عورت ، ملکیت اور قبائلی تصورات


\"maxresdefault\"ابن کنعان

کہتے ہیں غاروں کے زمانے میں عورت کو بیڑیوں سے باندھ کر رکھتے تھے کہ کہیں کوئی اٹھا کر نہ لے جائے کیوں کہ ان دنوں اسے جنگوں اور شب خون میں مال غنیمت سمجھ کر ساتھ لے جاتے تھے۔ وقت بدلا تو وہی بیڑیاں قیمتی دھاتوں کے زیورات میں بدلیں لیکن ان سے جڑا ملکیت کا تصور علامتی طور پر سہی، اب بھی کسی درجے میں قائم ہے۔

عورت ذات کے گرد بنے اکثر تصورات اسی طرح کی قبائلیت کی سوچ سے اوپر نہیں ا±ٹھے جس میں عورت پر تصرف کا حق ملکیت سے مشروط ہے اور ملکیت کے حصول کی عارضی اور مستقل دونوں صورتوں کو مذہبی اور قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس ملکیت میں کسی قسم کی دراندازی یا تجاوز کو غیرت و ناموس کے تصور کے تحت جارحانہ انداز میں اس کا دفاع یا کسی بھی قسم کا متشدد جوابی اقدام مستحسن ٹہرتا ہے۔

عورت کا اس قسم کے کسی ملکیتی رشتے سے باہر ہونا اس کی بدقسمتی مانی جاتی ہے اور اگر ایسا اس کا ذاتی انتخاب ہو تو اسے آوارگی پر محمول کیا جاتا ہے۔ اور اس آوارگی کو تصرف کی کھلی آزادی کا مترادف سمجھ کر کسی قسم کی جنسی جارحیت کو سند جواز دیا جاتا ہے۔ انہی رجحانات سے جڑا ہرشخص چاہے وہ کسی بھی مذہبی شناخت سے جڑا ہو، چاردیواری سے باہر ہر عورت کو \’بازارو\’ سمجھتا ہے گھر سے باہر ہو تو اس کی حریصانہ نظر سے نہ مکتب و مدرسہ جانے والی معصوم بچیاں محفوظ ہیں نہ ہی ادھیڑ عمری کی دہلیز میں قدم رکھے خواتین کو اپنے تصورات کی چھلنی پر سے گزارنے میں انہیں کوئی عار محسوس ہوتا ہے۔

دیکھاجائے تو حجاب و نقاب کا تصور بھی اسی ملکیت کی تخصیص اور تصرف کے محدود کیئے جانے کی علامت تھی گو کہ اب آئیڈینٹیٹی پالیٹکس (شناخت کی سیاست ) کے دائرے کو مذہبی بنیاد فراہم کرکے فوائد بٹورنے والوں نے اسے بھی لبرل معاشروں میں ذاتی انتخاب کے عنوان سے اسے مخصوص شناخت سے وابستگی کے اظہار کا وسیلہ مقرر کر رکھاہے ۔

اسی لئے اب تہوار اور مختلف حوالوں سے منائے جانے والے دن بھی مذہبی شناخت کے حوالوں سے جوڑے جاتے ہیں

جو لوگ کچھ دن پہلے ویلنٹائن ڈے کو بے حیائی کا تہوار قرار دیتے رہے، وہی لوگ یسوح مسیح علیہ السلام کے یوم پیدائش پر تہنیتی پیغام کے طور پر \’میری کرسمس\’ کہنے کو حرام قرار دینے پر مصر ہوتے ہیں، یوم عاشور سے جڑی رسوم و روایات کی حیلوں بہانوں سے مذمت کرتے ہیں ، مزاروں کے گرد ہونے والے کلچرل مظاہر کو بے راہ روی کا مرقع کہ کر کف افسوس ملتے نہیں تھکتے۔

قدامت و رجعت پسندی کی جڑیں چاہے مذہبی تعبیرات میں پیوست ہوں یا قبائلی برتری کے اظہار سے وابستہ کی جائیں۔ ان میں قدر مشترک عورتوں کے حوالے سے احساس ملکیت کے ٹوٹتے بکھرتے تصور کو شیرازہ بندی کی لاحاصل کوششیں ہیں

نہ کوئی پہلے اس پہ روک لگا سکا نہ اب یہ سلسلہ رکے گا، بس معاشی فائدے کا کوئی پہلو تھما دیں قبلہ مفتی صاحب بھی حیلے تراشنے میں اول اول ہوں گے۔

بطور مثال یہی دیکھ لیں کہ مفتی صاحب کے مدرسے میں ہزاروں روپے ماہانہ فیس ادا کرنے والی متمول خاندانوں کی بچیاں ہاسٹلز میں قیام پذیر ہیں جب کہ دیوبندی علما کی ایک معتدبہ تعداد بنات کے مدارس کے تصور ہی کے خلاف ہے۔ اب دوسرے مولوں جتنا چاہے لڑکیوں کے اقامتی مدارس کے خلاف فتاوٰی لے آئیں، مفتی صاحب نے مالی فوائد کی اس بہتی گنگا سے دست بردار نہیں ہونا ہے۔
رہ گئی قباحتوں کی باتیں تو کوئی مفتی صاحب سے پوچھے کہ کراچی میں ان ہی کے ایک پیٹی بھائی کے خلاف مدرسے میں مقیم طالبہ سے جنسی زیادتی کے سنگین الزامات کی بنا پر وفاق المدارس کیا اس کا الحاق ختم نہیں کرچکا، یہ الگ بات کہ اس کے خلاف فوجداری کارروائی کی راہ میں مفتی صاحب کے دیگر احباب آڑے آئے کہ مبادا مدارس کا نام خراب ہو۔

مفتی صاحب ہی کے مدرسے کے ایک سابق استاد جو جسمانی طور پر معذور تھے بیگم کے ساتھ گھر میں کام بٹانے پر مامور اپنے جوان بیٹے کی ہم عمر لڑکی پر نظر رکھنے اور پھر اسے عقد ثانی میں لینے کے مرتکب نہیں ہوئے تھے؟

کیا کیا جائے کہ عفت وعصمت کے تمام تصورات کو دوسروں پر تھوپنے والوں کا کردار کوئی اتنا حوصلہ افزا نہیں ہے

اس لئے جناب کسی پر انگشت نمائی کرنے سے پہلے اپنی اداو¿ں پر بھی ذرا غور کرلیں۔

تقویٰ تو کانٹوں کی شاہراہ پر دامن بچانے کا نام ہوا کرتا تھا۔ یہ کون سی قوم اتری ہے جو اپنی بے راہ روی کا الزام دوسروں پر دھرتی ہے اور اپنی عفت کی حفاظت کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments