ہماری یونیورسٹیاں کہاں کھڑی ہیں؟


دنیا بھر کے اعلی تعلیمی اداروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر درجہ بندی کرنا ایک مشکل کام تھا۔ چودہ برس پہلے ایک برطانوی فرم نے یہ بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اس رینکنگ کے لیے چھ سات موٹے اصول وضع کیے اور ان کی بنیاد پر یہ کام شروع کر دیا۔ کیو ایس ورلڈ رینکنگ نامی یہ ادارہ ہر سال پوری دنیا میں موجود ٹاپ کلاس یونیورسٹیز کی فہرست بناتا ہے اور اسے میڈیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ دی گارڈین جیسا قابل اعتماد میڈیا گروپ اس کا پارٹنر ہے۔ عمومی پڑتال کے ساتھ ساتھ چھیالیس مختلف موضوعات پر بھی رینکنگ جاری کی جاتی ہے۔ جیسے قانون کے شعبے میں پڑھنا ہے تو نمبر ون یونیورسٹی کون سی ہو گی، ڈاکٹری میں کہاں جائیں، تاریخ پڑھنی ہے تو بہترین ادارہ کون سا ہے یا دوسرے تمام مضامین میں بہترین چوائس کیا ہو سکتی ہے۔

دو ہزار سولہ اور سترہ کی لسٹ بنانے کے لیے انہوں نے 3800 یونیورسٹیوں کا حساب کتاب لگایا اور ان میں سے ٹاپ 900 ادارے نکال کر پیش کر دئیے۔ پہلی چار سو درسگاہوں کو باقاعدہ پوزیشن دی گئی اور اس کے بعد باقیوں کو گروپ میں درجہ بند کر دیا مثلا فلاں یونیورسٹی پانچ سو اور ساڑھے پانچ سو نمبر پہ آنے والی یونیورسٹیوں کے درمیان ہے یا فلاں جامعہ سات سو سے اگلے نمبروں پر ہے۔ تو یہ سارا کام دنیا بھر میں اچھا خاصا مستند سمجھا جاتا ہے اور تعلیمی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے اس کمپنی کو قابل بھروسہ مانتے ہیں۔ اس کے طریقہ کار پر چند سوالات بھی اٹھتے ہیں لیکن حل پیش نہیں کیا جاتا۔ جیسے پکاسو کی تصویر کو انناس یا عورت سمجھ کر مضحکہ اڑائیں اور ویسا کچھ بنانا خود سے ممکن نہ ہو۔ فی الحال ایسا ہی ہے۔

دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں کیے جانے والے اس ظالم مقابلے کے بعد پاکستان کی پہلی یونیورسٹی جو کسی منزل تک پہنچ پاتی ہے وہ پانچ سو پلس ہے۔ یعنی پانچ سو سے ساڑھے پانچ سو کے درمیان ہمارا پہلا ادارہ کہیں لینڈ کرتا ہے اور وہ پرائیویٹ ہے۔ سات سو کے بعد جا کر کہیں دو سرکاری یونیورسٹیاں نام کماتی ہیں جو ظاہر ہے دو بڑے شہروں کی ہیں، دو تین پرائیویٹ ادارے بھی وہیں کہیں رلتے کھلتے موجود ہیں۔ ایک درجہ بندی ایسے تھی کہ پانچ جنرل کیٹیگریز تھیں اب ان میں آرٹس اور ہیومینیٹیز ہے تو اس میں ہمارا وجود ہی کہیں نہیں پایا جاتا، ویسے بھی ہیومینیٹی کا جنازہ ہم ابھی مردان میں نکلتا دیکھ چکے ہیں۔ سوشل سائنسز ایک معصوم سی کیٹیگری تھی جو کلچر، زبان، معیشت، سیاسیات اور آثار قدیمہ کو ڈیل کرتی ہے اس میں بھی کہیں دور دور تک ہمارے نامیوں کے نشاں موجود نہیں تھے۔ پھر خدا کا خاص کرم ہوا اور میڈیکل یا لائف سائنسز کو جا کر دیکھا تو کراچی کا ایک اسماعیلی ادارہ چار سو سے اگلے کسی نمبر پر دکھائی دیا۔ انجینئیرنگ اور ٹیکنالوجی میں لاج رکھنے والا وہی اسلام آباد کی جامعہ تھی جو دنیا بھر میں پانچ سو لیکن اس شعبے میں 275 نمبر پہ موجود تھی۔ نیچرل سائنسز یعنی فزکس، کیمسڑی، بائیولوجی وغیرہ میں پاکستان 396 نمبر پہ کھڑا تھا۔

اب طبیعت نے اکسایا کہ یار اتنی محنت کر لی ہے جوان، ایک نظر الگ الگ مضمونوں والی درجہ بندی پر بھی ڈال لو، تھوڑا آئیڈیا ہو جائے گا کہ چل کیا رہا ہے۔ سین یہ ہے کہ چل کچھ بھی نہیں رہا، تقریباً رکا ہوا ہے۔ میڈیا اور ابلاغیات کے مضمون میں دو سو یونیورسٹیاں تھی، اپنا نام و نشان نہیں تھا۔ ہسٹری جسے بیان کرتے ہوئے اکثر دانشور ہسٹیریائی ہو جاتے ہیں اس میں بھی ہم دو سو کے اندر کہیں نہیں ہیں۔ قانون کی تعلیم دینے والے تین سو ادارے تھے، ایک بھی وطن عزیز میں نہیں پایا جاتا۔ انگریزی جو پاکستان کی اشرافیہ اور غیر اشرافیہ کی ٹیکنیکل مجبوری ہے اس کی تین سو یونیورسٹیوں میں بھی ہمارا جھنڈا غائب تھا۔ سوشیالوجی تو خیر ہے ہی فضول مضمون، جو مضمون یہ سکھلائے کہ معاشرہ کم بخت ہوتا کیا ہے اور اس میں رہتے کیسے ہیں اور نورم اور کلچر میں فرق کیا ہوتا ہے، تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے، وہ تو ویسے بھی ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے۔ اس کی رینکنگ میں شاید اسی لیے دور تک، بلکہ بہت دور تک ہم کہیں نہیں تھے۔

ایک کمینی سی خوشی جو شریکے ہی محسوس کر سکتے ہیں، وہ یوں ہوئی کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا دونوں سات سو کے بعد کہیں موجود دیکھے۔ کچھ اطمینان ہوا کہ استاد ایسے برے بھی نہیں ہیں، اب فرنگیوں سے کون مقابلہ کرے۔ ہاں، سنگاپور جس کا رقبہ سات سو انیس کلومیٹر سکوئر ہے اور تقریبا چھپن لاکھ لوگوں کا ملک ہے اس نے جان شرما دی۔ بارہویں اور تیرہویں نمبر پہ وہ اتنا چھوٹا سا ملک راج کر رہا ہے۔ گناہوں کی سرزمین ہانگ کانگ ستائیسویں نمبر پہ ہے۔ فلپائن جہاں سے خواتین ہمارے یہاں بچے سنبھالنے آتی ہیں بلکہ پوش گھرانوں میں یہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے تو وہ فلپائن بھی تین سو چوہتر پہ منڈلا رہا ہے۔ یا خدا یہ پیلی رنگت والے چپٹے لوگ بھی اب ہم جیسے دراز قد، گورے چٹے، وجیہہ، چوڑے چکلے، بانکے سجیلے اور خوب صورت لوگوں سے آگے نکلیں گے! اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔

بھارت ڈیڑھ سو کے بعد سات سو تک کی لائن میں کہیں نہ کہیں دس بارہ یونیورسٹیاں لائن میں لگائے موجود تھا۔ مصر کی جامعہ الازہر جو سن نو سو ستر میں بنی تھی آج تک سات سو نمبر سے نیچے ہی کہیں پائی جاتی ہے۔

