بامعنی نوٹنکی سے ذو معنی جگت بازی تک


پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی ایوارڈز کی تقریبات ہوئیں۔ ابھی تک اس پروگرام کو آن ایئر نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کی کچھ جھلکیاں ہمیں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی۔ ان جھلکیوں میں ایک خبر یہ بھی تھی کہ ڈرامہ سیریل ’’ اڈاری‘‘ کے فنکار احسن خان جب سٹیج پراپنا ایوارڈ وصول کرنے آئے تو ان کے ایک ساتھی فنکار یاسر حسین نے انہیں کہا کہ ایسا خوبصورت Child Molester، کاش میں بھی بچہ ہوتا۔ اس پر ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی کافی محظوظ ہوئے اور ہنس کر تالیاں بجائیں۔ یاسر حسین کے اس عمل کو سوشل میڈیا پر کافی ناپسند کیا گیا۔ اور بعد میں انہوں نے اپنے اس فعل پر قوم سے معافی بھی مانگی۔ جی ہاں! یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جیسے مذاق میں کیا جاتا۔ بچے کی جسمانی ایذا رسانی کیا ہوتی ہے۔ اس کا شکار ہونے والے بچے کس تکلیف اور کرب سے گزرتے ہیں۔ اس کا اندازہ تو وہ بچہ کرسکتا ہے۔ یا پھر خدا وند تعالیٰ کی ذات۔ جسمانی ایذا رساں انسان نما جانور ہوتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یاسر حسین نے مزاح میں بھی ایسی بات کیوں کہی۔ اگر چہ وہ اپنے اس رویے پر معافی مانگ چکے ہیں۔ اور کیا ہال میں بیٹھے ہوئے فنکاروں کو اس پر تالیاں بجانی چاہیے تھی۔ یہ فنکار لوگ اندر سے بڑے حساس ہوتے ہیں کیونکہ یہ معاشرے کے حساس موضوعات کو اپنے اوپر طاری کر کے اس نوٹنکی کو ہمیں سچ کر کے دکھاتے ہیں اور وہ بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان حساس لوگوں میں بھی یہ سوچ پنپ رہی ہے تو لمحہ فکریہ ہے

آج اس تحریر کو لکھنے کے لئے جس واقعہ نے مجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا۔ وہ ایک بی بی سی اردو کا آرٹیکل تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ یاسر حسین جیسی سوچ اور رویہ ہمارے معاشرے میں کس جز کی عکاسی کر رہا ہے۔ تو یہاں میں توجہ سٹیج ڈراموں کی طرف دلانا چاہوں گی۔

وطن عزیز میں تین طرح کے ادارے ہیں۔ جہاں فنکار ہمارے لئے تفریح کا سامان پید ا کرتے ہیں۔ پہلا ڈرامہ، دوسرافلم اور تیسرا سٹیج۔ ڈراموں کو تو ہم گھر بیٹھے ٹی وی کے ذریعے دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن فلم اور سٹیج کے لئے ہمیں ٹکٹ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں کیبل نے سٹیج ڈرامہ دیکھنے کے لیے سہولت پیدا کردی ہے۔

تھیٹر کی کیا اہمیت ہے۔ یہ پہلے وقتوں میں کیا تھا۔ اور اب کیا ہوگیا ہے۔ اس پر بات کرنا بے حد ضروری ہے۔ تھیڑ ایک ایسی عمارت ہوتی ہے جہاں حاضرین جمع ہوکر ڈرامہ یا نائک دیکھنے آتے ہیں۔ برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کے زمانے میں تھیٹر کی بنیاد پڑی۔ اور سب سے پہلا مستقل تھیٹر لندن میں بنایا گیا۔ برصغیر میں زمانہ قدیم سے نائک اور نوٹنکیاں ہوتی آرہی ہے۔ پہلے وقتوں میں ڈرامہ یا نوٹنکی دیکھانے کے لئے فنکار شہروں میں گھوم گھوم کر دکھاتے تھے پھر جیسے جیسے جدت آتی گئی، زمانے کے تقاضے بدلنے لگے۔ ٹھیک اسی طرح تھیٹر بھی اپنی شکل بدلنے لگا۔ شیکسپیئر کو سٹیج ڈراموں میں جو عروج حاصل ہوا۔ وہ آج تک کوئی حاصل نہ کرسکا ہے۔ ان کے ڈرامے موجودہ دور کے بچوں میں بھی ویسے ہی مقبول ہے۔ جیسے پچھلے ادوار میں 1929میں انارکلی کے نام سے ایک کھیل پیش کیا گیا تھا۔ جو اردو سٹیج ڈارموں کی زینت بنا۔ اور بعد ازاں فلم سازوں نے اس پر مغل اعظم جیسی شاہکار بنائی۔ 1980میں جب عمر شریف نے سٹیج ڈراموں کی دنیامیں قدم رکھا تو آتے ہی چھا گئے۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف وطن عزیز بلکہ ہمسایہ ملک میں بھی ہوتا ہے۔ وہ معین اختر مرحوم کے بعد واحد طنز و مزاح کے مقبول فنکار تھے۔ پچھلے دور میں سٹیج نے بہت اچھے ڈرامے بنائے۔ جن میں شرطیہ مٹھے، کالی چادر، فیقہ ان امریکہ ہے۔ یہ ڈرامے اور ان میں کام کرنے والے فنکار نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک میں بھی شہرت پاچکے ہیں۔

جیسے جیسے ہمارے وطن میں ڈش، کیبل، گھروں کی زینت بنا۔ ویسے ویسے تھیٹر کا ماحول بھی بدلنے لگا۔ اب تھیٹر مکمل طور پر کمرشل بن گیا ہے۔ وہاں کہانی کی جگہ دو معنی جگت بازی اور ڈانس نے لے لی ہے۔ سٹیج اب فیملی کی تفریح کا ذریعہ بھی نہیں ہے۔ پہلے لوگ طنز و مزاح کو سننے کے لیے 1000۔ 1200کا ٹکٹ لیتے تھے۔ اب جگت بازی کو سننے کے لیے ماہوار 300 روپے میں گھر بیٹھ کر کیبل کے ذریعے یہ سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اس سے کیا ہوا ہے ہمارا پورا معاشرہ جگتیں لگانے لگ گیا ہے اور موجودہ نسل اسے ہی طنز و مزاح سمجھ رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے انہیں دکھایا ہی یہی سٹیج ڈرامہ ہے۔ ہمارا المیہ بن گیا ہے کہ ہم نے ہر سنجیدہ مسئلے میں بھی جگت کا رنگ بھرنا ہے۔ قصور اس سوچ کا نہیں ہے جوکہ پیدا ہوچکی ہے۔ بلکہ قصور اس کے پیدا کرنے والوں کا ہے جنہوں نے اسے پروان چڑھایا ہے۔ اور شاید یاسر حسین کی سوچ کے پیچھے بھی اسی قسم کے سٹیج ڈرامے کی جگت بازی یا پھر طنز و مزاح ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).