عورت کی حفاظت بھی خلاف اسلام؟


\"pakistani-women\"پنجاب اسمبلی نے عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ کے لئے ایک بل منظور کیا ہے جو ملک میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور زیادتی کے تناظر میں ایک اہم اور ضروری اقدام ہے۔ لیکن اس سادہ قانون کو بنیاد بنا کر ملک کے مذہبی حلقوں نے ایک بار پھر ’اسلام خطرے میں ہے‘ کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کے ایک بڑے صوبے میں بننے والے ایک ضروری قانون کے بعد دیگر صوبوں میں بھی اسی قسم کی تحریک سامنے لائی جاتی تا کہ ملک بھر میں خواتین کے خلاف جبر اور تشدد کا سلسلہ روکا جا سکے۔ مذہب چونکہ تہذیب اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا درس دیتا ہے اس لئے مذہبی طبقوں سے بجا طور سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ یہ قانون بننے کے بعد اسے نافذ کرنے اور اس کے تحت جن سہولتوں کا وعدہ کیا ہے، انہیں فراہم کرنے کے لئے حکومت پر دباﺅ ڈالنے والے محرکین میں شامل ہوں گے۔ لیکن حد درجہ بدنصیبی کی بات ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں نے عقل و بصیرت سے کام لینے اور ناانصافی کے خلاف متحرک قوتوں کا ساتھ دینے سے گریز کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔

پاکستان کا شمار ان بدنصیب ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین کو گھریلو تشدد سے لے کر تیزاب سے چہرے جھلسانے ، خاندانی وقار اور غیرت کے نام پر قتل کرنے ، جبری جنسی تشدد اور ہوس کا نشانہ بنانے کے واقعات روز افزوں ہیں اور ان کی روک تھام کے لئے حکومتیں اور سماجی ادارے عام طور سے خاموش رہتے ہیں۔ اس وقت ملک میں روزانہ 6 عورتیں اغوا ، 4 جنسی زیادتی کا شکار، 6 قتل اور تین خود کشی پر مجبور ہوتی ہیں۔ پنجاب اگرچہ ملک کا بڑا صوبہ ہے لیکن اس میں خواتین کے خلاف تشدد اور جرائم کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں عورتوں کے ساتھ تشدد کے 7010 واقعات رجسٹر ہوئے جبکہ 1408 خواتین کو جنسی ہوس اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی ان جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین موجود ہیں لیکن ملک میں قانون پر عمل کرنے کا راستہ اور پولیس کا نظام پیچیدہ ، مشکل اور خطرات سے پر ہے۔ اس لئے زیادتی اور تشدد کا شکار بننے والی کوئی خاتون ایف آئی آر تک درج کروانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ بری سماجی روایات کے تحت ظلم کا شکار ہونے والی عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر وہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو اسے آبرو باختہ کا خطاب دینے میں دیر نہیں کی جاتی۔ اس صورتحال میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عورتوں کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے حوالے سے نجی اداروں اور تنظیموں نے جو اعداد و شمار جمع کئے ہیں وہ محض اس مسئلہ کی شدت کا احساس ہی دلوا سکتے ہیں۔ ان سے اصل صورتحال کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس پس منظر میں بدھ کو پنجاب اسمبلی نے جو بل منظور کیا ہے، وہ کسی حد تک ایک انقلابی اور مستحسن اقدام ہے۔ اس کے تحت خواتین کے تحفظ کا نظام استوار کرنے اور یہ بات یقینی بنانے کا عہد کیا گیا ہے کہ اگر کسی خاتون کو گھر ، کام کی جگہ یا کسی دوسری صورت میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی داد رسی ہو سکے۔ اسے قانونی مدد مل سکے اور اس کی رہائش کا اہتمام بھی ہو سکے۔ اس قانون کے تحت ضرورت پڑنے پر زیادتی کرنے والے مرد کو مظلوم عورت کی مالی اعانت کا پابند کرنے اور اس سے دور رہنے کا حکم بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت صوبے بھر میں عورتوں کے تحفظ کے مراکز قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ مراکز 24 گھنٹے کھلے رہیں گے اور ان کی نگرانی ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن کمیٹی کرے گی۔ یہ کمیٹی ان مراکز کے علاوہ شیلٹر ہومز بھی قائم کرے گی جہاں تشدد اور زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو محفوظ پناہ گاہ میسر آ سکے گی۔ تشدد کے خلاف مرکز کا بنیادی مقصد یہ ہو گا کہ وہ شکایت ملنے کی صورت میں متعلقہ گھر یا خاندان میں مصالحت کروانے ، عورت کو قانونی امداد فراہم کرنے ، تشدد یا غیر قانونی حرکت کی صورت میں مقدمہ درج کروانے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ عورت کی مالی ، سماجی اور دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی اقدام کرے گا۔ اس کے ساتھ فیملی کورٹس کو پابند کیا جائے گا کہ وہ تشدد کے معاملہ میں ایک ہفتہ کے اندر معاملہ کی سماعت کا آغاز کریں اور 90 روز کے اندر فیصلہ سنا دیا جائے تا کہ جلد انصاف ملنے کی صورت پیدا ہو اور عورتوں کو غیر معینہ مدت تک خوف اور غیر یقینی کی صورتحال میں نہ رہنا پڑے۔ یہ قانون عدالت کو ایسے مرد کو متاثرہ عورت سے دور رہنے کا حکم دینے کا اختیار بھی دیتا ہے جو کسی خاتون کے لئے خطرہ کا سبب ہو یا اس کے ساتھ زیادتی کرتا رہا ہو۔ بعض انتہائی صورتوں میں تشدد کرنے والے مرد کو الیکٹرانک ٹریکر لگانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

\"in-rajanpur\"یہ ساری باتیں سہانی سنائی دیتی ہیں لیکن ان پر مکمل طور سے عملدرآمد کرنے اور ملک کی مظلوم اور پسماندہ خواتین کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ اب صوبے کا قانون ان کی مدد کر سکتا ہے، کثیر وسائل اور سخت محنت کی ضرورت ہو گی۔ اس قانون کے سامنے آنے کے بعد ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ملک میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ دیگر طبقے بھی حکومت پنجاب پر یہ زور ڈالنا شروع کرتے کہ یہ باتیں ایک بے کار دستاویز کا حصہ ہی بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے جلد از جلد وسائل فراہم کئے جائیں تا کہ فوری طور پر اس نئے قانون پر عملدرآمد شروع ہو سکے۔ خاص طور سے ملک کے مذہبی اداروں، گروہوں ، تنظیموں اور علما کو اس خوش آئند قانون کا خیر مقدم کرنا چاہئے تھا۔ لیکن اس کے برعکس کسی تحقیق اور عورتوں کی مظلومیت اور کمزور سماجی حیثیت کا احساس کئے بغیر فوری طور پر نئے قانون کو اسلام سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔

حسب روایت ہمارے ملک میں دین کے ٹھیکیدار کوئی دعویٰ کرتے ہوئے دلیل لانے اور جواز فراہم کرنے کے پابند نہیں ہوتے بلکہ اسلام خطرے میں ہے اور اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے یا یہ کہ ایسے قانون ہماری سماجی روایات کے خلاف ہیں …. جیسے نعرے بلند کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرنے اور کسی نیک کام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ حیرت ہے ہمارے دینی رہنماﺅں اور تنظیموں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اس قسم کے نعرے بلند کرتے ہوئے وہ اپنی جہالت اور تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی اخلاقی حیثیت متاثر ہوتی ہے اور سادہ لوح مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر ہمارا عقیدہ معاشرے کے کمزور طبقے کی حفاظت کے اصول کو بھی تسلیم نہیں کرتا تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! اس طرح سماج میں بداعتمادی ، دین سے دوری اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کے بارے میں شبہات پیدا ہونا لازم ہے۔ حیرت ہے ہمارے علمائے دین ان سنگین عواقب پر غور کئے بغیر بری سماجی روایات کو عین اسلام قرار دینے اور دین کے ارفع اور اعلیٰ اصولوں کو نظر انداز کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان کا سماج کسی لحاظ سے بھی آئیڈیل اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ اس میں پائے جانے والے رویے ، تعصبات اور سماجی طریقے لاعلمی اور جہالت کا شاخسانہ ہیں۔ لیکن ہمارے دینی طبقے ان کی حفاظت کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تا کہ وہ اپنا سماجی مرتبہ اور اخلاقی حیثیت برقرار رکھ سکیں۔

ایسے سارے علما کو یہ خبر ہونی چاہئے کہ اس قسم کے فتوے جاری کرتے ہوئے وہ اپنا مقام و مرتبہ بلند کرنے کی جو کوششیں کرتے ہیں، وہ دراصل خود ان کے بارے میں عام لوگوں کی رائے کو تبدیل کر رہی ہیں۔ یہ بات عام طور سے نوٹ کی جا سکتی ہے کہ دینی علما خود کو تو کسی اعلیٰ اخلاقی سنگھاسن پر براجمان سمجھتے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر میں پیرو کاروں کو بدکار، گناہ گار اور گمراہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے تئیں عام مسلمان کو احساس کمتری کا شکار کر کے بدستور اپنے روحانی و دینی مرتبے کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ہتھکنڈہ اب یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ جدید علوم سے آراستہ نئی نسلیں مذہبی رہنماﺅں کی ان حرکتوں سے عاجز اور بدظن ہو رہی ہیں۔ لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ مولوی اپنے کردار سے خود اپنے بارے میں ہی شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتا بلکہ وہ اس عقیدہ کے بارے میں بھی بدگمانیوں کو جنم دے رہا ہے جس کی دکان سجا کر وہ اپنی روٹی روزی پیدا کرتے ہیں۔

اسلام اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی شہادت کا نام ہے۔ اس کے بعد سارے معاملات بنیادی رہنما اصولوں اور قابل فہم اخلاقی اقدار کے مطابق طے ہونے چاہئیں۔ اگر ہمارے دیندار طبقے عورت کے تحفظ کے اصول کو بھی غیر اسلامی یا اسلامی اقدار کے خلاف قرار دینے کی کوششیں جاری رکھیں گے تو اس جدوجہد میں وہ خود ہی روسیاہ ہوں گے اور عزت و وقار کی اس مسند سے محروم ہو سکتے ہیں جو صدیوں کی جہالت اور غلط عقائد کی وجہ سے ان لوگوں نے حاصل کر رکھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments