موت کے کنویں کی اسیر زندگی


انسٹے ٹیوٹ آف سرامکس میں گرمیوں کی چھٹیاں‌ ہو گئی تھیں، سبھی طالب علم گھروں کو جا چکے تھے اور میں ہاسٹل میں اکیلا تھا۔ اظہری آیا کہ اس کے مہمان آنے ہیں، انھیں اپنے کمرے میں‌ ٹھیرا لوں۔ اظہری کا تعلق گجرات کے ایک گاوں سے تھا، وہ برتن بنانے کے کارخانے میں کاری گر تھا؛ وہیں جہاں میں بھی پارٹ ٹایم کام کیا کرتا تھا۔ صبح انسٹے ٹیوٹ آف سرامکس سے اسباق لینا، اور دُپہر تا شام برتنوں کے سانچے تیار کر کے جیب خرچ کما لیتا۔

گاوں دیہ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی عیاشی دیسی ٹھرا پی لینا، یا بہت ہوا تو موت کے کنووں پر جا کے ہیجڑوں کا رقص دیکھ لینا، ہوتی تھی۔ موت کے کنووں پر جانے والوں کا ایک نظام ہوتا، سب کو خبر ہوتی تھی کہ اگلا میلا کس علاقے میں لگنا ہے۔ آپس میں حسد بھی ہوتا، کبھی غلط اطلاع دیتے غلط رُخ پر بھی ڈال دیا جاتا، لیکن ایسا کم کم ہوتا تھا۔ میں روز ان کے قصے سن سن کے اتنا متجسس ہوا کہ ان کے ساتھ موت کے کنووں کا نظارہ کرنے چل نکلا۔ ان میلے ٹھیلے والوں کی ایک الگ دُنیا ہے؛ مختصرا یوں سجھ لیجیے، جیسے شوبز کی دُنیا، صحافت کی دںیا؛ ہر دُنیا کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں گھر سے زرا دور خانہ بدوشوں کے خیمے لگتے سمٹتے دیکھے تھے۔ اس وقت راول پنڈی کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، جتنی پچھلے بیس پچیس برسوں میں بڑھی ہے۔ خانہ بدوشوں کو ہم بچے دور دور ہی سے دیکھا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک اسرار تھا، کہ خانہ بدوش بن جانے کو جی کرتا۔ اب یہ میلے لگتے دیکھے تو خانہ بدوشوں کو زندگی نظر میں سما گئی۔ میں جو ان مزدوروں کو کبھی سمجھایا کرتا تھا، کہ اپنی کمائی برباد نہ کریں، انھی کے ساتھ تھاں تھاں میلے دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔

جیسے ہر شعبے کی اپنی اصطلاحیں ہیں، میلے ٹھیلے لگانے والوں‌ کی بھی ہیں۔ اسی طرح ہیجڑوں کے یہاں کوڈ ورڈز کا استعمال عام سی بات ہے۔ ”نیہارو، ایجا، چامکا، مورت، نربان، ٹھپر، ناٹو، بیلا، چِس“ اور اس طرح کے ڈھیروں الفاظ ہیں، جو آپس میں بات کرتے استعمال کرتے ہیں۔ کوئی تیسرا ان کے بیچ میں بیٹھا ہو، جو ان خفیہ الفاظ سے نا واقف ہے، تو جان ہی نہیں پاتا، کہ کیا بات ہوئی ہے۔ میرا جی اس دُنیا میں لگنے لگا تھا۔

مکھو اور ممتاز کا تعلق سوہنی کے ڈیرے گوجرانوالہ سے تھا۔ اظہری ممتاز کا چامکا یعنی عاشق تھا۔ مکھو سے میری بڑی یاری تھی، لیکن میں اس کا چامکا نہیں‌ تھا۔ وہ بڑی ہنس مکھ تھی، اور خلوص کا یہ عالم تھا کہ ایک بار میں نے اس سے کہا مجھے ”فرقہ“ کر کے (بہروپ بھر کے) موت کے کنویں میں ناچنا ہے۔ اُس نے پوچھا کیوں؟ تو میں نے جواب دیا ابھی تک میں نے کنویں میں اوپر سے نیچے دیکھا ہے، اب دیکھنا چاہتا ہوں، نیچے جہاں تم ہوتی ہو وہاں سے اوپر کا کیا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ مکھو نے سخت مخالفت کی، میں نے اصرار کیا تو سمجھانے لگی، ”جو اوپر سے نوٹ پھینکتا ہے، اس کے ارادوں سے کیسے بچو گے؟“

اُس رات اظہری کے مہمانوں آئے؛ یہ ممتاز اور مکھو تھیں۔ بہت دیر تک ہم باتیں کرتے رہے، مختلف میلوں کے قصے کہانیاں سن کر شب بتائی۔ یہ سن کے حیرانی ہوئی کہ ممتاز دو بچوں کی باپ تھی۔ ممتاز کے بہروپ میں سجاد تھا۔ سجاد حافظ آباد کے کسی گاوں کا تھا۔ بچپن ہی سے اس کے عادات و اطوار زنانہ تھے، اگر چہ وہ جسمانی طور پر مرد تھا؛ مکمل مرد۔ اہل علاقہ اور ساتھ کے بچے اس کا مذاق اڑایا کرتے، تو اس نے اپنے جیسوں کے حلقے میں پناہ لی۔ جو ہماری طرح نہیں دِکھتا، ہماری طرح نہیں سوچتا، ہماری طرح اظہار نہیں کر پاتا، ہم اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجائے وہ ہمارے قریب آئے، وہ اپنی چال ڈھال والوں میں عافیت پاتا ہے۔ کسی پر طنز کر کے ہم اس کو اپنے جیسا بنا سکتے ہیں، تو وہ ایسے کہ وہ بھی ہم پر طنز کرے۔ اس کے سوا کچھ بھی ہم جیسا نہ ہوگا، وہ اپنی چال چلے گا، ہم اپنی۔

ممتاز یعنی سجاد جوان ہوا تو والدین نے اس کی شادی کر دی؛ تب تک سجاد ہیجڑوں کے ساتھ رہتے پیشہ کرنے لگا تھا۔ ہیجڑوں کا سا بہروپ بنا کے میلوں میں لگنے والے موت کے کنووں میں رقص کرتا۔ کبھی اس نگر تو کبھی اس نگر۔ پیسا اس نے خوب کمایا، بچوں کو پڑھا لکھا رہا تھا۔ اس کی اکلوتی بہن جوان ہو گئی تھی، جہیز بنانے کو اس کے پاس کافی رقم تھی، لیکن کوئی رشتہ نہیں آ رہا تھا۔ جس کسی کو پتا چلتا یہ موت کے کنووں پر ناچنے والے ممتاز کی بہن ہے، وہ دور ہی سے راستہ بدل لیتا۔ ممتاز کو دُکھ تھا تو اتنا کہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ فقط رُپے پیسے کے سہارے زندگی تو نہیں گزاری جا سکتی۔ اُس رُپے پیسے کا مصرف ہی نہ دکھائی دے تو ایسی دھن دولت بے کار شے لگتی ہے۔ ممتاز جب اپنی داستان سنا رہی تھی (سنا رہا تھا) تصوراتی آنکھ سے میں اس کی بہن کو ناچاری کی تصویر بنے دیکھ رہا تھا۔ اظہری کو ان باتوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس نے ممتاز کو چاہا تھا، اس نے اس رات ممتاز کو اپنے دُکھ سنانے کو نہیں بلایا تھا۔

صبح ہوئی تو اظہری میں مکھو اور ممتاز ہم چاروں گجرات انڈسٹریل ایریا کے بیچوں بیچ گزرتی جی ٹی روڈ کنارے کھڑے تھے۔ مکھو اور ممتاز کو گوجرانوالا کی بس میں بٹھا کے ہمیں لوٹ جانا تھا۔ ایسے میں ممتاز نے چونک کے اظہری سے کہا، ”تم میری بہن سے شادی نہیں کر لیتے؟ میں بھی اور۔۔۔ میری بہن بھی۔۔۔۔“ اظہری کو جیسے بجلی کے ننگے تار نے چھو لیا ہو۔ اُس نے انکار کر دیا۔ میں یہ سن کے زمین سے چپکا کھڑا رہ گیا، کب گوجرانوالا کی بس آئی، کب مکھو اور ممتاز سوار ہوئے؛ مجھ کو کچھ خبر نہ ہوئی۔ اظہری دُور کھڑا مجھ کو پکار رہا تھا، ”تم وہیں کھڑے ہو؟ آ جاو۔“ میں نے دیکھا وہ سڑک کے دوسری طرف چلا جا رہا ہے۔ ایک لمحے میں اپنی جگہ ٹکا رہا؛ دوسرے لمحے میں اظہری کی مخالف سمت چلنے لگا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran