عقل سے دشمنی….  جہل عیار ہے


گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی کی بات ہے جب پہلی دفعہ یہ خبر آئی کہ ایڈز نام کا کوئی نیا مرض دریافت ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے میڈیکل ڈاکٹروں کو بھی اس مرض کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں مگر اگلے دن کے اخبار میں ایک حکیم صاحب کا بیان چھپا ہوا تھا کہ ان کے پاس اس مرض کا علاج موجود ہے۔ یہاں کونسا حکیم ہے جو دل،سرطان ، شوگر، ہیپا ٹائٹس کا علاج کرنے کا دعوی نہ رکھتا ہو۔ کتنے پڑھے لکھے ہیں جو عجوہ کھجور کے ذریعے دل کے بائی پاس آپریشن کو کامیابی سے ٹال رہے ہیں۔

اس قسم کی باتوں کو ہماری تعلیمی پس ماندگی کا نتیجہ گردانا جاتا ہے؟ مفروضہ یہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں شرح خواندگی بڑھ جائے تو معاشرے میں عقل و خرد پر مبنی سائنسی سوچ رواج پکڑ لے گی اور توہمات و تعصبات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کچھ لوگ ہمارے مذہبی مدارس کے نظام کو اور معاشرے میں ملا کے اثرات کو اس خرابی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایک وردی پوش حاکم کے دور میں روشن خیالی کا چرچا شروع ہوا اور مسائل کا حل یہ تجویز کیا گیا کہ مدارس میں بھی سائنس پڑھائی جائے۔ اس بات کے پیچھے یہ ایقان کارفرما تھا کہ سائنس پڑھنے والے روشن خیال ہوتے اور شدت پسندی سے نفرت کرتے ہیں۔

اگر ذرا تامل سے کام لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ حالات کا انتہائی سطحی تجزیہ ہے جس کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ جدید سائنس نے مغرب میں جنم لیا اور اس کے نتیجے میں ایک مضبوط عقلی روایت بہت مستحکم بنیادوں پر استوار ہو چکی ہے۔ سائنسی انقلاب کو برپا ہوئے چار صدیوں سے زاید عرصہ گزر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ابتدائی سے لے کر اعلی درجوں تک سائنس کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ کھربوں ڈالر سائنسی تحقیق پر صرف کیے جا رہے ہیں۔ نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں، کائنات کے اسرار سے پردہ ہٹایا جا رہا ہے۔ آج خلائی جہاز زمین کے مدار سے نکل کر مریخ تک جا پہنچے ہیں۔ اس سائنس کے نتیجے میں جنم لینے والی ٹیکنالوجی نے عام انسانوں کو جو آسودگی اور راحت عطا کی ہے وہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کو نصیب نہیں تھی۔ شہنشاہ ہند ظل سبحانی حضرت نورالدین جہانگیر کو اپنے من پسند مشروب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نامعلوم کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس تمام تر ترقی کے بعد کیا ان معاشروں میں توہمات کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ اگر سبھی نہیں تو کیا بہت بڑی تعداد میں لوگ سائنسی اور عقلی انداز میں سوچنا شروع ہو گئے ہیں؟

اگر امریکی معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام تر سائنسی تعلیم کے باوجود معاشرے کی ایک بڑی تعداد توہمات سے اپنا پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ 2001ء میں ایک گیلپ پول کے نتائج حیران کن ہی نہیں بلکہ پریشان کن ہیں۔54   فی صد امریکن شہری روحانی علاج پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی ذہنی قوت اس کی جسمانی بیماریوں کا علاج کر سکتی ہے۔50 فی صد امریکن ESP پر یقین رکھتے ہیں۔ 42 فی صد گھروں کے آسیب زدہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ 36 فی صد ٹیلی پیتھی کو حقیقت قرار دیتے ہیں اور مانتے ہیں کہ حواس خمسہ کے علاوہ دیگر ذرائع سے دور دراز کے لوگوں سے رابطہ کرنا ممکن ہے۔ 33 فی صد کو یقین ہے کہ اس زمین پر خلائی مخلوقات اترتی رہتی ہیں۔

گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی کی بات ہے جب ہم گورنمنٹ کالج میں فلسفے کے طالب علم تھے، ہمارے استاد محترم نے ہمیں بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک نوجوان ہے جس کا دعوی ہے کہ وہ محض نظر کی قوت سے لوہے اور سٹیل کی بنی ہوئی چیزوں کو موڑ سکتا ہے۔ اس شخص کا نام یوری گیلر ہے۔ بے شمار دفعہ اس کی جعل سازیوں کا پردہ چاک کیا جا چکا ہے اور یہ کہ وہ عام سی شعبدہ بازی کرتا ہے مگر اس کے ماننے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کتنی کتابیں لکھی جاتی ہیں، کتنے جرائد چھپتے ہیں جن کا مقصد ہی ناقص اور جعلی سائنسی دعووں کا پردہ چاک کرنا ہے مگر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ایسی کاوشوں کو کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ لوگوں کے معتقدات چونکہ دلائل و شواہد پر مبنی ہوتے ہی نہیں اس لیے دلائل و شواہد ان پر کم ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ لوگوں کے کسی بات پر یقین کا ایک ہی سبب ہوتا ہے کہ وہ اس پر یقین کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ معتقدات ربڑ کی بنی ہوئی بطخیں ہیں جو ہمیشہ تیرتی رہتی ہیں اور جن کے ڈوبنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments