منٹو: پاگلوں کو ہوشمند بنانے کی کوشش کرنا جرم ہے


پس منظر (فرحیہ متعلق بہ المیہ)۔ ’کتاب اوپر نیچے اور درمیان‘۔

آج کی تازہ خبر سنی آپ نے؟
کوریا کی؟
جی نہیں۔
بیگم جونا گڑھ کی؟
جی نہیں۔
قتل و غارت کی کسی نئی واردات کی؟

کیوں؟ مر گیا؟
جی نہیں۔ کل گرفتار کیا گیا۔
فحاشی کے سلسلے میں؟
جی ہاں۔ ۔ ۔ ۔ پولیس نے اس کی خانہ تلاشی بھی لی۔
نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اخباروں میں لکھا تھا کہ اس کے مکان سے کوئی ناجائز چیز برآمد نہیں ہوئی۔
لیکن اس کا وجود بذات خود ناجائز ہے۔
جی ہاں۔ کم از کم حکومت تو یہی سمجھتی ہے۔
پھر اسے برآمد کیوں نہ کیا گیا؟
یہ برآمد اور درآمد کا معاملہ حکومت کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ جسے چاہے برآمد کرے جسے چاہے درآمد کرے۔ سچ پوچھئے تو یہ کام حکومتوں ہی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ وہ اس کا سلیقہ جانتی ہیں۔
اس میں کیا شک ہے۔

تو کیا خیال ہے آپ کا؟ اس مرتبہ تو منٹو کو پھانسی کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔
مل جائے تو اچھا ہے۔ ۔ روز کا ٹنٹا تو ختم ہو۔
آپ نے ٹھیک کہا۔ ”ٹھنڈا گوشت“ کے بارے میں ہائی کورٹ نے اس کے خلاف جو فیصلہ دیا ہے اس کے بعد اس کمبخت کو خود بخود مر جانا چاہیے تھا۔ میرا مطلب ہے خودکشی کر لینی چاہیے تھی۔
اگر وہ اس کوشش میں ناکام رہتا؟
تو اس پر یقیناً مقدمہ چلتا کہ اس نے اپنی جان لینے کی کوشش کی۔
میرا خیال ہے یہ وجہ ہے کہ وہ خودکشی سے باز رہا۔ وگرنہ وہ باز رہنے والا آدمی نہیں ہے۔
تو آپ کا مطلب ہے کہ وہ اپنی فحاشی جاری رکھے گا؟
اجی حضرت! یہ اس پر پانچواں مقدمہ ہے۔ اگر اسے باز رہنا ہوتا تو پہلے مقدمے کے بعد ہی تائب ہو کر کوئی شریفانہ کام شروع کر دیتا۔
مثال کے طور پر گورنمنٹ کی ملازمت کر لیتا، گھی بیچتا، یا محلہ پیر گیلانیاں کے غلام احمد صاحب کی طرح کوئی دوا ایجاد کر لیتا۔
جی ہاں۔ ایسے سینکڑوں شریفانہ کام ہیں مگر وہ پرلے درجے کا ہٹ دھرم ہے۔ لکھے گا اور ضرور لکھے گا۔
معلوم ہے آپ کو اس کا انجام کیا ہو گا؟
کچھ برا ہی نظر آتا ہے۔

چھ مقدمے اس پر پنجاب میں چل رہے ہوں گے، دس سندھ میں، چار صوبہ سرحد میں اور تین مشرقی پاکستان میں۔ ۔ ۔ وہ ان کی تاب نہ لا کر پاگل ہو جائے تو پاگل خانے میں آرام سے رہے۔
پاگل ہو کر کیا کرے گا؟
پاگلوں کو ہوشمند بنانے کی کوشش کرے گا۔
یہ بھی جرم ہے۔
معلوم نہیں۔ ۔ ۔ یہ کوئی وکیل ہی بتا سکتا ہے کہ تعزیرات پاکستان میں اس کے لئے کوئی دفعہ موجود ہے یا نہیں۔
ہونی چاہیے۔ ۔ ۔ پاگلوں کو ہوشمند بنانا 292 کی روشنی میں تو بہت خطرناک جرم معلوم ہوتا ہے۔
دفعہ 292 کے بارے میں تو اب ہائی کورٹ نے ’ٹھنڈا گوشت‘ کا فیصلہ کرتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ قانون کی مصنف کی نیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ نیک ہو یا بد، قانون کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ میلان کیا ہے۔
اسی لئے تو میں عرض کر رہا تھا کہ پاگلوں کو ہوشمند بنانے کے فعل میں نیت کیسی بھی ہو، اس کے میلان کے زیر غور رکھنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ اس فعل کا میلان کسی صورت میں بھی بے ضرر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ قانونی موشگافیاں ہیں۔ ان سے ہمیں دور رہنا چاہیے۔
آپ نے بہت اچھا کیا جو بروقت تنبیہ کر دی۔ ۔ ۔ کیونکہ ایسی باتوں کے متعلق سوچنا ہی ازخود ایک بڑا سنگین جرم ہے۔

لیکن حضرت۔ ۔ ۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر منٹو سچ مچ پاگل ہو گیا تو اس کے بیوی بچوں کا کیا ہو گا؟
اس کے بیوی بچے جائیں جہنم میں۔ قانون کو ان سے کیا واسطہ۔
درست ہے۔ ۔ ۔ لیکن حکومت کیا ان کی مدد نہیں کرے گی؟
ہاں۔ ۔ ۔ حکومت۔ ۔ ۔ حکومت کی بات جدا ہے۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ اسے مدد کرنی چاہیے۔ ۔ ۔ اور کچھ نہیں تو اخباروں میں اس بات کا اعلان کر دینا چاہیے کہ وہ اس کے متعلق غور کر رہی ہے۔
جب تک غور ہو گا تب تک معاملہ صاف ہو جائے گا۔
ظاہر ہے۔ ۔ ۔ اب تک ہوتا تو ایسا ہی رہا ہے۔

لعنیت بھیجیے منٹو اور اس کے بیوی بچوں پر۔ ۔ ۔ آپ یہ بتائیے ہائی کورٹ کے فیصلے کا اردو ادب پر کیا اثر ہو گا۔
اردو ادب پر بھی لعنت بھیجیے۔
نہیں صاحب، ایسا نہ کہیے۔ ۔ ۔ سنا ہے کہ ادب قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔
لاکھ روپے کی بات کہی آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ تو مومن، میر، احسن، شوق، سعدی، حافظ وغیرہ سب دفعہ 292 صاف کر دے گی؟
کرنا چاہیے۔ ۔ ۔ ورنہ اس کے وجود کا مطلب ہی کیا ہے؟

یہ جتنے ادیب اور شاعر بنے پھرتے ہیں اب ان کو چاہیے کہ ہوش میں آئیں اور کوئی شریفانہ پیشہ اختیار کریں۔
لیڈر بن جائیں۔
صرف مسلم لیگ کے۔
جی ہاں۔ میرا مطلب یہی تھا۔ کسی اور لیگ کا لیڈر بننا فحش ہے۔
بے حد فحش۔

لیڈری کے علاوہ اور بھی شریفانہ پیشے موجود ہیں۔ ڈاک خانوں کے باہر بیٹھ کر پاکیزہ عبارت میں خطوط نویسی کریں۔ دیواروں پر اشتہار لکھیں۔ بیروزگاروں کے دفتر میں کلرک ہو جائیں۔ نیا نیا ملک ہے۔ ہزارہا آسامیاں خالی ہیں۔ کہیں بھی سما جائیں۔
جی ہاں۔ ۔ ۔ اتنی زمین پڑی ہے۔

حکومت سوچ رہی ہے کہ طوائفوں اور رنڈیوں کے لئے راوی کے پاس ایک بستی بنا دے تاکہ شہر کی غلاظت دور ہو۔ کیوں نہ ان شاعروں، افسانہ نگاروں اور ادیبوں کو بھی ان میں شامل کر لیا جائے۔
بہت اچھا خیال ہے۔ یہ لوگ وہاں خوش رہیں گے۔
لیکن انجام کیا ہو گا؟
انجام کی کون سوچتا ہے۔ جو ہونا ہو گا ہو جائے گا۔
ہاں۔ وہاں پڑے جھک مارتے رہیں۔ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ فحاشی کو فحاشی کاٹتی رہے گی۔
بڑا دلچسپ سلسلہ رہے گا۔
منٹو کو تو خاص طور پر اپنی دلچسپی کا من بھاتا سامان مل جائے گا۔
لیکن وہ کم بخت ان کا مجرا سننے کی بجائے ان کے بارے میں لکھے گا۔ کئی سوگندھیاں کئی سلطانائیں پیش کرے گا۔
کئی خوشیا۔ کئی ڈھونڈو۔

معلوم نہیں کم بخت کو ایسے گرے ہوئے انسانوں کو اٹھانے میں کیا مزہ آتا ہے۔ ۔ ۔ ساری دنیا انہیں ذلیل اور حقیر سمجھتی ہے مگر وہ ان کو سینے سے لگاتا ہے، ان کو پیار کرتا ہے۔
اس کی بہن عصمت نے اس کے متعلق کچھ ٹھیک ہی کہا تھا کہ منٹو کو عجیب و غریب تہلکہ ڈال دینے والی اور سوتوں کو چونکا دینے والی چیزوں سے بڑی رغبت ہے۔ وہ سوچتا ہے اگر بہت سے لوگ سفید کپڑے پہنے بیٹھے ہوں اور کوئی کیچڑ مل کر وہاں چلا جائے تو سب ہکا بکا رہ جائیں گے۔ سب لوگ رو پیٹ رہے ہوں وہاں ایک اونچا قہقہہ لگا دو تو سب دم سادھ کر ٹکر ٹکر منہ دیکھنے لگیں گے۔ بس دھاک بیٹھ جائے گی۔ سکہ جم جائے گا۔

اس کا بھائی ممتاز حسین کہتا ہے۔ وہ نیکی کی تلاش میں نکلتا ہے اور اس کی ایک کرن ایسے انسان کے پیٹ سے نکالتا ہے جس کے بارے میں آپ اس قسم کی کوئی توقع ہی نہیں رکھتے۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے منٹو کا کارنامہ۔
یہ بڑی لغو حرکت ہے بلکہ فحش حرکت ہے کہ ایسے انسان کے پیٹ سے روشنی کی ایک کرن نکالی جائے، جس میں سوائے انتڑیوں اور فضلے کے اور کچھ نہ ہو۔
اور کیچڑوں کے سفید پوش لوگوں کے درمیان کود پڑا۔
یہ اور بھی فحش ہے۔
یہ اتنی کیچڑ لاتا کہاں سے ہے۔
معلوم نہیں۔ ۔ ۔ کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ نکالتا ہے۔ ۔ ۔
گندگی کا غواص جو ٹھہرا۔

آئیے ہم دعا مانگیں کہ خدا ہمیں اس کے لعنتی وجود سے نجات دلائے۔ اس میں خود منٹو کی بھی نجات ہے۔
اس میں کیا شک ہے۔

اے خدا۔ ۔ ۔ اے رب العالمین۔ ۔ ۔ اے رحیم، اے کریم۔ ہم دو گنہگار بندے تیرے حضور گڑگڑا کر دعا مانگتے ہیں کہ تو سعادت حسن منٹو کو جس کے والد کا نام غلام حسن منٹو ہے اور جو بہت شریف، پرہیز گار اور خدا ترس آدمی تھا، اس دنیا سے اٹھا لے جہاں وہ خوشبوئیں چھوڑ دیتا ہے اور بدبوؤں کی طرف بھاگتا ہے۔ نور میں وہ اپنی آنکھیں نہیں کھولتا، لیکن گندگی میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ ستر سے اس کو کوئی دلچسپی نہیں، وہ انسانوں کا ننگ دیکھتا ہے۔ مٹھاسوں سے اسے کوئی رغبت نہیں، کڑواہٹوں پر البتہ جان دیتا ہے۔ گھریلو عورتوں کی طرف وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، لیکن بیسواؤں سے گھل مل کر باتیں کرتا ہے۔ صاف اور شفاف پانی چھوڑ کر بدروؤں میں نہاتا ہے۔ جہاں رونا ہے وہاں ہنستا ہے۔ جہاں ہنسنا ہے وہاں روتا ہے۔ کوئلوں کی دلالی میں جو اپنا منہ کالا کرتے ہیں ان کی کالک صاف کر کے ہمیں دکھاتا ہے۔ تجھے بھول کر شیطان کے پیچھے مارا مارا پھرتا ہے۔ جس نے تری عدول حکمی کی تھی۔

اے رب العالمین۔ ۔ ۔ اس شر انگیز، نجس پسند اور شریر انسان کو اس دنیا سے اٹھا لے جس میں وہ بدکرداروں اور بد اطواروں کے نامہ اعمال کی سیاہیاں مٹانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ۔ ۔ اے خدا! وہ بہت شرپسند ہے۔ عدالتوں کے فیصلے اس کا ثبوت ہیں لیکن یہ ارضی عدالتیں ہیں۔ تو اسے اس دنیا سے اٹھا اور اپنی آسمانی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلا اور اس کو قرار واقعی سزا دے، لیکن دیکھ اسے ادائیں بہت آتی ہیں۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو تجھے اس کی کوئی ادا پسند آ جائے۔ لیکن تو سب کچھ جاننے والا ہے، ہماری صرف یہ دعا ہے کہ وہ اس دنیا میں نہ رہے، رہے تو ہم جیسا بن کر رہے جو ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔

کتابت ’ہم سب‘

28 مئی 1952


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).