عورت اور مرد…. رشتہ دشمنی کا نہیں، مساوات کا چاہیے


\"zeffer\"لگ بھگ ساٹھ پینسٹھ سال پہلے شروع ہونے والی کہانی ہے۔ ایک دیہاتی پس منظر والے مرد نے اپنی بیٹی کو اسکول بھیجا۔ خاندان میں چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں، کہ خان صاحب انگریز ہو گئے ہیں۔ خیر! ننھی بچی کا اسکول جانے پر کوئی طوفان نہ اٹھا۔ اسی بچی نے میٹرک میں نمایاں نمبروں سے کام یابی حاصل کی، تو \’خان صاحب\’ نے اپنی بیٹی کو کالج میں داخل کروا دیا۔ لیجیے جناب، برادری نے جرگے کی کال دے دی۔ کہا گیا کہ بچی کو کالج سے اٹھا لیا جاے، ورنہ حقہ پانی بند کر دیا جاے گا۔ خان صاحب بھی مرد بچہ تھے، جواب دیا، مجھے کوئی پروا نہیں۔

وقت گزرا، اسی لڑکی کی شادی ہو گئی۔ حالات ایسے ہوے کہ اس عورت کی، اپنے مرد سے نہ نبھی۔ اپنے دو بچوں کو لے کر، وہ باپ کے گھر آ گئی۔ باپ روشن خیال تھا، لیکن اتنا نہیں کہ بیٹی کو ملازمت کی اجازت دیتا، لیکن باپ کے مرتے ہی، اس عورت نے بھائیوں کے احتجاج کے با وجود، سرکاری اسکول میں استانی کی نوکری حاصل کرلی۔ گو کہ اس کے بھائی بہن کا ہاتھ تھامے رہے، بس کہنا یہ تھا کہ بھائی زندہ ہیں، تو بہن کیوں نوکری کرے۔ یہ عورت کہتی ہے، اگر میں تعلیم یافتہ نہ ہوتی تو لوگوں کے گھر برتن مانجھ کر گزارہ کرتی۔ اس عورت کی داستان، برادری کے لیے ایک مثال ثابت ہوئی۔ آج اس گاوں کی کوئی عورت ان پڑھ نہیں ہے۔

یہ میرے خاندان کی کہانی ہے۔ جہاں ایک مرد، عورت کی تعلیم کے حق کے لیے برادری سے کٹنا منظور کر لیتا ہے۔ جی ہاں ایک مرد۔ اور بھائی بہن کا ہاتھ تھامے رہتے ہیں۔ یہ بھی ہیں مرد۔ جب میں دیکھتا ہوں، کہ تعلیم یافتہ خواتین، مرد کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتی ہیں، تو مجھے یہی \’خان صاحب\’ یاد آ جاتے ہیں، یہ بھائی یاد آتے ہیں۔ جنھوں نے ایک \’عورت\’ کے حق کے لیے معاشرے کی سوچ کے مخالف سمت قدم بڑھایا۔ گو کہ اس عورت کی جس مرد سے نہ نبھی اس سے گِلہ اپنی جگہ، لیکن یہ خاتون کبھی روتی نہیں پائی گئی، کہ مرد کا معاشرہ ہے، میں کیسے جیوں۔ مرد وہی نہیں، جو چلتی ہوئی عورت کے کولھوں کا رقص دیکھتا ہے۔ مرد ذات وہ بھی ہے، جو عورت کی پشت پر کھڑا ہو کر اس کی طاقت بنتا ہے۔ بس دیکھنے کی بات ہے، کہ عورت پلٹ کر کس کی طرف دیکھتی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments