مشہور بھارتی جج کہتے ہیں کہ انڈیا نے بھیانک غلطی کر دی ہے


جسٹس مارکانڈے کاٹجو بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں۔ اس سے پہلے وہ دہلی ہائی کورٹ، مدراس ہائی کورٹ اور الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیئرمین بھی ہیں۔

کلبوشن جادھو کے عالمی عدالت انصاف پر کل 19 مئی 2017 کو ان کا ایک دلچسپ موقف سامنے آیا ہے۔ ان کا بیان کچھ یوں ہے:

”عالمی عدالت انصاف میں جانا انڈیا کی بھیانک غلطی ہے۔

لوگ کلبھوشن کے معاملے میں انڈیا کی عالمی عدالت انصاف میں فتح پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ میری اپنی رائے میں اس ایشو پر عالمی عدالت میں جانا انڈیا کی ایک بھیانک غلطی ہے کیونکہ ہم پاکستان کی چال میں پھنس چکے ہیں اور انڈیا نے پاکستان کو بہت سے دوسرے معاملات کھولنے کا اختیار دے دیا ہے۔ یہ حققیت ہے کہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر اسی وجہ سے کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں کیا ہے۔

اب یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کشمیر کا معاملہ طے کرنے کے لئے اب عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے گا اور پھر ہم عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر بات کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے کیونکہ ہم ایک ساتھ ٹھنڈا گرم نہیں پھونک سکتے ہیں۔

پاکستان یقینی طور پر اس بات پر خوشی سے نہال ہو گا کہ ہم نے محض ایک فرد کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کیونکہ اب پاکستان ہر طرح کے وہ معاملات بین الاقوامی فورموں پر اٹھا سکتا ہے جن پر ہم ہمیشہ اعتراض کرتے رہے ہیں۔ ان معاملات میں کشمیر سر فہرست ہو گا۔ عالمی عدالت انصاف میں جا کر ہم نے پنڈورا کا صندوق کھول دیا ہے“۔

جسٹس کاٹجو کا یہ موقف دلچسپ ہے۔ لیکن ہم ایک اور پہلو پر بھی غور کرتے ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کلبھوشن کو پھانسی دینا چاہتا تھا مگر ہندوستان نے اسے ناکام بنا دیا، وہ یہ سوچ لیں کہ پاکستان نے کلبھوش کو پھانسی کے تختے پر چڑھانا ہوتا تو اب تک اسے ٹانگ چکا ہوتا اور انٹرنیشنل کورٹ کی نوبت ہی نہ آنے دیتا۔ پاکستان نے مارچ دو ہزار سولہ میں کلبھوشن جادھو کی گرفتاری کی خبر جاری کی۔ اس سے دو چار ماہ قبل سے ہی وہ حراست میں ہو گا اور ساری معلومات اگلوانے کے بعد ہی اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہو گی۔ کیا اس ڈیڑھ برس میں اس کا تیزی سے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کر کے اسے پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی؟ یہ صرف پاکستان کی طرف سے کلبھوشن کے معاملے میں عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کا معاملہ نہیں ہے، پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے کہ بھارت کو عالمی عدالت انصاف میں جانے کا موقع کیوں فراہم کیا گیا؟ بادی النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی ریاست دایاں دکھا کر بایاں رسید کرنے کی خواہاں ہے اور جسٹس کاٹجو کی رائے میں وزن ہے۔

یہ معاملہ کیوں اچھالا گیا ہے؟ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر منطبق کرنے کے علاوہ بھی ایک پہلو ہے۔

کیا آپ نے یہ بات سوچی ہے کہ اب تک بھارتی جاسوسوں کے کتنے کیس پاکستان میں سامنے آ چکے ہیں اور کتنوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا ہے؟ فہرست پر نظر ڈالیں۔ سربجیت سنگھ، کشمیر سنگھ، رویندر کوشک، رام راج، سرجیت سنگھ، گربخش رام، اور ونود سانھی کے معاملات ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سے سربجیت سنگھ اور رویندر کوشک کی موت پاکستان میں ہوئی۔ سربجیت سنگھ پر پاکستانی قیدیوں نے 2013 میں حملہ کیا تھا جس میں وہ ہلاک ہو گئے۔ لیکن رویندر کوشک کا کیس سب سے دلچسپ ہے۔

رویندر کوشک پچیس برس تک پاکستان میں رہے۔ وہ جاسوس بننے سے پہلے ایک تھیٹر آرٹسٹ تھے۔ انہیں اردو زبان اور اسلام کی خصوصی تعلیم کے بعد پاکستان بھیجا گیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھتے رہے اور پاکستانی فوج میں کمیشن پا کر میجر کے عہدے تک پہنچے۔ وہ پاکستان کی دفاعی معلومات بھارت تک پہنچاتے رہے۔ ایک بھارتی جاسوس نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو رویندر کوشک بھی پکڑے گئے۔ رویندر کوشک کی موت 2001 میں سینٹرل جیل ملتان میں ٹی بی اور دل کی بیماری سے ہوئی۔ ان کو پھانسی نہیں دی گئی حالانکہ وہ فوج میں افسر تھے اور سمری کورٹ مارشل کے بعد سیدھا ان کو تختہ دار پر پہنچایا جا سکتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان یا بھارت ایک دوسرے کے جاسوسوں کو تختہ دار پر کیوں نہیں چڑھاتے ہیں؟

جاسوس ایک برائلر چکن کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کو پالا جاتا ہے۔ ان کا وزن بڑھایا جاتا ہے۔ مناسب وقت پر ان کا سودا کر دیا جاتا ہے۔ یہ مناسب وقت ایک سال بعد بھی آ سکتا ہے اور بیس سال بعد بھی یا کبھی بھی نہیں آ سکتا۔ ریٹ اچھا نہیں ملتا تو مال اپنے پاس ہی رکھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور امریکہ کے گرفتار شدہ جاسوسوں کے معاملے کا مطالعہ دلچسپ راہنمائی فراہم کرتا ہے۔

پکڑے گئے دیگر بھارتی جاسوسوں کی طرح ہی کلبھوشن کو مارنے میں بھی پاکستانی ریاست کو ہرگز بھی کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ اس سے مفادات حاصل کیے جائیں گے۔ وہ مفادات دونوں ملکوں کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار تسلیم کیے جانے کے بعد کشمیر، سیاچین، سرکریک اور دوسرے معاملات کو وہاں لے جانا بھی ہو سکتا ہے اور ایک ضمنی سا معاملہ نیپال سے اغوا کیے گئے ایک پاکستانی کرنل صاحب کا بھی ہو سکتا ہے۔


کلبھوشن سے پہلے کتنے بھارتی جاسوس

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar