حلقہ مریدین اور اختلاف رائے کا معاملہ


 سنہ 1980 ء کے لگ بھگ کی بات ہے جب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تفسیر تدبر قرآن مکمل ہو چکی تھی۔ ان دنوں ہمدم دیرینہ جاوید احمد صاحب (غامدی، ان دنوں انھوں نے ابھی اپنے نام کے ساتھ یہ اضافہ نہیں کیا تھا) نے مولانا محترم کو اس بات پر قائل کر لیا کہ ادارہ تدبر قرآن و حدیث کے نام سے علم و تحقیق کا ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ اس کے دستور کی تشکیل کے لیے ہونے والے اجلاسوں میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ یہ اجلاس ہمارے بزرگ دوست ڈاکٹر فرخ ملک صاحب کے دفتر واقع ٹیمپل روڈ پر منعقد ہوتے تھے۔ ادارے کے مقاصد میں ایک مقصد قران و حدیث پر آزادانہ تحقیق تھا۔ ایک دن میں نے سوال پوچھا کہ آزادانہ تحقیق سے کیا مراد ہے؟ جواب ملا کہ فراہی مکتب فکر کی روشنی میں یہ کام کیا جائے گا۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ پھر آزادانہ تحقیق کے الفاظ حذف کر دینا مناسب ہو گا۔ خیر کافی بحث مباحثے کے بعد اس دستور کی منظوری کا مرحلہ طے ہو گیا۔ اس کے بعد اس ادارے کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا۔ کوئی پچاس کے قریب افراد اس میں شریک تھے۔ اجلاس کے اختتام پر سب نے رکنیت کے فارم پر کیے مگر میں نے رکن بننے سے انکار کر دیا۔ میرے مرحوم دوست چودھری صفدر علی صاحب نے مجھ سے رکنیت فارم پر دستخط نہ کرنے کی وجہ دریافت کی۔ میں نے جواب دیا کہ میں مولانا اصلاحی صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن مجھے حلقہ مریدین میں شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں۔ صفدر صاحب نے کہا کہ صورت حال کو بدلا بھی جا سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔

اس کے کچھ ہفتوں بعد ایک دن صفدر صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کسی قدر پریشان تھے۔ میں نے پوچھا کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگے آپ کی بات بالکل درست نکلی ہے۔ میرے استفسار پرانھوں نے پورا قصہ بیان کیا۔ اس بات کی وضاحت کے لیے اس کا کچھ پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔

 معاملہ یہ تھا کہ سنہ 1979 ء میں جب جنرل ضیا الحق نے شریعت کا نفاذ شروع کیا تو ایک فیڈرل شریعت کورٹ بھی قائم کی گئی۔ اس عدالت نے جو پہلا ہی فیصلہ دیا وہ از حد متنازع ثابت ہوا۔ اس عدالت نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو حد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے تھا۔اس فیصلے پر مذہبی حلقوں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ شریعت بنچ کے چاروں جج فارغ کر دیے گئے اور ان کی جگہ نئے جج مقرر کیے گئے اور تین علما کو بھی پہلی بار ، کسی قانونی ڈگری اور تجربے کے بغیر ہی شریعت بنچ میں جج مقرر کر دیا گیا۔

شریعت کورٹ کے فیصلے میں چونکہ مولانا اصلاحی کی راےے کو بنیاد بنایا گیا تھا اس لیے ان ایام میں مولانا اصلاحی کی رائے پر بہت زیادہ بحث مباحثے کا بازار گرم تھا۔اس وقت ایک مولوی صاحب جاوید صاحب کے بہت دوست بنے ہوئے تھے۔ جاوید صاحب نے ان کے اشتراک سے ”اشراق “کے نام سے ایک جریدہ شائع کرنا شروع کیا ۔اس جریدے میں جاوید صاحب نے اپنے ایک سابق رفیق، محمد رفیق چودھری، کا مضمون شائع کر دیا جس میں مولانا اصلاحی صاحب کی رائے پر تنقید کرتے ہوئے اسے رد کیا گیا تھا۔ مولانا نے جب یہ مضمون پڑھا تو ان کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے بہت سخت اور ناملائم الفاظ میں اس کی مذمت کی۔ اس پر جاوید صاحب کو خفت اٹھانا پڑی اور مولانا کے پرانے شاگرد ان کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے۔

 صفدر صاحب کو مولانا کے اس رد عمل پر بہت حیرانی تھی۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ زبانی کلامی آزادی اظہار کا ذکر کرنا اور بات ہے لیکن اسے خود پر لاگو کرنا اتنا آسان کام نہیں۔جن لوگوں کو مولانا اصلاحی صاحب کی صحبت میسر آئی وہ جانتے ہیں کہ مولانا تنقید کرتے وقت کسی بڑی سے بڑی شخصیت کا کوئی لحاظ نہیں کیا کرتے تھے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اصحاب علم، بالخصوص علم دین کے حاملین، بسم اللہ کے گنبد میں بند ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک کو چند ایک شاگرد اور مرید مل جاتے ہیں جن کے دماغ استاد کے علم سے مرعوب اور آنکھیں فرط عقیدت سے بند ہوتی ہیں۔ سالہا سال گزر جاتے ہیں کہ استاد محترم کو بس اپنی ہی آواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ مریدین واہ واہ اور سبحان اللہ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ مکالمے کی کبھی نوبت ہی نہیں آتی۔ چنانچہ جب کبھی تنقیدی کلمات سے واسطہ پڑتا ہے، تو چشم و گوش ان سے مانوس نہیں ہوتے۔ اس صورت حال میں نارمل رد عمل کی توقع کرنا عبث ہوتا ہے۔ پھر ہر کوئی یہی کہتا ہے: کون گستاخ ہے یہ دیوانہ۔

دوسروں پر تنقید کرنا اور خود پر تنقید برداشت کرنا ایک آرٹ ہے اور ہر آرٹ کی طرح یہ بھی پریکٹس مانگتا ہے۔ ہمارے بزرگ دوست شیخ صلاح الدین مرحوم کہا کرتے تھے کہ یہاں جو بھی لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پانچ سات ایسے دوست جمع کرے تواس کے ساتھ اختلاف رکھتے ہوں۔کوئی شخص محض نظری علم سے اچھا تیراک نہیں بن سکتا، اس کے لیے پانی میں اترنا اور مسلسل اس کی پریکٹس کرنا پڑتی ہے۔شاگردوں اور مریدوں سے گفتگو کرنے والوں میں مکالمہ کرنے کی صلاحیت کا پروان چڑھنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے مجھے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔

ماہ نومبر سنہ 1981 ء میںجاوید صاحب، صفدر صاحب اور میں نے ایک رسالہ ” الاعلام “کے نام سے شروع کیا۔ اس کے لیے مالی معاونت ڈاکٹر فرخ ملک نے فراہم کی تھی۔ اس کے نو شمارے شائع ہوئے تھے۔ یہ رسالہ زیادہ تر جاوید صاحب اور صفدر صاحب کے مابین رجم کے موضوع پر ہونے والے قلمی مناظرے کی نذر ہو گیا۔ اس رسالے کے لیے ایک بار ہمارے دوست ڈاکٹر منصور الحمید صاحب نے ایک مضمون بھیجا۔ اس مضمون میں ایک جگہ ڈاکٹر صاحب نے قرآن حکیم کی یہ آیت درج کی تھی: و جعلنا من الماءکل شئی حی۔ اس آیت کا انھوں نے یہ ترجمہ کیا تھا: اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا۔ مجھے یہ ترجمہ درست نہ لگا۔ میں نے جاوید صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ کیا ترجمہ کیاہے۔ جاوید صاحب نے تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد کہا کہ یہ ترجمہ انھوں نے خود نہیں کیا ہو گا۔ جاوید صاحب نے تدبر قرآن کی جلد اٹھائی تو پتہ چلا کہ ترجمہ وہاں سے لیا گیا ہے اور تدبر میں بھی غلط ہے۔

 میں نے جاوید صاحب سے عرض کیا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں پانی مرتا ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب کے شاگردوں میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اچھی عربی جانتے ہیں۔ اگر انھوں نے استاد محترم کی تحریر کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہوتا تو وہ اس غلطی پر توجہ دلا سکتے تھے۔ غلطی ہونا کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور ہر غلطی علم میں کمی کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ بعض اوقات ہم عبارت کو غلط پڑھ لیتے ہیں۔ انسانی ذہن کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ خود تنقیدی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ غلطی سے آگاہی کے لیے ہمیں دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔

ہمارے جدید تعلیمی اداروں کا بڑا نقص بھی یہی ہے کہ وہ تنقیدی رویے کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے اور نہ اسے پروان چڑھانے میں کوئی مدد کرتے ہیں۔ اکثر اساتذہ اپنا ایک خطبہ ارشاد کرتے ہیں، طالب علم کو اس پر سوال اٹھانے کی نہ جرا ¿ت دیتے ہیں اور نہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ چند ایسے استاد بھی میسر آئے جن سے مکالمہ کرنے کی تربیت ملی۔ دوسروں پرتنقید کرنے اور خود پر تنقید برداشت کرنے، اور اس کے نتیجے میں اپنی غلطی کو درست کر نے کا حوصلہ ملا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرزا ریاض صاحب ایک ایسے ہی استاد تھے جو مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مجھے تین برس تک کلاس میں ان سے پڑھنے کا موقع میسر آیا۔ بی اے میں میرا ایک مضمون اردو اختیاری تھا۔ علامہ اقبال کی بانگ درا کی چھ طویل نظمیں نصاب کا حصہ تھیں جو میرزا ریاض صاحب ہمیں پڑھاتے تھے۔ میرزا صاحب نے زمانہ طالب علمی میں عربی پڑھی تھی ؛فارسی سے ناواقف تھے اور وہ اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔ نظم طلوع اسلام کا آخری بند فارسی میںہے۔ جب یہ مصرع آیا:

پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد

مرزا صاحب نے بانگ ہزار کا ترجمہ ہزار آوازیں کیا۔ فارسی تو مجھے بھی نہیں آتی، بس اتفاقاًکچھ ہی دن پہلے کسی سے سنا تھا کہ فارسی میں ہزار بلبل کو کہتے ہیں۔ میں نے کلاس میں کہہ دیا کہ سر اس کا مطلب بلبل کی آواز ہے۔ اس پر وہ خفا ہونے کے بجائے بہت خوش ہوئے اور مجھے کہا کہ یار تم نے تو مسئلہ ہی حل کر دیا۔ میں بس سوچاکرتا تھا کہ ہزار آوازوں کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

میرے اندر اگر لکھنے کی کچھ صلاحیت ہے تو اسکو پروان چڑھانے میں مرزا ریاض صاحب کا بہت حصہ ہے۔ میں کچھ لکھتا تو سب سے پہلے ان کے پاس لے کر جاتا۔ وہ اس کو پڑھنے کے بعد اس میں غلطیوں کی نشان دہی کرتے اور اصلاح کرتے۔ ان کا میرے اوپرایک اور بڑا احسان ہے جس کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس زمانے میں مجھے افسانہ لکھنے کا شوق چرایا۔ ایک افسانہ لکھ کر مرزا صاحب کے پاس لے گیا۔مرزا صاحب خود ایک اچھے افسانہ نگار تھے۔ پہلے تو انھوں نے میرا امتحان لیا کہ میں نے کن کن افسانہ نگاروں کا مطالعہ کیا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ منٹو کے افسانے، کھول دو، پر ہمارے درمیان کافی گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے میرے افسانے کو پڑھ کر مجھے کہا برخوردار یہ تمھارے بس کا کام نہیں۔ تمھارا مزاج اس سے لگا نہیں کھاتا۔ اس لیے اس کام میں اپنی توانائی صرف نہ کرو۔ چنانچہ اس دن کے بعد میں نے افسانہ نگار بننے سے توبہ کر لی اور اب یہ نہیں کہوں گا کہ اردو ادب ایک عظیم افسانہ نگار سے محروم رہ گیا۔

اساتذہ کے ساتھ مجھے ایسے دوست بھی ملے ہیں جن سے اختلاف رائے کے باوجود کبھی دوستی کے رشتے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ غامدی صاحب سے دوستی کا رشتہ تقریباً نصف صدی پرانا ہے۔ اس عرصے میں میرا ان سے بہت اختلاف بھی رہا لیکن باہمی خلوص و احترام میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا۔ آج ان کو اس مقام پر دیکھ کر دلی مسرت ہوتی ہے کہ انھوں نے مہذب مکالمے کو فروغ دینے کی بہت عمدہ مثال قائم کی ہے۔ اپنی ایک اور خوش نصیبی کا ذکر کرنا بے محل نہ ہو گاکہ مجھے ایسے شاگرد بھی میسر آئے جو میری باتوں سے کھلم کھلا اختلاف کرتے اور ان پر تنقید کرتے تھے۔ ان شاگردوں سے بھی دوستی کا مضبوط رشتہ قائم و دائم ہے۔

علم کو اگر ایک جسد فرض کر لیں تو تنقید وہ لہو ہے جو اس جسد کی رگوں میں دوڑتا ہے اور اس میں حرکت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ تنقید علم کو زندہ رکھنے اور اس کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ علم چبائے ہوئے نوالوں کو دوبارہ چبانے کی مشق کا نام نہیں بلکہ گزشتہ نسلوں سے ورثے میں ملنے والے علم کو تنقید اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھنے، اس میں غلطیوں کو دریافت کرنے اور ان غلطیوں کی اصلاح

 کرنے کی سعی کا نام ہے۔ علم کی شاہراہ پر سفر کرنا مہم جوئی کے سفر پر نکلنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ اسلاف پرتنقید سے خوف کھاتے ہوں، اور خود پر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں، ان سے علم کے میدان میںکسی پیش رفت کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے پنجابی محاورے کے مطابق سانڈوں والے گھر سے لسی ملنے کی امید رکھنا۔

اس وقت جی چاہتا ہے کہ وارث شاہ کا یہ مصرع کسی قدر تصرف کے ساتھ پڑھا جائے:

ہیر آکھدی” علم“ دے راہ پینا نئیں کم ملوانیاں قاضیاں دا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).