ساکنان پاکستان بنام غالب


بہشتی چچا اسد اللہ خان غالب کو ایک زندہ قوم کا سلام پہنچے

 آپ کا محبت نامہ ملا۔ اگر آپ رومن اردو میں خط لکھتے تو زیادہ مناسب ہوتا کہ اِدھر کل یہی لینگویج چل رہی ہے۔ پرانے دور کی اردو اور فارسی کی مکسچر زبان میں تحریر کی گئی آپ کی بہت سی باتیں تو ہمارے سروں سے گزر گئیں۔ البتہ ہم نے آپ کے طنز اور تنقید کا مفہوم کافی حد تک سمجھ لیا ہے۔ ہم بزرگوں کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر آپ یہاں آ کر ہم سے اس طرح کی جگت بازی کرتے تو دنیا دیکھتی تو آپ نے کس غیور قوم کو للکارا ہے۔ معذرت کے ساتھ، آپ کے زبان دانی کے سارے دعوے تو ہمارا ایک ٹی وی اینکر ہی آپ کو سامنے بٹھا کر پانچ منٹ میں ہوا کر دے۔ ہم پر تو دنیا کا سب سے طاقتور اور منہ پھٹ شخص ٹرمپ بھی پھبتی کسنے سے گریز کرتا ہے کہ کہیں جواب میں ہم اسے صدارت سے قبل فیصل آباد میں سائیکل پر مصلے بیچنے والا ہی ثابت نہ کر دیں۔

بین الاقوامی چچا ! ہماری آپ سے کچھ زیادہ شناسائی تو نہیں اور نہ ہی ایسی بے تکلفی ہے جو آپ نے اپنے خط میں شو کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ہم اتنا ضرورجانتے ہیں کہ آپ اپنے دور کے دیوانے کہلاتے تھے۔ ہماری کچھ درسی کتابوں کے علاوہ بڈھے بابوں کی زبانی بھی ” دیوانِ غالب، دیوانِ غالب“ کی تکرار سننے کو ملتی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے تمام عمرشعرو شاعری اور خطوط نویسی سے شغل فرمایا اور بد قسمتی سے کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہ کر سکے۔اسی لیے تو چچی غالبن گھر کے اخراجات کے سلسلے میں تنگ دست رہیں اور آپ وظیفے اور پنشن کی خاطر درباروں کی خاک چھانتے رہے۔ ان گذارشات کا مطلب خدانخواستہ آپ کی تضحیک ہر گز نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ ہمیں آپ کی شاعری سے شغف نہ سہی مگر تاریخ کے تمام ضروری حقائق زبانی یاد ہیں۔ تاریخی حقائق کا ذکر چل نکلا ہے تو آپ کے علم میں اضافہ کردیں کہ ہماری بیان کردہ تاریخ سن کر نہ صرف دنیا چکرا جاتی ہے بلکہ خود تاریخ کی جن لہروں کو منہ زور کہا جاتا ہے، وہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا تاریخ سے سبق سیکھتی ہے اور ہم تاریخ کو سبق سکھاتے ہیں۔

سخن وربزرگوار! جیسا کہ اپنی گذارشات کے آغاز میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ایک بوسیدہ اور متروک ذریعے یعنی خط کا سہارا لیا ہے اور وہ بھی ماڈرن زبان رومن اردو کی جائے ایک گئی گواچی زبان میں۔ اب آپ کو کون سمجھائے کہ یہ کبوتر میل نہیں، ای میل کا زمانہ ہے۔ یہ سیٹلائٹ کا عہد ہے، جس میں کسی قاصد یا منتِ قاصد کا کوئی تصور نہیں بلکہ وٹس ایپ پر ہر کسی کو ہر وقت براہِ راست رابطہ میسر ہے۔ مراد یہ ہے کہ ان جدید ذرائع ابلاغ کو آپ سادہ لوحوں کی بلا جانے۔ اگر آپ کو ان سائنسی چیزوں کی شد بد ہوتی تو رابطہ تیز تر اور آسان ہوتا اور آپ کو اپنی ہر بات کا نقد جواب مل جاتا کہ ہم تو ویسے بھی کسی کا ادھار رکھنے کے قائل نہیں۔ یہاں تو اب کتاب کی ورق گردانی پر بھی کوئی وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کی جگہ بھی تیز تر سوشل میڈیا نے لے لی۔ تاہم اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم لوگ ادبی ذوق سے عاری ہو گئے۔ بس فرق یہ پڑا ہے کہ اب یہاں خوبصورت شاعری کی جگہ خوبصورت خواتین کی شاعری نے لے لی ہے۔ آپ کا دل توڑنا مقصود نہیں لیکن جدید دور کے تقاضوں سے آپ کو بے خبر رکھنا بھی انصاف نہ ہوگا کہ اگر فیس بک پر آپ کی پوری غزل لگا دی جائے تو بمشکل دو چار لائیکس ہی آئیں گے۔ البتہ جب کوئی خوش اطوار سی شاعرہ اپنا ایک شعر بھی ٹائم لیٹ پر لگا بیٹھے تو اہل ذوق پھڑ پھڑا کر رہ جاتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں ٹھکا ٹھک لائیکس اور واہ واہ، سبحان اللہ کے کمنٹس برس پڑتے ہیں۔ خود آپ ہوتے تو شاعرہ کی تصویر دیکھ کر ہی بنا پڑھے بے اختیار نہ صرف ایسے اشعار پر توصیفی کمنٹس دیتے بلکہ آپ کا دل ان سے اصلاح لینے کوبھی مچل جاتا۔ برسبیلِ تذکرہ،آپ نے ”آبروئے ریختہ “ نامی ایک نیکی کا ذکر کیا ہے، جس کے صدقے آپ بخشے گئے۔ ویسے تو ہم بحیثیت نیکو کار قوم نیکیوں میں خود کفیل ہیں لیکن اگر آپ اپنی اس نیکی کی تفصیل بیان فرما دیں تو ہماری نیکیوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

قابل احترام بزرگو! آپ نے ہمارے رویوں پر حضرت اقبال اور جناح کی تشویش کی آڑ میں تنقید کی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند جامع الفاظ میں آپ تینوں کو مطمئن کردیا جائے۔ علامہ اقبال کی خدمت میں عرض کر دیجئے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ان کے باکمال خواب کو لاجواب تعبیر مل گئی ہے۔ ہر طرح سے ”آزاد“ اسلامی فلاحی مملکت وجود میں آ چکی ہے، جہاں کسی پر کوئی قدغن، حتیٰ کہ قانون کی پابندی تک لازم نہیں۔ نیز کیا آبلہ مسجد اور کیا تہذیب کے فرزند، سب انتشار پھیلانے میں آزاد ہیں۔ ملت کا ہر فرد خودی کی دولت سے بہرہ مند یعنی خود سر ہو چکا ہے۔ آپ کے کلام کی روح کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے شاہینوں نے پہاڑوں کی چٹانوں ہی میں بسیرا کر رکھا ہے، جہا ں بم دھماکوں کے پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ نیز آپ کی دعا سے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر، امہ کی پاسبانی کا ٹھیکہ ہمارے ہاتھوں ہی میں ہے اور اُمہ اپنے سرپرست اعلیٰ ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر سایہ سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے۔ قائداعظم کو بھی بتا دیجئے کہ ہم انہیں ہر گز نہیں بھولے اور ان کے مزار پر دن رات لگنے والا رش اس کا کھلا ثبوت ہے۔ حضرت اس پروپیگنڈے سے اپنا دل چھوٹا مت کریں کہ یہ رش وہاں فاتحہ پڑھتے ہوئے فوٹو بنوانے والے زعمائے ملت اور انواع و اقسام کے پریمی جوڑو ں کا ہوتا ہے، جو اپنی ”پیشہ ورانہ سرگرمیوں“ کے لیے انکے مزار کو موزوں مقام سمجھتے ہیں۔ البتہ ہماری طرف سے ان کی خدمت میں اتنی معذرت ضرور کر دیجئے کہ آپ کے خواب کو آپ کے افکار کی روشنی میں من و عن تعبیر دینے میں بڑی قباحتیں تھیں۔ ہم نے بروقت یہ خطرہ بھانپ کر آپ کی جمہوری ریاست کو مذہبی ریاست میں بدل ڈالا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم دنیا کی با شعور قوموں کے مقابلے میں ایک غیور قوم کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ آج دنیا ہمیں شدت پسند کہے یا کچھ اور مگر ہماری غیرت کسی بھی مسئلے پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔ آپ دیکھ لینا کہ ہم کلبھوشن یادیو سے کیسے نبٹتے ہیں۔ حضرت قائد کی خدمت میں یہ بھی عرض کردیجئے کہ ہم آج تک ان کا فلسفہ آمریت دشمنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس راز کا کھوج لگانے کے لیے ہم نے 33 برس تک آمریت کے دشت کی سیاحت کی۔ معاف کیجئے، ہمیں تو اس نظام میں کوئی خرابی نظر نہ آئی، سوائے اس کے کہ آدھا ملک ہاتھ سے گیا، باقی تو کچھ بھی نہ بگڑا۔ تاہم، ہم نے ان کی خواہش کے احترام میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی گاڑی کو رواں کر رکھا ہے۔ اب اگر یہ نظام خود ہی خرابیوں سے لبریز ہو تو ہمارا کیا قصور؟

ہاں یاد آیا، آپ نے ہماری خاتونِ اول کے نام ایک خط میں جنت کے اندر کسی فیض صاحب سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ کہیں یہ میڈم نور جہان والے فیض تو نہیں کہ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ؟ ….بزرگوارِ سادہ ! ان صاحب کی صحبت میں ذرا محتاط ہی رہیں تو بہتر ہے، یہ یہاں ایک سازش کیس میں اندر رہ چکے ہیں، آگے آپ کی مرضی۔

                                والسلام : ساکنان ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان

                                22مئی 2017ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).