحے دار کہانی تھی۔ انا کی جنگ کو ہوا دینے والے بہت سے مداری منظر عام پر آگئے۔ آگ کو پٹرول سے بجھانا شروع کر دیا۔ عزت اور ناموس کے فیصلے کرنے والے سامنے آگئے۔ غدار اور محب وطن کے الزام لگانے والے آگئے۔ توہین کے فتوے لگانے والوں کو نیا شغل مل گیا۔ ریاست ایک بار پھر تاریخ کے خطرناک موڑ پر آگئی۔ جمہوریت پھر لرزہ بر اندام رہنے لگی۔ عوام کی نمائندگی کرنے والے پھر زیر عتاب رہنے لگے۔ ووٹوں کی تضحیک ہونے لگی۔ ایک دلخراش ٹوئیٹ بھی سامنے آگیا۔ لیکن جب ٹوئیٹ کو واپس لیا گیا۔ عوامی نمائندوں کی اتھارٹی مان لی گئی تو میڈیائی بندروں کے ہاتھ سے یہ ٹوپی بھی چھن گئی۔ کھیل تماشے کا لطف جاتا رہا۔ تضحیک کا کا روبار مندا رہنے لگا۔

کلبھوشن کا کیس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ معاملہ بین لاقوامی عدالت میں گیا تو پاکستان نے بھرپور کیس لڑا۔ اپنے موقف کا زبردست دفاع کیا۔ اپنی سرحدوں کی حفاظت کا نعرہ لگایا۔ اب جو بھارت عالمی عدالت انصاف میں پیش قدم ہو رہا ہے تو اس کا ملبہ بھی عوامی حکومت پر ڈال دیا گیا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب لوگوں کو پھر غدار قرار دے دیا گیا۔ جنرل قمر باجوہ کے ایک خطاب نے پھر نفرت کے کاروبار کو شکست دی۔

جمہوریت اس ملک میں تازیانہ بن گئی تھی۔ الزام ہو گئی تھی۔ عوام کے نمائندے صرف مجرم قرار دینے کے لئے رہ گئے تھے۔ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ ہمارے ادارے جمہوریت کے فروغ کی ترغیب دے رہے ہیں۔ عوام کے حق کی بات کر رہے ہیں۔ اب وقت دور نہیں ہے ان گذشتہ چار برسوں کاحساب کیا جائے۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والے پس پردہ ہاتھوں کوسرعام لایا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا کے چھاتہ بردار تو سامنے ہیں سوشل میڈیا کے جہادیوں کا بھی احتساب کیا جائے۔ اس ملک کی جڑوں میں پلنے والے ناسور کا قلع قمع کیا جائے اور یقین مانیے اس کا اب وقت آ چکا ہے کیونکہ تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کا گجر بج چکا ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں آخری مرحلے کے لئے بر سر پیکار ہیں۔

یادرکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ تاخیر چاہے کتنی بھی کیوں نہ ہو جائے سچ اور جھوٹ کی جنگ میں فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، شدتوں میں دھنسے لوگ بہرحال سر اٹھاتے ہیں، باوقار کہلاتے ہیں۔ اپنا مرتبہ، اپنا منصب پاتے ہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar