فیمنسٹ بنیے (2)


مسٹر :

” اللہ تعالیٰ نے” گھر ” کو معاشرے کی بنیاد بنایا ہے ۔ اس گھر کے دو جز ہیں ۔ مرد اور عورت ۔۔ مردوں کو مضبوط بنایا گیا اور عورتوں کی ذمہ داری ان کو دی گئی، وہ عورت بہن ہو، بیوی ہو، بیٹی ہو، ماں ہو ۔۔ اس کی ضروریات کا خیال اس کے بھائی، شوہر، باپ، بیٹے کو کرنا ہے ۔۔ اس لئے نہیں کہ عورت کمزور ہے یا وہ مردوں پر بوجھ ہے بلکہ اس لئے کہ وہ ان کی ذمہ داری، ان کا فرض ہے، عورتوں کے ان پر حقوق ہیں ۔ ان کی تعلیم کا سوال مردوں سے ہوگا۔۔ ان کے معاملات کا سوال بھی۔ ان کی ہر ذمہ داری کا سوال بھی ۔۔۔ یہ ایک صحت مند معاشرے کی تخلیق میں مردوں کا حصہ ہے اور اس حفاظت کے بدلے میں عورت کی ذمہ داری گھر بنانے کی، رشتوں کو جوڑنے کی اور اپنی فہم و فراست سے وہ معاملات سنبھالنے کی ہے جو مرد حضرات اپنی طبیعت کی بنا پر سنبھالنے سے قاصر ہیں ۔۔ ہاں ۔۔ عورت کے لئےعار نہیں ہے کہ وہ اپنے خاندان کو مالی طور پر مستحکم بنانے میں مدد کرے لیکن ۔۔ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے میں اس بات کی اہمیت سے واقف ہوں کہ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی گھر کو بنانے اور بنائے رکھنے کے لئےعورتوں کا ” محفوظ ” ہونا زیادہ اہم ہے ۔۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کی طبیعت میں نرمی رکھی ہے ۔ کسی بھی کام کے لئےگھر سے باہر نکلنا اور مردوں کے درمیان بیٹھ کر معاملات کو حل کرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ عورت مضبوطی اور سختی کا مظاہرہ کرے ۔ یہ مضبوطی کردار کی بھی ہو اور گفتار کی بھی ۔۔۔ ہر بار ۔۔ جب ایک عورت با اعتماد لہجے میں یا سختی سے اس معاشرے کا سامنا کرتی ہے تو اس کے اندر کی نرمی ختم ہو جاتی ہے ۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک کھردرے کھوکھلے وجود اور کامیاب “معاشی” زندگی کے علاوہ پیچھے کچھ بھی نہیں رہ جاتا ۔۔ اسی لیئ تو خواتین کے لئےگھر سب سے بہترین اور محفوظ مقام قرار دیا گیا ہے ۔ یہ وہ اصول ہے جو ایک عورت کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی حفاظت بھی فراہم کرتے ہیں ۔”

جواب:

کیا میں‌ نے صحیح‌ پڑھا کہ “اپنی فہم و فراست سے وہ معاملات سنبھالنے کی ہے جو مرد حضرات اپنی طبیعت کی بنا پر سنبھالنے سے قاصر ہیں۔” یہاں‌ پر لکھاری جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ اگر خواتین نے اپنے بارے میں زیادہ سوچنا اور اپنے لئیے اپنی زندگی گذارنا شروع کردیا تو ہمارا کیا بنے گا؟

یہ کوئی نئی سوچ نہیں‌ ہے۔ یہی جملے بالکل اسی طرح‌ لوگ کئی سو سال سے کہتے چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کے ہر کونے میں‌ اپنے اپنے مذہب کو اپنے فائدے اور اپنی سوچ کو عزت کا نقلی جامہ پہنانے کے لئیے استعمال کرتے ہیں‌ جس کا زمین، آسمان، انفرادی انسانی نفسیات، انفرادی جینڈر کی شناخت، انفرادی جنسی اوریئنٹیشن اور سب انسانوں‌ کی حقیقی زندگیوں‌ سے کوئی تعلق نہیں‌ ہے۔ اسی وجہ سے ری پبلکن ہم جنس جوڑوں کی شادیوں‌ کو قانونی حیثیت مل جانے پر اتنے پریشان ہیں۔ وہ ایسی شادی جانتے ہی نہیں‌ جس کی بنیاد سچی محبت اور اعتماد پر کھڑی ہو، جس میں‌ دو برابر انسان ایک دوسرے کے ساتھ تمام زندگی گذارنے کا عہد کریں۔ آپ ڈیڑھ سو سال پیچھے چلے جائیں، جب خواتین نے سائیکل چلانا شروع کی تو لوگ انتہائی خوفزدہ ہوگئے کیونکہ اب ان کی آزادی کا دائرہ تھوڑا سا بڑا ہوگیا۔ یہاں‌ تک کہ انہوں‌ نے باقاعدہ ایک خیالی بیماری بنا لی جس کا نام تھا “بائسکل فیس”! اس کی مضحکہ خیز تصویریں‌ آپ انٹرنیٹ پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق سائکل چلانا خواتین کے لئیے نقصان دہ ہے اور اس سے ان کا منہ ایسے نکل آتا ہے۔

http://blog.europeana.eu/2014/07/women-beware-of-bicycle-face/

جب خواتین نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو بھی سو سال پہلے کے ڈاکٹرز نے باقاعدہ اپنی نقلی سائنس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح‌ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے خون کی سرکیولیشن بچہ دانی سے دماغ کی طرف ہوجاتی ہے اور یہ خواتین بانجھ ہوجائیں گی۔ سیکڑوں برس سے ایک ہی طرح کا لائف اسٹائل چلتا آرہا تھا اس لئیے لوگ سخت پریشان ہوگئے اور ان کو سمجھ نہیں‌ آرہا تھا کہ ایک برابر کے پارٹنر کے ساتھ کیسے زندگی گذاری جا سکتی ہے۔ وہ تو پہلے زمانے کا سسٹم تھا کہ جیسا ابا نے کہہ دیا ویسا ہوا۔ اب تو وہ دن لد گئے۔ اب اگر ابا کو سر دبوانا ہے تو گھر پر کوئی نہیں‌ کیونکہ بیوی اپنی سہیلیوں‌ کے ساتھ مووی دیکھنے گئی اور بچوں‌ کے اسکول میں‌ فنکشن ہے۔ ان کی اپنی اپنی زندگی ہے جس میں باپ کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں۔ وہ اپنی زندگی کے فیصلے اس لئیے نہیں‌ کریں‌ گے کہ ابا کو خوش کیسے کریں بلکہ وہ اپنے لئیے کریں‌ گے کیونکہ اب ان کی زندگی کا دارومدار ابا کے پے چیک پر نہیں ہے۔ جو کما کر لاتا ہے اسی کی پسند کا کھانا پکتا ہے اور اس کے چنے ہوئے لوگوں‌ سے دوستیاں‌ اور رشتے طے ہوتے ہیں۔ ان باتوں‌ کا سیاروں‌ کی جادؤئی حرکات سے کچھ تعلق نہیں‌ ہے۔

مسٹر :

“اب اگر ان دونوں مخلوقات کی مختلف طبیعتوں کا اندازہ لگائے بغیر یہ بات کی جائے کہ ہمیں ان میں ” برابری ” چاہیئے تو اس سے زیادہ بیوقوفانہ مطالبہ نہیں ہو سکتا ۔۔ برابری کا مطلب ہے کہ ایک عورت اپنی نازک طبیعت کے باوجود وہ سب کام کرے جو مردوں کی ذمہ داری ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داری بھی پوری کرے کیونکہ مرد حضرات تو ان کے ” برابر ” کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔”

جواب:

برابری کے کانسیپٹ سے پھر آپ کو صرف اس بات کی فکر ہے کہ خود کا کام بڑھ جائے گا؟ یہ پرابلم پھر خواتین کا تو نہیں‌ ہوا۔ یہ پرابلم تو آپ کا اپنا ہے۔ یعنی کہ اب دوستوں‌ کو بلا کر ڈرائنگ روم میں‌ کرکٹ کا میچ دیکھتے ہوئے گرما گرم پکوڑے کھانے کو نہیں‌ ملیں‌ گے بلکہ بچے کو آدھی رات میں‌ اٹھ کر جھولا جھلانا پڑے گا۔ اصلی زندگی تو یہی ہے اور اصلی سوال بھی یہی ہیں۔ باقی مذہبی روایات تو سارے اپنے آپ کو فائدہ دلانے کے لئیے استعمال ہونے والے خیالات ہیں۔

مسٹر:

” یہ کہ عورت کو ایک ” پراڈکٹ ” کے طور پر سامنے لایا جائے اور اسے ان کی آزادی کا نام دیا جائے حالانکہ اس میں سراسر ان کا اپنا نقصان ہے ۔”

جواب:

سب خواتین ایک جیسی تو نہیں‌ ہیں‌۔ ہر کسی میں‌ الگ ٹیلنٹ ہوتا ہے۔ کچھ کو پڑھنا پسند ہے، کچھ کو گانا پسند ہے، کچھ کو ناچنا پسند ہے، کچھ کو کھیلنا پسند ہے، کچھ کو پڑھانا پسند ہے۔ برابری کے کانسیپٹ کا مقصد یہ ہے کہ وہ جو چاہیں‌ اور جیسے چاہیں‌ ویسے ہی زندگی گذار سکیں۔ پراڈکٹ اگر وہ خود کو خود ہی بنانا چاہیں جیسے ماڈل ہیں، ایکٹر ہیں، لائر ہیں یا ڈاکٹر ہیں تو ہمیں‌ کیوں‌ تکلیف ہونی چاہئیے۔ پراڈکٹ اگر کام کرنے سے انسان بنتا ہے تو آدمی بھی تو سارے پراڈکٹس ہی ہوئے۔ جیسے کہ آپ خود سے خواتین کو کھانا پکانے، گھر صاف کرنے اور بچے پالنے کی جاب دینے پر اصرار کررہے ہیں تو بھی یہ ایک پراڈکٹ بنانا ہی تو ہوا۔ پراڈکٹ بننے کے نقصان سے صرف ایک صورت میں‌ بچا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہر انسان کے سامنے ایک برابر فیلڈ ہو، برابر کے موقع ہوں‌ اور پھر وہ جو چاہے اپنے لئیے چن لے۔ پراڈکٹ تو سب کو بننا پڑتا ہے۔ کام تو کرنا ہی ہوگا۔ تصویر بن کر تو زندگی نہیں‌ گذار سکتے۔

مسٹر:

” اگر کوئی خاتون یہ سب نام نہاد حقوق ملنے کے بعد بھی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا نہ کرسکے۔ تو ان حقوق کا کیا فائدہ ۔۔ اور کیا مقصد ؟ “

جواب:

کون سی ہے بنیادی ذمہ داری؟ اور کس نے طے کی وہ ذمہ داری؟ وہ کون سی ذمہ داریاں‌ ہیں‌ جو ایک شوہر کام کرکے پیسہ کما کر بجا لاتا ہے اور اس کی بیوی کام کرکے پیسہ کما کر نہیں‌ کرتی؟ اگر کسی کو برا شریک حیات شوہر یا بیوی ملے ہیں جو اپنی ماں کی یا باپ کی ذمہ داریاں‌ نہیں ادا کررہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اگر کسی خاتون کو اپنا کام اتنا پسند ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ٹائم نہیں دے سکتیں تو یہ خون کا رشتہ تو نہیں جو ٹوٹ نہیں‌ سکتا، وہ اپنے لئیے ہاؤس وائف بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کافی ساری خواتین کو ہاؤس وائف بننا بھی پسند ہے۔ ان کو صبح دیر سے اٹھنا، ماسی سے کام کروانا اور شام میں‌ ٹی وی دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ جس کو جیسا پسند ہو ویسا ہی انسان ڈھونڈے۔

مسٹر :

“خاص طور پر ایک ایسے دین کے مقرر کردہ حقوق کے مقابلے میں جو خواتین کو انکے اصل مقام کے مطابق عزت اور حق دینے والا اور ان کے لئےحتی الامکان آسانی پیدا کرنے ولا واحد دین ہو، ایک نامکمل معاشرے کے قائم کردہ حقوق پیش کرنا کھلی جہالت ہے ۔”

جواب:

یہ جملے ظاہر کرتے ہیں‌ کہ لکھنے والے نے اپنے خیالات اور عقائد کو حقیقت سے اوپر سمجھا ہے۔ حقیقت کیسے پتا کی جائے؟ حقیقت جاننے کے لئیے مشاہدہ اور سمپل میتھ استعمال کی جا سکتی ہے۔ باعزت سائنسی اور معاشرتی جرنلز میں‌ چھپی ہوئی ریسرچ کے مطابق آج کی دنیا میں‌ مسلمان خواتین میں‌ تعلیم کی شرح‌ غیر مسلمان خواتین کے مقابلے میں‌ کم ہے۔ مسلمان خواتین میں‌ بچے کی پیدائش کے دوران مرنے کی شرح غیر مسلمان خواتین میں‌ بچے کی پیدائش کے دوران مرنے سے زیادہ ہے۔ مسلمان خواتین کے بچوں میں‌ پیدائش کے دوران مرنے کی شرح‌ غیر مسلمان خواتین کے بچوں میں‌ پیدائش کے دوران مرنے کی شرح‌ سے زیادہ ہے۔ دنیا میں‌ سے سو ملین خواتین غائب ہیں۔ وہ بدسلوکی کی وجہ سے مر چکی ہیں۔ ان غائب خواتین میں سے زیادہ تر ساؤتھ ایشیا اور افریقہ میں‌ ہیں۔ سارے معاشرے ہی نامکمل ہیں۔ مکمل کون سا ہے؟ کل آج سے بہتر ہر جگہ ہوسکتا ہے۔ یہ ریسرچ سے ثابت ہے کہ یورپ اور امریکہ خواتین کے لئیے بہتر ممالک ہیں۔ اور ان کی طرح‌ مسلمان ممالک کو بھی خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

مسٹر :

“ہمیں ایسی ” برابری ” نہیں چاہئے جس میں پانچوں انگلیوں کو کھینچ کر ایک جتنا لمبا کیا جائے بلکہ ” انصاف ” چاہیئے جس میں ہر ایک کو اسکی طاقت ۔ فہم و فراست ۔ طبیعت اور ہمت کے مطابق ذمہ داری دی جائے۔”

جواب:

اس سارے مضمون میں‌ صرف یہ ایک جملہ ملا جس سے مجھے اتفاق ہے۔ اور ہر کسی کو اپنی طاقت، فہم و فراست، طبعیت اور ہمت کے مطابق کام کرنے کا حق ہے۔ اور کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان سے مذہب، جنس، نسل، عمر کی بنیاد پر تعصب کی اجازت نہیں‌ دی جا سکتی۔ اور یہی فیمینزم ہے۔ فیمینزم ہم سب کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے اسی لئیے ہر انسان کو فیمینسٹ بننا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).