بلوچ اور سندھ: سماج اور سامراج کے دوراہے پر


‘‘ تمہارے فراق کے غم کو میں سندھ کے صحرائوں کی وسعتوں میں کھودینا چاہتا ہوں’’

“تمہاری خمار آلود آنکھوں نےمجھے دور دیشوں میں دربدر کیا،

کرگسوں کی اڑان کی طرح میں سندھ سے بھی پار چلا گیا”

، “میں درویش کے ساتھ سو بار سندھ کا سفر کرونگا’’

جھالاوان اور کوہلو کے بلوچ سنگلاخ پہاڑوں کی بدمست ہوائوں کی بازگشت میں گونجنے والی آوازوں کی صدا میں بار بار ‘‘ سندھ’’ کا نام دھرایا جاتا ہے، ‘‘سندھ’’ جوکبھی بلوچ عاشق کے سینے میں تڑپنے والے عشق کی بے قراری کے لئے قرار کا سبب بنا، اس “سندھ ” کو مری قبیلے کے مجذوب، مست توکلی کی عشق انگیز شاعری نے بےقرار عاشقوں کے لئیے محفوظ پناہ گاہ بنایا تھا۔اسی بےقرار عشق نے مست توکلی کو ایک نہیں کئی بار سیوھن کے لال؛ مست قلندر کےآستانے پر سر ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔

آج اس بلوچ شناخت کی بیقرار روح کے سندھ کے ساتھ عاشقی والے رشتے کو کسی نادان ‘‘بندوق باز’’ نے یوں نشانہ بنایا ہے کہ اس سے ٹپکنے والے خون کے قطرے بلوچستان کے مکران بیلٹ سے گزرتے پا پیادہ سسی کے پورے پہاڑی راستے کو لال کردیا ہے، جس پہ وہ لہو لہان قدموں سے بلوچ عاشق پنوں کی تلاش میں نکلی تھی۔ اس کے پنوؤں کے والے عشق نے شاہ بھٹائی کی شاعری کو مالامال کرکے دیس کو گل گلزار بنا دیا۔

وہ سورج تو کب کے بلوچستان کے پہاڑوں میں ڈوب چکے، جب بلوچ قوم پرستی کی سیاست مست توکلی کی عشق میں گندھی ہوئی تھی یہ اس قوم پرستی کا عاشقانہ خمار تھا کہ میر محمد علی ٹالپر جیسے جوان سندھ کو آخری بوسہ دے کر ان کے جنگ میں شریک ہوتے تھے۔ کئی نوجوان سرخے پنجاب کےپانیوں کو خدا حافظ کہتے پہاڑوں کا رخ کرتے اور یہ بھی عجب نہ تھا کہ روشنیوں کے شھر کراچی کی چکاچوند زندگی کو خیرآباد کہتے کیسے نوجوان مارکس کی خشک کتاب سرہانے لپیٹ کر بندوق کاندھے پر لٹکا کر بلوچستان کے پہاڑ بساتے تھے۔

ان جنگجوئوں کی خبریں کوئی اب بھی ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے مسیحا یا پھر ڈاکٹر ہارون سے پوچھے تو کئی پرانے درد ہرے ہو جاتے ہیں کہ رات کی تاریکیوں میں کیسے وہ زخمی جوان اس وقت اسپتال پہنچتے تھے اور یہ مسیحا ان کے زخموں کو سینے کے لئے آدھی راتوں کو چھاپہ مارنے والوں کی طرح وہاں حاضر ہوتے تھے۔

ھاں! بلوچ قوم پرستی کی اس باب کو ختم ہوئے کئی سورج ڈوب چکے۔۔۔ اور سرد جنگ کے بعد والے ایک بلاک دنیا میں وہ جنگ ناممکن ہوکر سرد پڑ گئی تو وہ قصے خواب کہانیوں کی طرح ماضی کی داستان ہوکر رہ گئے، جن کو یاد کرکے کئی بوڑھے روح سرد راتوں میں ہاتھ گرم کرکے ایک ناسٹیلجک رومانس میں اپنے آپ کو تو گرم رکھ سکتے ہیں لیکن بندوق کی نالی سے انقلاب یا آزادیوں کے خواب دیکھنے کی موجودہ سیاسی، سماجی اور عالمی منظرنامے میں کوئی گنجائش نہیں ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ بلوچستان کے حقوق کی موجودہ جنگ کو عالمی اخلاقی و سیاسی ھم درد۔ ڈھونڈنے کی ضرورت تھی۔ اس کے برعکس یہ ہوا کہ ریاستی استحصال کی بدترین صورت میں یہ بلوچ قوم پرستی نئے ابھارمیں ایک قطبی دنیا کے وار لارڈس سے ہاتھ ملا کر میدان میں اتری۔ اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ سیاسی طور پر عالمی مقامی سطح پر وہ اس حد تک تنہائی کا شکار ہوئی ہے، کہ اب اس جنگ نے اپنے گھر کے بچوں کو کھانا شروع کردیا ہے۔ ان کی بندوق نے نہ صرف باہر پر اپنے سماج کو بھی اس طرح دہشت زدہ کر رکھا ہے کہ ان گنت لاشیں گرانے کے بعد بھی بلوچ دانشوربلوچستان کی سیاسی تنہائی کو کوئی سیاسی شکل نہیں دے سکے ہیں۔ بلوچ سرما چار اس جنگ میں جذباتی طور پر کتنے ہی باصلاحیت کیوں نہ ہوں، عالمی و مقامی سطح پر تنہائی کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب اس حقیقت سے انکار بھی شاید ممکن نہیں کہ ریاستی جبر نے بھی بلوچستان میں بہنے والے خون کو کبھی سوکھنے نہیں دیا۔ انہوں نے بلوچ حیات کو مزید تنگ کرنے کے لئے ایک طرف سر زمین بلوچستان کو عالمی دہشتگردوں کے لئے محفوظ آماجگاہ بنا کر ان پر ہزارہ برادری کے خون کو حلال کیا تو دوسری جانب ان کے جائز آئینی و قومی حقوق کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

بلوچستان میں جہاں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی قبرستان میں، میں نے کوئی رات اترتے نہیں دیکھی، جب جوان تصویروں لگی قبروں پر کوئی دیا نہ جلا ہو، وہاں کوئی صبح ایسی نہ گذری ہوگی جب آپ کو ان کے مدفنوں پر تازہ پھول نہ نظر آئیں ہوں۔ دوسرے ویران قبرستانوں کے برعکس ہزارہ قبرستان سدا آباد نظر آیا جہاں بوڑھے مرد اور عورتوں کو کمر اور گردن جھکائے جوان اولاد کی قبر سے سرگوشیوں میں باتیں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ نسلی طور پر علیحدہ نظر آنے والے ہزارہ برادری کو کیسے خاموش آنسوئوں کے ساتھ اپنی لاشیں اٹھاتے دیکھا، وہ تو تاریخ میں شاید کہیں پر بیان ہو، لیکن کوئٹہ ایئرپورٹ پر مجھ سے وہ دوپہر کبھی بھی نہیں بھولے گی، جب ایک دو بچوں پر مشتمل چھوٹے خاندان کو آنسووں میں تر دیکھا، جوکہ ہمیشہ کے لئے بلوچستان کے پہاڑوں کو الوداع کرکے آسٹریلیا کے دور دیس جارہے تھے۔انہیں ایئرپورٹ پرخدا حافظ کے لئیے آنے والوں والوں میں پچاس سے زائد عورتیں اور مرد شامل تھے، منظر یہ تھا جیسے کسی نوجوان پیارے کی میت کو الوداع کیا رہا ہو۔

یہ بھی تو تاریخ کا جبر تھا، جوکہ بلوچ جنگجوئوں کو اکیلا کرنے کے لئے رچایا گیا تھا، لیکن بلوچوں کی منظم آواز باہر اس جبر کے خلاف کسی سیاسی شکل میں سامنے نہ آ سکی ۔ اس وقت مجھے ایک پل کے لئے محسوس ہوا کہ میرے کندھے پر لٹکنے والے تھیلے میں موجود وہ تمام ٹشو ناکافی ہیں، جوکہ صرف میرے ہی آنسو پونچھ سکتے ہیں۔

اس طرح شاید بلوچستان کے میدان اور پہاڑ بھی ان بلوچوں کے لئے ناکافی تھے، جہاں مسخ شدہ، جلی اور گلی سڑی لاشوں کی تدفین ہو سکے اس لئے شاید انہیں اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا۔

بلوچستان زخم زخم تو تھا، مگر ایسے وہ اپنے ساتھ دوست و ہمدرد کھٹے کرنے کے بجائے ایسے اپنے ہی دیش سے دشمنی پر اتر آئے گا، یہی سوچ کر پرانے کامریڈ اس وقت بھی ٹھنڈی سانس بھر رہے تھے، جب میں بار بار ان پوچھ رہی تھی کہ‘‘ گوریلا جنگجو کی تنہائیوں پر کیا آخرکار یہ دیس خودکشی کرے گا ’’

میں نے دیکھا اور محسوس کیا تھا کہ صرف ریاست کی بندوق کی دھشت نہیں تھی، مگر ایک اور ان دیکھی بندوق ان پر تانی ہوئی تھی جس کا ان دیکھا خوف بلوچ معاشرے میں سرایت کر چکا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ بلوچ سیاست کی نبض کو جاننے والوں کو عالمی دنیا میں پراکسیز کے انجام کا پتہ نہ تھا۔ اور ایسا بھی نہیں تھا کہ انہیں پراکسی کی سب سے خاص اصول جس سندھی میں کہتے ہیں ‘‘ کام پورا ہوا تو بڑھئی کو بھول گئے’’ والا ہو، جس میں کام پر لگائے ہوئے بڑھئی سے کام لے کر اسے یوں فارغ کردیا جائے کہ فراغت میں وہ اپنے ہی سماج کو نشانہ بنا ڈالے

نہ ہی بلوچستان ایسے لوگوں، سیاسی سوچ سے لاتعلق تھا، جنہوں نے تبدیل ہونے والی دنیا کی تبدیل ہونے والے رجحانوں کو نہیں پہچانا۔

میں نے بہت سے پرانے نیپ کے سرگرم کارکنوں سے جن کے سر پر سب بال سفید ہوچکے ہیں، دہرا دہرا کر پوچھا تھا کہ انہوں گل خان نصیر کے ساتھ جو حیدرآباد کے کال کوٹھریوں کو دیکھا تھا وہ تجربات کیا ہوئے مگر ان کی آنکھوں میں خاموش مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیکھا تھا،

میں انہیں بار بار کہتی رہی کہ اپنی یادوں کو کاغذ پر سمیٹو،”مگر ان کا کہنا کہ‘‘موجودہ ماحول میں کتنا سچ کہا جا سکتا ہے۔’’

‘‘کیا، صرف ریاست کو ہی استعمال کرنے کا فن آتا ہے؟؟

کیا عالمی سامراجیت اس خطے میں آزادی پسندوں کے ساتھ مل کر اس دیس اور ہمارے معاشرے کے ساتھہ نہیں کھیل رہی

بلوچستان کے ساتھہ ہراک کھیل رہا ہے اندر و باہر سے بڑی چومکھی لڑائی ہو رہی ہے

بگٹی کے ماضی پہ لکھنے کی جرات کون کر سکتا ہے”

“بلوچ لڑاکے کی جنگ کوہلو کے پہاڑوں کا سفر تمام کر کےجب اندھی گلی میں ختم ہوگی تو وہ خودکشی کے علاوہ ایک ایسا خودکش بمبار بنیں گے جوکہ کسی دشمن کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنے آپ کو اس وقت ختم کریں گے، جب وہ اپنے انتہائی مخلص دوستوں کے درمیان ہوں گے، اس سے قبل کہ وہ ایسا کریں بلوچ دانشور کو اپنی خامشی توڑ دینی چاہئیے” یہ بلوچستان کو سمجھنا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اب اس خودکش بمبار کا نشانہ وہ محنت کش بنے ہیں، جن کے ہاتھہ ہمیشہ بلوچوں کی حق میں دعا کے لئے بلند رہے ہیں ۔

نہیں کہا جا سکتا کہ مکران بیلٹ سے خون میں ڈوبے مزدوروں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پہ ڈال کر جب سندھ کی سرحد پار پہنچیں گے تو کس کس نے پہچانا کہ قاتل کے بندوق کے مالک گروہ کی ڈوریاں کس کے ہاتھ میں ہیں۔

بستراور ضعیفی کی موت سے خائف ایسے جنگجو جذبے کی آخری قیمت لگانے والا مالک کون ہوگا،؟ یہ بلوچ جنگ میں جانا تھا کسی اور کی پراکسی لڑتے یہ پتہ تو کرد جنگجوئوں سے لے کر جافنا کے تامل ٹائیگروں تک کسی کو بھی نہ تھا کہ ان کا منطقی انجام جس امن کی میز پہ ہوگا اس کے فریقین کی آستینوں سے ان کا خون ٹپکتا ہوگا دونوں فریقین کےہاتھہ ان کے خون میں رنگے ہوں گے۔ ایسے جنگجوئوں کی جنگیں جب ٹھنڈی ہوکر ماضی کا حصہ بنتی ہیں تو تاریخ انہیں پروکسیز کے نام سے یاد کرتی ہے، جہاں لوگ، قومیں، اور خطے صرف ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہی

جس گولی کا نشانہ اپنا ہی سماج ہو، اس گولی کو چلانے والے کو ڈھونڈنا زیادہ مشکل نہیں ہے، پڑوس میں ہی افغانستان کا ٹوٹا پھوٹا ثقافتی چہرہ اور مسخ شدہ شناخت گواہ ہے کہ پروکسیز میں جو ہارنے والا ہے، وہ صرف دیس کا مالک ہوتا ہے اور عالمی طاقتیں بھی پچھاڑنے ہوئی قوموں کے ساتھ ایسے ہی مسخ شدہ لاشوں جیسا سلوک کرتی ہیں، جن کا بعد میں چہرہ شناخت میں نہیں آتا۔

یہ بھی تاریخ کا بے رحم دور ہے، جس کی ڈکشنری میں کل کی انقلابی جنگیں لڑنے والوں دیسوں کو کنفلکٹ زون کہا جاتا ہے، اور کون نہیں جانتا کہ کنفلکٹ زون میں کسی کی بھی مالکی نہیں ہوتی، وہ دھرتی صرف اور صرف وار لارڈز میں مال غنیمت کی طرح استعمال ہوتی ہے۔

جنگجوئوں کی بندوق کے ٹریگر پر کس کی انگلی ہے، یہ جاننا کوئی مشکل نہیں، مگر تاریخ کا سچ یہی ہے کہ یہ سچ بولنے کے کوئی بھی اپنی گردن آگے کرنے کے لئے تیار نہیں۔

بلوچ سماج اپنی داخلی اور خارجی لڑائی کو مزید تنہائی کی جانب دھکیل رہا ہےمگر یہ بھی انہیں طے کرنے دینا چاہئے کہ کوئی ایسا امکان جوکہ انہیں ترقی پسند، سیاسی عمل کے ساتھ جوڑے، سرد ہوئے سیاسی اور ثقافتی رشتوں کو بحال کرکے وہ خود ان کے لئے کیسی حکمت عملی بناتے ہیں۔

مگر سندہ میں محنت کشوں کی لاشوں پہ سندھ کے کچھ گروہوں کی غیرسنجیدگی، جذباتیت اور سیاسی شعور سے خالی سندھی۔بلوچ تصادم کی بات کو ہوا دینا اور سندھی بلوچ تصادم کو قوم پرستی کے پیرائے میں بیان کرنا بھی اپنے سماج کو آگ دینے والی سوچ ہے۔ اور یہ سمجھ سے اس لئے بھی بالاترنہیں کہ صرف آج نہیں بلکہ ہمارے کالونیل (بیٹھکیتی آقا) ماسٹر نے بھی سندھ میں دو فالٹ لائنوں کی نشاندہی کرتے لکھا تھا کہ، ‘‘سندھ میں ہندو۔مسلم اور سماٹ۔بروچ دونوں وہی فالٹ لائن موجود ہیں، جسکو چھیڑنے سے اس خطے کی سیاست کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ بلوچ سماج اگر اپنے لئے ایک تاریک راستے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے تو اس کا منطقی یا عقلی ردعمل یہ ہوگا کہ سندھ میں بلوچ ۔سندھی تضاد کو جان بوجھ کر فروغ دیا جائے اور اپنےسماج کو بھی ایسے کنفلکٹ زون میں تبدیل کیاجائے، جہاں مالکی نہیں حصے داری پر عالمی معاملے شروع ہوں۔

کیا فیس بکی دانشور اور اخباری صحافیوں کی اس طرح اندھی جذباتیت کا کوئی مستقل فائدہ ہوتے نظر آرہا ہے، یا انگریز آقائوں کی طرح یہ بھی اپنے دیسی آقائوں پر مسلط جنگ کو اپنی گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ کیا، یہ مطالبہ عقلی معنیٰ رکھتا ہے کہ ریاست سے مزدوروں کے تحفظ اور مقتولوں کے خون کا معاوضے مانگا جائے تاکہ گھر کی کفالت ہو سکے، قاتلوں کی گرفتاری کے بجائےبلوچ قوم کو نشانہ بنایا جائے۔

کیا، اس عمل کو جذباتی پاگل پن اور بیگار کے علاوہ کسی دوسرے خانے میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ریاست ہمارے اپنے سماج پر وہ جنگ مسلط کریں، جس کے نتیجے میں لسانی تصادم کی شکل میں اپنے ہی سماج کی شناخت ذرہ ذرہ ہونی ہے۔

اس لئے اگر اپنی ہی سماج کی چاروں دھائیوں کا عقلی اور سیاسی جائزہ لیا جائے تو بھی یہ نتیجہ نکالنا ممکن نہیں ہوگا کہ ہر نسلی تصادم کے پیچھے کس گروھ کے مفاد ہوتے ہیں اور ان کے ڈائریکٹر کون ہوتے ہیں۔ اور اس ریاست میں نسلی تصادم کس قوت کے گروہی مفاد پورا کرتا نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).