فیمنسٹ بنیے (1)


 فیمینزم کے بارے میں‌ صرف پچھلے دو تین برس میں زیادہ سوچ بچار کی۔ خوش قسمتی سے مجھے اپنی زندگی میں‌ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے کوئی بہت زیادہ پرابلمز پیش نہیں‌ آئیں۔ جو دل چاہا پڑھا، کھایا پکایا، اپنی مرضی سے شادی کی، دو بچے ہیں‌، جاب بھی ہے، ہماری زندگی اچھی ہے۔

مندرجہ ذیل مضمون ہم سب گروپ کے فیس بک پیج پر ایک صاحب کی پوسٹ سے متعلق ہے۔ انہوں‌ نے ایک سطحی مضمون لکھا۔ اس کو پڑھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں‌ نے اس کے نیچے لکھا تھا کہ آپ غلط ہیں۔ تو انہوں‌ نے لکھا کہ آپ صحیح‌ بتا دیں تو یہ میرا صحیح‌ ہے۔ اور وہ میں‌ اپنے لئے نہیں‌ بلکہ اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کی نسل کے لئیے لکھ رہی ہوں۔

فیمینزم کا مطلب یہ نہیں‌ ہے کہ جینڈرز کو ایک جیسا بنا دیا جائے۔ جینڈرز صرف دو بھی نہیں‌ ہیں۔ جینڈر کالی یا سفید نہیں بلکہ ایک اسپیکٹرم ہے۔ مرد اور عورت کی سادہ اور جعلی تقسیم انسانی تاریخ‌ میں‌ نسبتاً نئی پدرانہ سوچ کی ایجاد ہے جس کا ریکارڈ قریب پانچ ہزار سال پہلے تک ملتا ہے۔ ریڈ انڈین کم از کم پانچ جنسوں‌ کو سمجھتے تھے۔ اس میدان میں‌ بہت ریسرچ ہورہی ہے اور وقت کے ساتھ جنسوں اور معاشرے میں‌ ان کے کردار کے بارے میں‌ اور جاننے لگیں‌ گے کہ کون سے کردار قدرتی ہیں‌ اور کون سے تربیت کی پیداوار ہیں۔

جو پہلے زمانے کے انسان تھے ان کے مذاہب آسمان اور زمین‌ سے جڑے تھے۔ وہ سورج کو باپ اور زمین کو ماں‌ سمجھتے تھے اور وہ زمین کی عزت کرتے تھے کہ یہ ہمیں‌ زندگی دیتی ہے۔ پھر جو مونوتھی اسٹک تھیالوجی (توحیدی الہٰیات) کی سوچ سامنے آئی تو اس کے مطابق زمین اور چرند پرند سب کچھ انسان یعنی مرد کے لئیے بنایا گیا ہے تاکہ وہ ان سب چیزوں کو اپنے فائدے، آرام اور خوشیوں‌ کے لئیے استعمال کرے۔ یہ سوچ ایک آدمی خود کو کائنات کا مرکز بنا کر رکھتا ہے اور اس کے لئیے اس نے کہانیاں‌ بھی بنا رکھی ہیں جو ہر نسل کو شروع سے پڑھاتا ہے تاکہ اسی طرح‌ کا ذہن تشکیل دیا جاسکے۔ اور وہ ہی ہم دیکھ رہے ہیں‌ کہ نسل در نسل ہو رہا ہے۔

مسٹر:

“چارلس فورئیر کی متعارف کردہ اصطلاح ” فیمینیزم ” جو فرانس میں 1837، برطانیہ میں 1890 اور یو-ایس میں 1910 ء میں سامنے آئی دراصل خواتین کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں مردوں کی برابری کا نظریہ ہے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاشرے میں خواتین کے حقووق تسلیم کیئے جائیں۔ ان حقوق میں حق رائے دہی، نوکری کرنے کا حق، مردوں کے برابر تنخواہ کا مطالبہ، حق وراثت، جائداد کی ملکیت کا حق، ازدواجی زندگی میں برابر حقوق کا مطالبہ اور خواتین کی گھریلو تشدد اور جنسی ایذا دہی سے حفاظت وغیرہ شامل تھے ۔۔۔ مذکورہ ممالک غیر اسلامی ریاستیں تھیں جن میں خواتین کا حال عرب کے زمانۂ جاہلیت کے حال سے زیادہ خراب تھا ۔”

جواب:

یہاں پر اس نقطے پر غور ضروری ہے کہ کیا واقعی عرب میں‌ ایک زمانہ جاہلیت تھا جس میں‌ خواتین کی حالت اسلام شروع ہونے سے پہلے خراب تھی؟ کئی تاریخ دان لکھاریوں‌ نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ اسلام شروع ہونے سے پہلے عرب سوسائٹی ایک ایگالیٹیرین سوسائٹی تھی جس میں‌ خواتین کوحقوق حاصل تھے۔ کچھ لکھے ہوئے ریکارڈ کے مطابق عرب خواتین کے اپنے کاروبار بھی تھے۔ اس کے بعد کچھ جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ اسلام کے شروع کے دنوں‌ میں‌ بھی مسلمان خواتین کی غیر مسلمان خواتین کے مقابلے میں‌ اپنے گھروں‌ میں‌ اپنے شوہروں‌ سے زیادہ پٹائی ہوتی تھی۔ اسلام سے پہلے بھی دنیا میں‌ ایسی تہذیبیں موجود تھیں‌ جن میں‌ خواتین کا رتبہ اچھا تھا جیسا کہ ہم اسپارٹا کی خواتین کے بارے میں‌ جانتے ہیں۔ ایک مرتبہ کوئی باہر کا بندہ اسپارٹا آیا ہوا تھا۔ اس نے اعتراض کیا کہ یہ خاتون ہمارے ساتھ کیوں‌ چل رہی ہیں اور یہ کیسے ہم سے بات کر رہی ہیں تو ان خاتون نے جواب دیا کہ وہ اس لئے کہ صرف اسپارٹن خواتین ہی اصلی مرد جنم دیتی ہیں۔

مسٹر:

” معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے ان کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا، ان کی ضروریات اور ذمہ داری پوری کرنا کسی انسان پر فرض نہیں تھا،انکا تعلیم حاصل کرنا ضروری تصور نہ کیا جاتا تھا، ان کو ازدواجی زندگی میں بنیادی حقوق دینا بھی ضروری نہیں تھا اور انکی ” حفاظت ” کے لئےبھی کوئی قانون نہیں تھا ۔ اس اندھیرے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لئےآواز اٹھانے کا مقصد یہ تھا کہ اس سسٹم کے مین میڈ سیاسی نظام میں ان کی آواز سنی جائے اور ان کے مطالبات پیش کیئے جانے کا امکان پیدا ہو سکے تا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق قانونی طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوں ۔۔۔ جن خواتین کی ضروریات پوری کرنے ولا کوئی نہیں ہے، ان کو کمانے کا حق ملے، ۔۔ جو خواتین مردوں کے برابر کام کرتی ہیں انہیں تنخواہ بھی برابر ملے ۔ ان کو وراثت میں حق دیا جائے، ان کو جائداد میں حصہ دیا جائے ۔ ان کو ازدواجی زندگی کے معاملات میں اختیارات دیئے جائیں، ان کی حفاظت کا انتظام کیا جائے ۔۔۔ واقعی ایک ایسے سیٹ اپ میں جس میں عورتوں کے حقوق کا کوئی تصور ہی نہ تھا ۔۔ یہ بات کافی خوشنما محسوس ہوتی ہے کہ خواتین گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے ساتھ ساتھ نوکری بھی کریں اور ان کو دوہری مشقت کے بعد ان سے آدھا کام کرنے والے مردوں کے برابر تنخواہ مل جائے ۔۔ جن کے مردوں پر ان کی ضروریات کا پورا کرنا فرض نہیں ہے ۔ وہ یہ کام محنت مشقت کرکے خود کر لیں ۔ جن کو تعلیم دینا فضول خیال کیا جاتا ہے، ان کو تعلیم مل جائے ۔۔ شادی کے معاملات میں اپنی رائے کا حق مل جائے ۔ وراثت میں سے حصہ مل جائے، جائداد رکھنے کا حق مل جائے تاکہ وہ اپنی پرانی بے بس زندگی کی طرح کسی پر منحصر نہ رہیں بلکہ معاشی طور پر مضبوط ہو جائیں ۔

یہ تو اس معاشرے کا حال تھا جس کے پاس اس سے بہتر کوئی طریقہ یا تدبیر نہیں تھی اپنی خواتین کو تحفظ دینے کے لئے۔۔۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ مسلم ممالک کے آزاد خیال باشندے بھی فیمینزم کے خوشکن نظریئے کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں اس بات کا احساس کیئے بغیر کہ انسانوں کے بنائے یہ “حقوق ” سطحی طور پر جتنے بھی خوشنما نظر آئیں ۔۔ ان کی بنیادیں کھوکھلی ہیں ۔”

جواب:

پہلے مصنف نے خود بتایا ہے کہ خواتین کے حقوق کے لئیے یہ قوانین کیوں‌ بنائے گئے اور پھر وہ کہہ رہے ہیں‌ کہ ان حقوق کی بنیادیں‌ کھوکھلی ہیں۔

مسٹر:

” یہ جن کے لیئے بنائے گئے ہیں ان کو مکمل طور پر فائدہ دینے سے قاصر ہیں ۔”

جواب:

مکمل فائدہ کی تعریف ضروری ہے۔ آج ایک امریکی خاتون ہونے کی حیثیت سے میں‌ بینک اکاؤنٹ کھول سکتی ہوں، کریڈٹ کارڈ خرید سکتی ہوں، گاڑی چلا سکتی ہوں، اکیلے باہر جاسکتی ہوں، مکان خرید سکتی ہوں، بغیر ہراساں کئیے کام پر جا سکتی ہوں، اپنے شوہر کو چھوڑ کر آدھی جائداد اور اپنے بچے رکھ سکتی ہوں، اپنے باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ رکھ سکتی ہوں، اپنے بچے پال سکتی ہوں، میری تنخواہ میرے پارٹنر کے برابر ہے۔ یعنی کون سے فائدے ہیں‌ جو ابھی حاصل نہیں‌ ہیں؟ وہ ہمیں‌ معلوم ہی ہیں لیکن آپ بھی ضرور بتائیے تاکہ ان کو اگلے الیکشن میں‌ بہتر امیدوار چننے کے لئیے استعمال کیا جائے۔

(جاری ہے)

(محترمہ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا، بد قسمتی سے مجھے بالکل یاد نہیں آ رہا کہ جس مضمون کی طرف آپ اشارہ فرما رہی ہیں وہ “ہم سب” پر کب شائع ہوا اور کس کی تحریر تھی۔ مدیر)

http:// http://www.humsub.com.pk/64511/lubna-mirza-61/http://www.humsub.com.pk/64511/lubna-mirza-61/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).