دنیا کی فکر چھوڑ کر اپنے ملک کی بات ہو تو نظر آتا ہے کہ قانون والا ستون ہوا میں معلق ہے۔ یعنی ہمارے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اچھے قانون ساز پیدا کر سکے۔ اگر ہے بھی تو ان چار سو یونیورسٹیاں سلیکٹ کرنے والوں کو نظر نہیں آیا۔ نہ ہی انگریزی ادب یا زبان پڑھانے کا ایسا کوئی بندوبست ہے جو کم از کم دعوے سے یہ بات کی جا سکے کہ ہاں ہم انگریزی جانتے ہیں۔ تو جب انگریزی یا قانون دانی میں سخن فہمی عالم بالا معلوم شد کا سماں ہو گا تو پھر ماریو پوزو سے ہی تفریح لینے میں کیا مضائقہ ہے۔

اسی طرح تاریخ ہے جو بقول شخصے ہمارے گھر کی لونڈی ہے اور ہم اس سے ویسا ہی سلوک بھی کرتے آئے ہیں۔ یہ برتاؤ آخر کہیں تو سامنے آئے گا۔ قائد اعظم کی وہ گیارہ اگست والی تقریر، قرارداد مقاصد، تہتر کا آئین، ضیا دور یا پھر کوئی بھی ایسا موضوع چھڑے تو ایسی ایسی تاریخ دانی ہوتی ہے کہ واللہ اگر دو ہزار یونیورسٹیوں کے نام بھی ہوں تو ہم کہیں نہ پائے جائیں کہ اس پائے کے فاضل التواریخ کہیں اور نہیں پائے جا سکتے۔ ویسے بھی جون ایلیا کہتے تھے، ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا، جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے۔

سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو ہر شعبے میں جو قحط الرجال نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم ڈاکٹر، انجینئیر اور کمپیوٹر ایکسپرٹس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بنا رہے۔ ایک انسان کے روپ میں پیدا ہو کر مشین کی جون میں تبدیل ہو جانا ہرگز معاشرے میں کوئی پازیٹو تبدیلی نہیں لا سکتا۔ ہم اپنے مائنڈ سیٹ سے باہر جھانکنے کو تیار نہیں ہیں۔ قانون ہو، لٹریچر ہو، زبان ہو، معیشت ہو، سیاست ہو، تاریخ ہو، کلچر ہو، ان سب چیزوں کا صدیوں پرانا نصاب آج بھی پڑھایا جاتا ہے اور جہاں کہیں ذرا بھی شبہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز ہمارے سنہرے ماضی قریب یا بعید کی راہ میں اٹک رہی ہے، وہیں اس کا جھٹکا کر دیا جاتا ہے۔ تحقیق کے نام پہ بازار میں لکھنے والے موجود ہیں جو بارہ الگ موضوعات کو ایک ہی کٹ پیسٹ کی مار دیتے ہیں۔ پڑھانے کی فیلڈ میں عموماً وہ لوگ آتے ہیں جو باقی کسی جگہ کامیاب نہیں ہوتے۔ طلبا تنظیموں نے الگ طوفان بدتمیزی مچایا ہوا ہے، ایک وحشت ہے، ایک بربریت ہے۔

اگر کیو ایس ورلڈ رینکنگ کی سائیٹ پر کوئی صاحب دل جائے تو وہاں مکمل گراف اور دیگر تقابلی آپشنز موجود ہیں۔ کہیں پر ایک اور چھوٹا سا ملک پیرو آگے بڑھتا نظر آئے گا، کہیں پہ افریقی ہمارے ساتھ دوڑ لگا رہے ہوں گے۔ سعودی عرب اور ایران الحمدللہ ہمارے آس پاس ملیں گے۔ بہرحال اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بہت سامان موجود ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain