عقل سے دشمنی….  جہل عیار ہے


مغربی یورپ کے دیگر ترقی یافتہ معاشروں کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ Horoscope وہیں چھپتے ہیں اور آج بھی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ ستاروں اور سیاروں کے انسانی زندگیوں پر اثرات ہوتے ہیں۔ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے میں کتابیں اب تو بڑی اعلی شہرت کے حامل اشاعتی اداروں نے بھی چھاپنا شروع کر دی ہیں کہ ان کی مانگ بہت زیادہ ہے اور وہ بہت آسانی سے بیسٹ سیلر بن جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں ہالی وڈ میں بننے والی فلموں کی بھرمار ہے۔

عام لوگوں کی بات تو رہی ایک طرف، امریکہ برطانیہ اور مغربی یورپ کی یونیورسٹیوں میں گزشتہ سو سال سے جو فلسفہ پڑھایا جا رہا ہے اس کا غالب حصہ عقل و خرد کی مذمت پر مشتمل ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ادبیات، بشریات، عمرانیات اور بعض جگہ فلسفے کے شعبوں میں بھی دور تنویر کے فلسفے کا رد یا مابعد جدیدیت کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ ہمارے مولویوں کے لیے بھی لائق عبرت ہو گا۔

مغرب کی تعلیمی درسگاہیں خرد دشمنی کے سیلاب کی زد میں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں جدید پڑھے لکھے اور بہت ماڈرن دانشوروں میں بھی یہ فلسفے مقبول ہو رہے ہیں۔ پندرہ بیس سال پرانی بات ہے ایک نوجوان دانش ور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تشریف لائے اور میرے ایک رفیق کار سے سوال پوچھا اور مجھے کہا کہ آپ بھی جواب دے سکتے ہیں۔ پہلا جملہ جو ان کی زبان سے ادا ہوا وہ یہ تھا کہ مغرب میں سائنس ختم ہو چکی ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے انہیں وہیں روک کر سوال پوچھا کہ یہ اطلاع انہیں کن ذرائع سے ملی ہے تو ان کا جواب تھا کہ اڈورنو نے ایسا لکھا ہے۔ میرے لیے یہ بات بہت صدمے کا باعث تھی کہ کسی ایک شخص کی رائے پڑھ کر کوئی اتنا بڑا دعوی اپنی زبان پر لا سکتا ہے۔ مغرب میں سائنس کے ختم ہونے کا فیصلہ اڈورنو یا کسی دریدا کی رائے سے نہیں ہوگا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا وہاں سائنس پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے؟ کیا تجربہ گاہیں بند کی جا رہی ہیں؟ کیا سائنسی تحقیق کا باب بند ہو گیا ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو سائنس ختم ہونے کی بات پر یقین کر لینا خود فریبی کے سوا اور کیا ہے؟

آج سائنس کو بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے لاحق نہیں بلکہ اصل طوفان اس وقت بھی مغرب سے ہماری طرف رخ کر رہا ہے۔ اپنے احمقوں کا مضحکہ اڑانے والے ہائڈیگر، میشل فوکو، ژاک دریدا، لاکاں، اڈورنو ،ہابرماس اور فیرابینڈ کے نام بہت عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔ یہ لوگ پورے بلند آہنگ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں کہ معروضی صداقت کوئی شے نہیں۔ سماجی علوم ہی نہیں بلکہ طبعی علوم ،ریاضی اور منطق بھی سماجی تشکیلات کے سوا کچھ اور نہیں۔ سائنس کے قوانین اور کشش ثقل کا قانون بھی موضوعی اور سماجی تشکیلات کے مظہر ہیں۔ افریقا کے ووڈو اور کوانٹم فزکس میں عقلی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔ اہل مغرب کوانٹم فزکس کو اس لیے مانتے ہیں کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اور درسگاہوں میں صداقت کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ افریقا کے لوگ سحر و ساحری پر یقین رکھنے میں اتنے ہی حق بجانب ہیں کیونکہ یہ ان کے سماج کے مسلمات ہیں۔ گویا صداقت صرف وہ ہے جسے کسی سماج کے باشندے صداقت تسلیم کرتے ہوں۔ چنانچہ ہمارے مذہبی طبقات بھی انہی لوگوں کے حوالے دے دے کر یقین دلا رہے ہیں کہ سائنس کو تو اہل مغرب خود رد کر چکے ہیں۔

اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی میں پیش آنے والے ایک تہلکہ انگیز واقعہ کا ذکر کر دیا جائے۔ مابعد جدیدیت اور اس قبیل کے دیگر افراد نے سائنس کے بارے میں جس طرح کی انٹ شنٹ تحریروں کا انبار لگانا شروع کیا ہوا ہے اس پربالعموم سائنس دانوں کا رد عمل بس خندہء استہزا ہی ہوتا ہے تاہم دو سائنس دانوں نے اس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے رد میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا:

Higher Superstition: The academic Left and its Quarrels with Science, by Roger R. Gross &Norman Levitt. 1994. 1998

یہ کتاب ایک ماہر طبیعیات، ایلن سوکل [Alan Sokal ] کی نظر سے گزری۔ سوکل کا مزید تعارف یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر خود کو بائیں بازو سے منسوب کرتا ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس کا پہلا ردعمل یہ تھاکہ آیا اس کتاب میں دیے گئے حوالے درست ہیں۔ اس کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ کوئی معقول شخص اس قسم کی جاہلانہ باتیں لکھ کر چھپوا بھی سکتا ہے۔ اس نے لائبریری کا رخ کیا تا کہ وہ حوالوں کی صحت کا تعین کر سکے۔ اس کو یہ جان کر صدمہ ہوا کہ وہ تمام حوالے درست تھے اور ان میں کوئی علمی بددیانتی نہیں تھی۔ اس پر اسے ایک شرارت سوجھی اور اس نے مابعد جدیدیت کے بھاری بھرکم اسلوب میں ایک مقالہ لکھا [ Trangressing the boundries: Toward a Transformative Hermeneutics of Quantum Gravity ]اور امریکہ میں چھپنے والے ایک جریدے Social Text کو بھجوا دیا۔یہ جریدہ اسی مکتب فکر کا ترجمان ہے اور وہ مندرجہ بالاکتاب کے جواب میں اپنا خصوصی نمبر چھاپ رہے تھے جس کا عنوان تھاScience Wars [ 1996] ۔ اس شمارے میں انہوں نے سوکل کا مضمون بھی چھاپ دیا۔ مضمون چھپنے کے بعد سوکل نے ایک اور رسالے Linguafrance میں مضمون لکھا اور وضاحت کی کہ اس کا مضمون قطعاً کوئی سنجیدہ مضمون نہیں تھا بلکہ محض ایک پیروڈی تھی جس کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ ان لوگوں کے کوئی علمی معیارات نہیں ہیں اور یہ محض سیاسی پروپیگنڈے سے کام لے رہے ہیں۔ اس پر بحث مباحثے کا ایک بازار گرم ہو گیا۔ کچھ لوگ سوکل کی حمایت میں لکھ رہے تھے کہ اس نے مابعد جدیدیت والوں کی علمی سطحیت کو بے نقاب کر دیا ہے جبکہ مخالفین اسے گھٹیا فریب کاری قرار دے رہے تھے۔ جو صاحب اس کی مزید تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہوں وہ ایلن سوکل کا نام لکھ کر گوگل پر تلاش کر سکتے ہیں۔ سوکل نے اپنی سائٹ پر بہت سا مواد ڈالا ہوا ہے۔

گنجلک اور ژولیدہ نثر ، بھاری بھر کم الفاظ کے بوجھ تلے دبا قاری یہ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہے کہ لکھنے والا ضرور کوئی گہری اور مشکل بات کر رہا ہے جسے وہ اپنی ذہنی کم مائیگی کے سبب سمجھے سے قاصر ہے۔ یہ لوگ یہی دعوے کر رہے ہیں کہ زمان و مکان کی کوئی معروضی حقیقت نہیں۔ جیومیٹری بھی آفاقی صداقت کی حامل نہیں بلکہ اضافی اور سیاق و سباق کی پابند ہے۔ دلیل اور منطقی قوانین محض بالا دست طبقوں کے حربے ہیں جو وہ مفلوک الحال لوگوں کے استحصال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ نسائی تحریک کی علم بردار ہیں جن کے نزدیک سائنس سفید فام مردوں کی خودسری کا نام ہے اور اس میں عورتوں کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے۔

 اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب دعاوی ہمارے بابا پوٹھوہاری صاحبان کی بات سے کیوں کر مختلف ہیں۔ لیکن یہ سب اس لیے قابل قبول ہیں کہ ان کے لکھنے والے ترقی یافتہ دنیا کی بڑی بڑی جامعات میں پروفیسروں کی مسند پر براجمان ہیں۔ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کی حکومتیں کثیر زر مبادلہ خرچ کرکے ان جامعات میں اپنے طلبہ کو بھیجتے ہیں اور وہ جو کچھ وہاں سے سیکھ کر آتے ہیں وہ ہمارے بابا صاحبان بہت کم خرچ میں سکھا سکتے ہیں۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہماری اعلی تعلیمی درسگاہوں میں بھی سماجی علوم اور ادبیات کے شعبو ں میں اس قسم کے نظریات جڑ پکڑ رہے ہیں۔ مولوی عقل کو شیطان کی کنیز قرار دیتا ہے ، یہ لوگ عقل کو غالب طبقوں کے ہاتھ میں استحصال کا آلہ قرار دیتے ہیں۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلے گا۔ جب معاملات کو طے کرنے میں عقل کے استعمال سے انکار کر دیا جائے گا تو پھر تشدد کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں رہے گا۔ اگر ہم معاشرے سے متشددانہ رجحانات کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں ملا کی قدامت پرستی کے ساتھ اس جدید خرد دشمنی کے سامنے بھی بند باندھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments