اور اب قائد اعظم یونی ورسٹی کے ڈنڈا بردار


قائد اعظم یونی ورسٹی میں بھی طلباء نے ڈنڈے اٹھائے، ایک دوسرے پر برسائے اور گالی گلوچ کے ذریعے اپنے اندر کی گندگی کا کچھ حصہ باہر انڈیلا۔ تنازع کی وجہ کیا تھی، اس پہ بحث نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے کس راہ پہ گامزن ہیں؟ ان اداروں کے اندر کیا پڑھایا اور سکھایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں عدم برداشت اور تشدد کے عناصر روز افزوں ہیں۔ قائدا عظم یونی ورسٹی میں کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جس سے یقینی طور پر یک جہتی، باہمی احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ فروغ پذیر ہونا چاہیے لیکن گزشتہ دن طلباء نے آپس میں ایک دوسرے پر ڈنڈے برسا کر اچھی یک جہتی، باہمی احترام اور برداشت کا ’بے مثال‘ مظاہرہ کیا۔

قائدا عظم یونی ورسٹی کا تنازعہ نسلی و لسانی تعصب کا شاخسانہ بتایا جاتا ہے اور اس سے قبل لاہور میں بھی یونی ورسٹی میں مار دھاڑ کی وجہ نسلی و لسانی اور مذہبی و نظریاتی سامنے آئی تھی لیکن کچھ معتبر صحافیوں اور کالم نگاروں نے ان اصل وجوہات پر دانستہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ان کے خیال میں نسلی و لسانی تعصبات کو ہوا دے کر شاید وطن عزیز کی یک جہتی کو نقصان پہنچا یا جاسکتا ہے لیکن ہم اس حقیقت سے کب تک چشم پوشی اختیار کرتے رہیں گے کہ پاکستان میں ایسے تعصبات موجود ہیں اور ان کا راستہ ہمارے ماضی اور حال کے ضیائی سوچ کے حامل بعض اکابرین نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے کھول دیا ہے۔ جب تک ہم یہ تلخ حقیقت تسلیم نہیں کریں گے اور اس مسئلہ کی اصل وجوہات کی جڑیں نہیں کھوجیں گے، اس وقت تک ہم نہ صرف ان کے مضمرات کا سامنا کرتے رہیں گے بلکہ اس کے تدارک کے لیے اٹھایا جانے والا ہمارا ہر عارضی قدم عارضی ہی ثابت ہوتا رہے گا۔

مردان کی عبدالولی خان یونی ورسٹی کا سانحہ ابھی تازہ ہے۔ وہاں پہ طلباء نے جس بربریت اور درندگی کا مظاہرہ کیا تھا، اس پہ ہر باشعور اور حساس اہل وطن ایک اذیت سے گزر رہا ہے۔ اس کے بعد مردان میں بعض مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے جس طرح اکھٹے ہو کر مشال خان کے خلاف اور ان کے قاتلوں کے حق میں جلوس نکالا، اس نے مزید واضح کردیا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے سنگ دل اور بے حس لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو مذہب کے نام پر ظلم اور بربریت کو تقویت دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں کسی انسان کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔ اپنی مذہبی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے وہ مذہبی تعلیمات کی تشریح بھی اپنے مفادات کے اسیر بن کر کرتے ہیں اور معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی اور مذہبی جنونیت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہمہ وقت متحرک بھی رہتے ہیں۔

کسی مہذب معاشرے میں جب اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات پے درپے رونما ہوتے ہیں تو حکمران، سیاست دان، دانش ور اور دوسرے مقتدر ادارے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے اسباب و علل معلوم کرتے ہیں اور پھرایسے ناخوش گوار اور مہلک واقعات کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے حکمران، سیاست دان، مذہبی جماعتیں اور اصل مقتدر ادارے اپنے ذاتی، سیاسی اورمذہبی مفاد اور اثر و رسوخ کے دوام کے لیے آپس میں برسر پیکار ہیں۔ پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا جن موضوعات کو زیربحث لاتا ہے، ان کا تعلق حکمرانوں، سیاست دانوں اور اقتدار کے ایوانوں سے ہوتا ہے۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت، مذہبی شدت پسندی اور نسلی و لسانی افتراق کے نتیجے میں جو غیرمعمولی سماجی تھوڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے، اس پہ سنجیدگی سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ میڈیا کے ادارے، سیاسی رہنما، مذہبی جماعتیں اور مقتدر حلقے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں قوم با الخصوص نئی نسل کی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے قول و فعل سے معاشرے میں انتشار و افتراق بڑھ رہا ہے۔ قومی یک جہتی کا تصور ختم ہو رہا ہے اور صوبائیت و لسانیت کے اختلافات بتدریج نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں خرابیاں تو روزِ اوّل سے واضح ہیں لیکن یونی ورسٹیوں کی سطح پر جو پُرتشدد واقعات سامنے آ رہے ہیں، یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک الارمنگ صورتِ حال ہے۔ تعلیم اگر انسانیت کا شرف اُجاگر نہ کرسکے، برداشت اور رواداری کے جذبات کو فروغ نہ دے سکے اور رویوں میں تہذیب اور شائستگی کی لطافت پیدا نہ کرسکے تو سمجھنا چاہیے کہ ملک و قوم کا مستقبل مخدوش ہے۔

ہمیں سوچنا چاہیے، ملک کے مقتدرین کو غور و فکر کرنا چاہیے اور میڈیا کے تمام ذرائع کو اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے ورنہ سماجی بگاڑ اور قومی تباہی کے جس راستے پہ ہم گامزن ہیں، اس کے لیے ہمیں کسی بیرونی دشمن سے نہیں اپنے آپ سے ڈرنا چاہیے۔ اپنے رویوں اور اپنے قول و فعل کے تضاد سے ڈرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).