رجعت پسند بمقابلہ ترقی پسند


ایک عرصے سے ترقی پسند اور رجعت پسند افکار باقاعدہ بر سر پیکار ہیں، یہ اختلاف بڑا ہی فطری ہے۔ اس میں جتنی بھی زحمت کا سامنا کرنا پڑے، اس اختلاف کو مٹانا کسی جرم سے کم نہیں۔ جو لوگ اس طرح کی کسی کوشش کا حصہ بنے ہیں، تاریخ ان کے ساتھ کبھی رعایت نہیں کرتی۔ حیرانی یہ ہے کہ جب امن کا موقف اختیار کیا جاتا ہے اور اس نعرے کو اپنے مکتب فکر کے ساتھ جوڑا کیا جاتا ہے، تو نجانے کس طرح دوسرے مکاتب کو نیست و نابود کر کے شانتی کا خواب دیکھتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کے سب باب کھلے ہیں، جارحیت کبھی بھی انسانی سماج کی تشکیل میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکی۔ جہاں تک جبری اور غاصبانہ حکمت عملی کا تعلق ہے تو اس ہتھکنڈے کو پسماندگی کے ذریعے ہی موثر بنایا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی ذی روح اپنی زندگی کے فیصلے کا حق کسی اور کو نہیں دے سکتا اور اگر یہ مشق کہیں ہو رہی ہے تو آنکھیں بند کر کے یقین کیجیئے کہ زبردستی اور دھونس دھمکی کے بنا یہ کام سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ ایک مخصوص سوچ جو قدامت پسندی کو مذہبی تصورات کے سہارے سماج میں رائج کرتی ہے دراصل اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ موزوں اور منطقی حوالہ جات کے ساتھ اپنے آپ کو بحال رکھ سکے یا پھر فروغ دے سکے۔

شعوری بلوغت کا دعویدار بننے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو کسی منطقی کسوٹی پہ پرکھیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے پرویز ہود بھائی کی پکڑ ہو رہی ہے۔ انہیں یہودی اور معلوم نہیں اور کیا کیا کہا جا رہا ہے۔ ان پہ سائبر لعنتیں برسائی گئیں ہیں۔ حیرت ہے کہ ہم جس کسی پہ چاہیں اپنی من پسند لغویات کی برسات کر دیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ مغرب میں کئی یہودی کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پہ آواز بلند کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں۔ غیر مسلموں کی بڑی تعداد جو مغربی ممالک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، وہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پہ بڑے رنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اور بھوک ہڑتال کی اطلاعات بھی ہیں۔ وہ سب مسلمان نہیں ہیں، لیکن انسان ہیں اور انسانیت کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی وہ واحد راستہ کے جس کے ذریعے انسانوں کے مشترکہ اثاثے سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اگر ہم سچ پہ یقین رکھتے ہیں تو ہمیں سچ کے لئے بہتر دفاع اور مناسب دلائل کا راستہ اختیار کرنا پڑیگا۔ کھلے ذہن کے ساتھ ہمیں تنقید کو سننا چاہیے اور پھر موزوں جواب دینا چاہیے۔ اسی صورت میں ہم مد مقابل کو قائل کر سکتے ہیں، جبکہ جنگ و جدل نے آج تک انسانوں کو بھوک اور ننگ کے علاوہ کیا دیا ہے۔

ایک وقت تھا کہ جب طاقت لڑنے کی صلاحیت کوماپنے کا پیمانہ تھی۔ اوائل میں جسمانی پھرتی، ساخت اور کشتی کے داؤ پیچ اس کا تعین کرتے تھے۔ پھر تیر اور تلوار کادور آیا، شمشیر زنی کی مہارت نے طاقت کی تعریف کی، اسی طرح تیر اندازی نے طے کیا کہ کونسے فریق کے پاس ماہر نشانہ باز ہیں۔ اسی سمت میں کام ہوتا رہا، آتشیں اسلحے کا زمانہ آیا پھر بارودی تاریخ رقم ہوئی، میزائل بنے، بموں کی اقسام پہ سائنس کو صرف کیاگیا۔ قیمتی انسانی وسائل کو جنگی تباہ کاریوں کے لئے استعمال کی گیا۔ سائنس کو دنیا میں جنگی مقاصد سے ہٹ کے اگراستعمال کیا گیاہے تو زیادہ تر منافع اور سرمائے کے حصول کے لئے کیا گیا۔ انسانی فلاح کے لئے سائنس سے جو مدد اب تک لی گئی ہے اس میں بھی بنیادی غرض سرمائے کی ہی تھی۔ اس قدر تلخ اور عبرت ناک انجام دیکھ کر بھی سائنسی گھوڑے کو شاہسوار سمیت جنگی جنون اور تعصب کے میدان میں دوڑایا جا رہا ہے۔ ہتھیاروں کی جدت اور ترقی میں جس سائنسی ہنر مندی کا اطلاق ہوتا ہے، اس لحاظ سے سائنس پہ اعتراض نہیں۔ جیسے ہی سائنس پرانے خیالات پہ تنقید کرتی ہے بلکہ ان کے راستے میں رکاوٹ کا با عث بنتی ہے تو مختلف حلقوں سے اعتراضات ہی نہیں بلکہ انتہائی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ شاید ایسی مزاحمتیں آگہی کے سفر کو جامد کر سکتی ہیں، دراصل اس وہم میں مبتلا افراد کو یہ جاننا پڑیگا کہ جس طرح گھڑی کی سوئی الٹی نہیں گھومتی بلکل اسی طرح سمے کا پہیہ بھی پیچھے کو حرکت نہیں کرتا۔ وقت کو اور اس کیرفتار کوہم اپنی خواہشات کے مطابق اپنی مٹھی میں بند نہیں کر سکتے۔ تمام علوم اور بلخصوص سائنسی انکشافات اور دریافتوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

ایک زمانے میں ستاروں اور سیاروں کی پرستش کی جاتی رہی، مظاہر فطرت کو کبھی اجسام کے طور پہ نہیں جانا گیا گیا تھا۔ پھر بعد میں شہابیے کو شیطانی مخلوق سمجھا گیا جس کے پیچھے فرشتے لپکتےبھاگتے تھے۔ سائنس نے اس حقیقت کو آشکار کیا۔ یقینا یہ اس دور میں ایک حیران کن بات تھی کہ زمیں سے باہر خلا ہے کہ جس میں یہ سب اجسام تیر رہے ہیں۔ زمیں بھی ایسا ہی ایک سیارہ ہے۔ قدامت پرستوں نے اس بات سے انکار کیا، لیکن آخر کب تک وہ ایسا کر سکتے تھے۔ ان کے وہمے خود ان کے ساتھ ہی چل بسے۔ جبکہ آنےوالے چاند پہ جا دھمکے۔

آج ہم ایک مختلف دنیا میں جی رہے ہیں، جس میں مظاہر فطرت کے بارے میں سوالات ہمیں بہت پرانے زمانے کے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کائنات کے جتنے راز پوشیدہ ہیں، سائنسی اور تحقیقی نطر انہیں کھوج رہی ہے۔ افراد کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے حقیقت کا پانسہ نہیں پلٹا جا سکتا اور نہ ہماری تمناؤں پہ اس سفر کا انحصار ہے۔ سائنس بربریت کے دور میں بھی اپنی ایک خاص رفتار کے ساتھ سفر میں رہی ہے اور آگے بھی اس سلسلے کو رواں رہنا ہے۔

تنگ نظری اور تعصب کو جو حمایت و حوصلہ مل رہا ہے اس کیوجہ یہی معلوم ہوتی ہےکہ دنیا میں بدامنی اور جنگی بازار کو کسی نہ کسی نام پہ زندہ رکھا جاتا ہے۔ یقینا اس تباہ حالی میں انسانی فلاح کی کوئی باریک سی امید کی کرن نطر نہیں آتی۔ البتہ اس سے جو برآمد نتیجہ ہے وہ یہ کہ سائنس کو مزید ہتھیاروں اور جاندار کش مہمات کے لئے استعمال کیا جائے، جبکہ اشتہارات میں انسانی فلاح کا ذکر کر کے اسے کار عظیم بنا دیا جائے۔ جان لیوا کیمیائی مواد کو انسانی ذائقے کی حس کے اطمینان کے لئے کھانے پینے کی مصنوعات میں استعمال کیا جائے۔ جدیدمشینری کے لئے مغربی ممالک سے تجارت میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور نہ ان کے عطیات میں ہمیں کوئی عیب نظر آتا ہے۔ مختلف آفات سے نبٹنے کے لئے جو امداد ہمارے ہاں آتی ہے، جو ماہرین رضاکارانہ طور پہ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اس پہ کسی اعتراض کی کوئی اخلاقی وجہ نہیں۔ مگر اس صورت میں ہم اپنی توپوں کارخ ان کی طرف موڑتے ہیں جب وہ ہماری توہم پرستی کو نشانہ بناتے ہیں۔ جب وہ عورتوں کی مساویانہ حیثیت کی بات کرتے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر پیروکاری قابل اصلاح ہے تو مریدی رجحان بھی قابل غور ہے۔ عقیدت ہمیں رواداری اور برداشت کی طرف اگر لے کے جائے تو پھر سمجھ لیجیے کہ صراط مستقیم ہے۔ سائنسی دریافتوں سے ڈرنے کی بجائے انہیں ماننا پڑیگا۔ جان لینا چاہیے کہ جہاز خلاؤں میں علم اور تجربے سے اڑا نہ کہ کوئی کرامت اسے اڑا سکی۔ اس نے بلا تفریق ہر شخص کے لئے سفر آسان کیا۔ عقل خدائی تحفہ ہے اور اس تحفے کی قدر کیجیے، اپنے خیالات میں کشادگی لایئے، دلیل سے قائل کیجیئے۔ زور اور زبان دراز ی سے سچ کو جھٹلانا ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).