نیک محمد، گپی، میدا اور چاچا عزادار


میں بچپن میں چیز کھانے کی ضد کرتا تھا۔ چاچا مجھے نیک محمد کی دکان پر لے جاتے تھے۔ چیز کا کیا مطلب تھا، یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ چیز کوئی بھی چیز ہوسکتی تھی۔ چوسنے والی گولی، چبانے والی ٹافی، غبارہ پھلانے والی چیونگ گم، بڑوں کے پائپ کی طرح منہ سے چپکا رہنے والا لولی پوپ۔ اس وقت تک بچوں کے لیے میٹھی چھالیہ کے نام سے زہر بکنا شروع نہیں ہوا تھا۔

خانیوال میں نیک محمد کی دکان بلاک گیارہ میں اہلحدیث کی مسجد کے ساتھ مین روڈ پر تھی۔ یہ میں ستر کی دہائی کا ذکر کررہا ہوں۔ اس کے برابر والی گلی میں اہل تشیع کی مسجد اور مرکزی امام بارگاہ ہے۔ وہ میرے دادا سید ظفر حسن زیدی نے قائم کیا تھا۔ ان کی قبر آج بھی اسی احاطے میں موجود ہے۔ اسی گلی کے اختتام پر مرکزی جامع مسجد ہے۔ اس چوراہے کا نام چوک جامع مسجد ہے لیکن سب اسے گپی والا چوک کہتے ہیں۔

اگر میں نے گپی والے چوک کا ذکر چھیڑا تو وہاں گھنٹوں بیٹھ کر اسے آباد کرنے والے اپنے بابا کا تذکرہ کرنا پڑے گا اور میں کچھ اور لکھنے کے قابل نہیں رہوں گا۔ گزشتہ سال بابا کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد سے کئی بار ان کا خاکہ لکھنے کی کوشش کرچکا ہوں۔ لکھتے لکھتے عجیب حال ہوجاتا ہے۔ بابا کہتے تھے، ’’بیٹے، تم ہمارا نام روشن کرو گے۔ ‘‘ بابا کا نام روشن کرنے والا خاکہ لکھتا ہوں تو وہ کسی اور شخص کی تصویر بن جاتی ہے۔ بابا کی تصویر بناتا ہوں تو وہ چھپوانے کے قابل نہیں رہتی۔

خیر ہم نیک لوگوں کا تذکرہ کسی اور دن کریں گے، فی الحال نیک محمد یاد آرہا ہے جو اپنی بڑے دروازوں والی دکان کی چوکی پر پھسکڑا مار کے بیٹھا رہتا تھا۔ تن پر سفید قمیص اور ساتھ چیک کی لنگی پہنی ہوتی تھی۔ بال مہندی سے رنگے رہتے تھے۔ داڑھی کا خط بنا ہوتا تھا۔ مجھے اس سے براہ راست بات کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ وہ ڈپٹ کر بات کرتا تھا۔ اس کی آواز ہی ایسی تھی۔ میں ڈر کے مارے چاچا کی گود میں منہ چھپا لیتا تھا۔

چاچا عزادار گھر میں سب سے چھوٹے تھے۔ اسکول میں داخل کرائے گئے لیکن پڑھ نہیں سکے۔ انھیں ذہنی پسماندہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن دماغ کمزور تھا اور وہ کسی حد تک ضدی بھی تھے۔ سب کی صورتیں اور نام یاد رکھتے تھے۔ گھر کے اور باہر کے کام کردیتے تھے۔ بچوں کے دوست تھے اور خاندان بھر کے بچے سنبھالتے تھے۔

میرے تایا شاعری کرتے تھے اور ان کا تخلص طاہر امروہوی تھا۔ چھوٹے تایا شاعری تو نہیں کرتے تھے لیکن بھائی کی دیکھا دیکھی انھوں نے اپنا تخلص اطہر امروہوی رکھ لیا۔ بابا نے اپنا تخلص مضطر امروہوی رکھا۔ چاچا چونکہ ضدی تھے اور کسی کی بات نہیں مانتے تھے، اس لیے بابا نے ازخود ان کا تخلص پتھر امروہوی رکھ دیا۔

ہم سب کراچی منتقل ہوئے تو چاچا ساتھ آئے اور تایا کے گھر میں رہنے لگے۔ شادی نہیں ہوئی تھی اس لیے دادی اماں اور پھپھی کے انتقال کے بعد تنہا رہ گئے اور ایک دن چپکے سے مر گئے۔ وہ بچے، جنھیں وہ گود میں لے کر سیر کراتے تھے، اب انھیں یاد بھی نہیں کرتے۔

میں خانیوال کو یاد کررہا تھا۔ چاچا نیک محمد کی دکان سے چیز دلاتے تھے۔ میں تھوڑا بڑا ہوا اور جیب خرچ ملنے لگا تو میدے کی دکان پر جانے لگا۔ یہ دکان بلاک 14 میں ہمارے گھر کے قریب تھی۔ میدا یعنی حمید اگڑم بگڑم سا دکان دار تھا۔ اس کی دکان پھوہڑ عورتوں کے گھر کی طرح بکھری رہتی تھی۔ ایک کے اوپر دوسری بوری، ایک ڈبے پر دوسرا ڈبا۔ میں نے مسور کی دال مانگی۔ وہ بوری ڈھونڈتا پھرا۔ دال کی بوری ملی تو اسے اٹھا کر ٹوٹا چاول کی بوری پر رکھ دیا۔ اتنے میں کسی نے چاول مانگ لیے۔ اب وہ سر کھجا کھجا کے چاول کی بوری ڈھونڈ رہا ہے۔

گھر کے قریب ایک اور دکان فیکے یعنی رفیق کی تھی۔ اس میں ہر چیز سلیقے سے ریکس میں لگی ہوتی تھی۔ اناج کی بوریاں ایک قطار میں دھری رہتی تھیں۔ لیکن مجھے میدے ہی کی دکان پر جانا پسند تھا۔ وہ ہر شے کی خریداری پر گڑ یا مرونڈے کا جھونگا دیتا تھا۔ کراچی میں مرونڈا کہیں کہیں اور کبھی کبھی نظر آتا ہے۔ عام طور پر مونگ پھلی کو پگھلے ہوئے گڑ یا شیرے میں جمادیا جاتا ہے۔ خانیوال میں چاول کی پُھلیوں اور چنے کی دال کا مرونڈا ملتا تھا۔ مجھے چنے کا مرونڈا پسند تھا۔

ایک اور حمید بھائی ہمارے ساتھ والے گھر میں رہتے تھے۔ ان کے والد کی لکڑیوں کی ٹال تھی۔ شہر میں جب سوئی گیس آگئی اور لکڑیاں بکنا بند ہوگئیں تو ٹال ختم ہوگئی۔ حمید بھائی لڑکپن میں پیسے کمانے کے لیے کسی رشتے دار کے پاس کراچی چلے گئے۔ لیکن نوکری نہیں ملی یا کام پسند نہیں آیا یا گھر والوں کی یاد آئی، بہرحال وہ جلد واپس آگئے۔ وہ گھر کے باہر تخت رکھ کے برف اور گنڈیریاں بیچنے لگے۔ میں جب گھر سے نکلتا، انھیں گنے چھیلتے ہوئے پاتا۔ وہ چار آنے کی چار رس بھری گنڈیریاں دیتے تھے۔

ایک اور دکان یاد ہے جو ڈاکٹر امین کے اسپتال کے سامنے تھی۔ اس پر پان ملتے تھے۔ امی کہتی تھیں، ایک چھٹانک پان لے آؤ۔ میں دکان پر جاتا، اس سے پان مانگتا۔ وہ پوچھتا، سانچی یا بنگلہ؟ میں گڑبڑا جاتا۔ پھر یاد آتا کہ امی نے کیا فرق بتایا تھا۔ بنگلہ تھوڑا کڑوا ہوتا تھا۔

ایک مزے کی بات یاد آئی۔ کئی مہینے پہلے اسلام آباد گیا تو سر عثمان اور احمد حسین مجھے مونال لے گئے۔ مزے کا کھانا کھلایا۔ چائے پی۔ واپسی کے لیے اٹھے تو دیکھا کہ پان والا کھڑا ہے۔ احمد حسین نے کہا، ’’بھیا! پان کھلاؤ گے؟ ‘‘ نوجوان نے پوچھا، ’’کیسا پان پسند فرماتے ہیں؟ ‘‘ سر عثمان نے کہا، ’’ظہور راجا جانی۔ ‘‘ احمد حسین نے کہا، ’’سونف خوشبو۔ ‘‘ میں نے کہا، ’’سلیمانی۔ ‘‘ پان والے نے شرما کے بتایا، ’’یہاں صرف میٹھا پان ملتا ہے۔ ‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا، ’’پھر پوچھا کیوں تھا؟ ‘‘ اس بے چارے نے مسمسی صورت بناکر کہا، ’’میں نے پوچھا تھا کہ کیسا پان پسند فرماتے ہیں۔ یہ کب کہا تھا کہ میں بناکر دوں گا۔ ‘‘

ہم 1985 میں خانیوال چھوڑ کے کراچی منتقل ہوگئے۔ میں چھٹی پاس کرچکا تھا۔ مجھے کراچی پسند نہ آیا۔ لیکن واپسی کے دروازے بند تھے۔ بابا کا ٹرانسفر ہوچکا تھا۔ ہم بھائی بہنوں کا اسکول میں داخلہ ہوگیا۔ دن کراچی میں گذرتے تھے لیکن رات خانیوال میں بسر ہوتی تھی۔ بتیس سال ہوگئے، سوتے میں میرا ہر خواب خانیوال سے شروع ہوتا ہے۔

میں 1993 میں پلٹ کر پہلی بار خانیوال گیا۔ قریبی دوستوں کے سوا کسی کو میری صورت یاد نہیں تھی۔ میں اپنے پرانے گھر کو دیکھنے گیا۔ دیکھا کہ ساتھ والے گھر کے باہر تخت پر ایک آدمی بیٹھا گنے چھیل رہا ہے، گنڈیریاں کاٹ رہا ہے۔ 1998 میں دوبارہ گیا۔ بہت بے چین، بے قرار تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے سیدھا پرانے گھر پہنچا۔ دیکھا کہ چھوٹی سی دکان میں موٹا سا میدا کسی گاہک کے مطالبے پر پریشانی سے سر کھجا رہا ہے۔ 2009 میں پھر خانیوال گیا۔ امام بارگاہ کے احاطے میں دادا کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ باہر نکل کر اہلحدیث کی مسجد کا ایک چکر لگایا۔ ایک شخص بڑے دروازوں والی دکان کی چوکی پر پھسکڑا مار کے بیٹھا ہوا تھا۔ تن پر سفید قمیص اور ساتھ چیک کی لنگی پہنی ہوتی تھی۔ بال مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ داڑھی کا خط بنا ہوا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’کیا آپ کا نام نیک محمد ہے؟ ‘‘ اس نے ڈپٹ کر جواب دیا، ’’جی ہاں۔ ‘‘ میں ڈر گیا۔ مجھے چاچا بہت یاد آئے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi