کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب​


دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہوتا جائے گا اس میں کسی ایک انسان کی اہمیت بس تب تک ہے جب تک وہ کچھ سوچ سکتا ہے یا محسوس کر سکتا ہے ۔ ادھر جسم کی بتی گل ہوئی ادھر کون تھا کیا تھا کسی کو یاد نہیں ہوتا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے ۔ اسی طرح سڑک سے گزرتے ہوئے کتنے ہی منظر آنکھوں کے سامنے سے نکلتے ہیں، جو دِکھ گئے وہ رجسٹر ہو گئے ، انہوں نے سامنے آ کر اپنے آپ کو منوا لیا۔ جو نہیں نظر آئے کیا وہ تھے ہی نہیں؟ وہ تھے لیکن گزرنے والے کے لیے ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا، شاید اس لیے کہ ان میں کچھ اچھوتا، کچھ نیا پن نہیں تھا۔ کسی محلے میں ایک شخص کے آس پاس جو لوگ ہیں، جو اس سے محبت کرتے ہیں، اس کا خیال رکھتے ہیں، یا جن میں وہ کمفرٹیبل ہوتا ہے ، اس کی اہمیت بس انہیں تک ہے ۔ چار گھر دور جو پڑوسی رہتا ہے اس کے ابا کو کتنے لوگ جانتے ہوں گے ؟ تو جو چیز نظروں میں آ گئی، بس وہ ریکارڈ پر ہے ، باقی سب چل سو چل۔ مجید امجد نے کہا تھا۔

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

تھامس ایڈیسن کی جگہ عبدالکریم بلب ایجاد کر دیتا تو آج وہ مشہور ہوتا۔ یوری گاگرین کی جگہ ہری چند خلا میں چلے جاتے تو ان کا نام ٹیکسٹ بکس میں ہوتا۔ سٹیو جابز یہاں ہوتا تو سافٹ وئیرز کی دکان کھولے بیٹھا ہوتا اور راشد بھٹی نامی کوئی بھی شخص ایپل کا بانی کہلا سکتا تھا۔ اہمیت بنیادی طور پر آئیڈیے کی ہے، خیال کے نئے پن کی ہے ، ورنہ زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا۔ ا، ب، ج، د روزانہ پیدا ہوتے ہیں، روز مرتے ہیں، کوئی کسی کو نہیں جانتا۔

کچھ آئیڈیے ایسے تھے جو مرنے والوں کے ساتھ نہیں مرے اور رہتی دنیا تک انسانوں کی زندگی بدل گئے ۔ اب جنہوں نے وہ سوچے انہوں نے کچھ ہٹ کر کیا اور ذاتی کامیابی کے ساتھ ساتھ آنے والوں کے لیے کیسی سہولت پیدا کر گئے ۔ پہیے کی ایجاد دیکھی جائے تو بظاہر کیسی معمولی سی بات لگتی ہے لیکن جس کسی نے بھی پہلی بار سوچا کہ یار یہ کمر پہ لادنا بہت ہو گیا اب اسے پہیوں پہ رکھ کے گھسیٹنا چاہیے تو اس نے کتنا بڑا کام کیا۔ پانچ سے دس ہزار سال قبل مسیح کی باقیات میں پہیہ نظر آتا ہے ۔ کمہار کا چاک اس سے بھی زیادہ پرانا ہے ، کتنی بار گزرنے والے اس کے قریب سے گزرے ہوں گے ۔ کوئی ایک ہو گا جو یہی چاک دیکھ کر سوچتا ہو گا کہ اس پر تو اور بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور وہ ہو گئے ہوں گے ۔ جو بھی تھا وہ کوئی شہزادہ آدمی تھا!

ایک اور بہت بڑا آئیڈیا صفر کی ایجاد تھا۔ قدیم عراقی جو اس وقت سمیری ہوتے تھے ، وہ گنتی وغیرہ جانتے تھے لیکن ساڑھے چار ہزار برس پہلے زیرو ان کے کسی کام کا نہیں تھا۔ اسے ہم لوگوں نے ایجاد کیا، جو ادھر کا علاقہ تھا اس میں کوئی براہما گپتا ہوتے تھے ، انہوں نے صفر کو گنتی میں شامل کر کے جدید ریاضی کی داغ بیل ڈالی۔ اب اس شونیے کی تقسیم کا مسئلہ باقی تھا، تو وہ اصول بعد میں سر آئزک نیوٹن نے بنائے اور پھر وہ اذیت شروع ہوئی جس سے ہم لوگ ایف ایس سی کے پرچوں میں گزرتے ہیں۔ قطرے سے گہر ہونے کے سفر میں بہرحال اس تکلیف کی اہمیت مسلم ہے ۔ الجبرے سے کوانٹم فزکس تک اور پھر ابھی کمپیوٹر جو بولی بولتا ہے ، بائنری کوڈنگ، وہ زیرو ون والی، اس سب کا راستہ طے کرنا صفر کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

یہ جس جمہوریت کا شور ہم لوگ مچاتے رہتے ہیں یہ کہاں سے آئی ہو گی؟ لوگوں نے کب سوچا ہو گا کہ ایسا کوئی سسٹم ہو جس میں سب مل کر رہیں اور نمائندے منتخب کریں؟ اس سے پہلے قبائلی نظام ہوتا ہو گا، یا بادشاہتیں ہوتی ہوں گی۔ اس سے بھی پرانے وقتوں میں جو ہوتے تھے تو ان کو تو بھوک ہی مارتی رہتی تھی۔ شکار کریں گے اور پیٹ بھریں گے ، یا بہت ہوا تو کوئی پھل وغیرہ توڑ کے کھا لیے ۔ تو وہ لوگ خانہ بر دوش ہوتے تھے ۔ ایک علاقے میں شکار کم ہو گیا، سامان سمیٹا، سامان بھی کیا، شکار کے پتھر یا جانور کاٹنے کی نوکیلی چیزیں، تو بس وہ لپیٹ لپاٹ کے آگے بڑھ گئے ۔ وہاں کوئی اور ہوا تو اس سے جنگ کی اور جو جیتا وہی سکندر ہو گیا۔ ان سکندروں میں سے جس نے یہ سوچا کہ استاد کھیتی باڑی شروع کرنی چاہئے ، باقاعدہ فصلیں ہوں، اناج اگے تاکہ لوگ ایک جگہ ٹک کر بیٹھیں اور سکون سے رہنے کا معاملہ بنے تو وہ بندہ اصل میں بابائے مہذب سوسائٹی تھا اور تقریباً پندرہ ہزار برس پہلے ہوتا تھا۔ اس نے جب کھیت کھلیان غلہ اجناس وغیرہ اگانا شروع کیے تو لوگوں کو ٹک کر رہنا نصیب ہوا۔ پھر تجارتوں کے خیال آئے ، پھر حکومتیں بنیں، پھر انقلابوں کے دھندے چلے اور پھر ہی سلطانی جمہور کا دور ممکن ہوا۔ تو اے چودہ پندرہ ہزار برس پرانے بابائے جمہوریت، واٹ این آئیڈیا سر جی!

ویکسینیشن ایک بہت شاندار خیال تھا۔ قدیم یونانیوں نے دیکھا کہ ایک مرتبہ اگر کسی بندے کو چیچک ہو جائے تو دوبارہ یہ مرض اسے نہیں ہوتا۔ وہ سمجھ گئے کہ جسم میں کوئی نہ کوئی ایسا نظام ہے جو ان جراثیموں کو پہچان لیتا ہے اور پھر سے حملہ نہیں ہونے دیتا۔ اس وقت تک برصغیر والے اسے سیتلا کہتے تھے اور چیچک سے ڈر کی وجہ سے ایک دیوی جی ہوتی تھیں اسی نام کی، ان کے بت بنائے جاتے اور پوجا ہوتی کہ بس دیوی جی کسی طرح اس بیماری سے بچے رہیں۔ اور تو اور بڑی بوڑھیاں نام بھی نہیں لیتی تھیں، کوئی چیچک کا شکار ہوتا تو کہتیں کہ ماتا آئی ہوئی ہے ۔ تو ابھی ہزار سال پہلے کسی ایک چینی نے سوچا کہ اگر صحت مند آدمی کے جسم پر سے تھوڑی تھوڑی جلد کھرچ کر چیچک کے زخموں کا پانی یا سوکھے کھرنڈ لگائے جائیں تو ہو سکتا ہے وہ بھی اس موذی بیماری سے بچا رہے ۔ اس نے یہ کیا اور دیکھا کہ جس کو زبردستی چیچک کے جراثیم لگائے گئے تھے وہ دو چار ہفتے معمولی بیماری کا شکار ہوا اور جب ٹھیک ہوا تو اسے کبھی سمال پاکس نہیں ہوئے ۔ وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ بھی ایک کہانی ہو سکتی ہے ۔ یہ طریقہ چینیوں سے یورپ آیا اور پھر بہت بعد میں سترہویں صدی کے آس پاس جا کر باقاعدہ ویکسین بنانے کا سوچا گیا۔ اب آج جو ہمارے بچوں کو پندرہ بیس مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں وہ ساری دعا اس چینی بابے کے حصے میں جاتی ہو گی جس نے ویریولیشن (یہ سارا جلد کھرچنے اور جراثیم ڈالنے والا عمل) کا طریقہ سوچا اور ایک آؤٹ آف دا باکس قسم کا خیال بنی نوع انسان کو دے گیا۔ ادھر ہم لوگ ہیں کہ ہم تو یوں الجھے کہ بھولا آپ ہی اپنا خیال والا معاملہ ہے !

ایسے گاجر، مولی، آلو وغیرہ کی طرح زندگی گزارنے کا فائدہ کیا ہوا کہ دم میں دم ہے تو ہے ، نہیں ہے تو آج مرے کل دوسرا دن۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ جو بھی کام کیا جائے اس میں کچھ نیا ہو۔ ایسا نیا جو نوٹس کیا جائے ، جو رجسٹر ہو سکے ، جو بہت سے انسانوں کو فائدہ دے سکے ۔ یہ نام وغیرہ روشن ہونے کا دھندہ بھی معلوم تاریخ میں ہی شروع ہوا ہے ورنہ پہیہ کس نے بنایا، ویریولیشن کس نے شروع کی، لیور کس نے ایجاد کیا، پہلا صابن بنانا کس کو سوجھا، کون جانتا ہے ۔ خیال کو دوام ہے ۔ خیال زندگی ہے ۔ اچھوتا خیال، نیا خیال، نئی سوچ نے دنیا کو بدلا ہے ۔ کچھ بدلنے والے سائنسدان کہلائے ، کچھ رشی ہو گئے ، جوگی ہو گئے ، ولی کہلائے ۔ دونوں کا اپنا اپنا مقام تھا، لیکن آج یہ سب کچھ جو ہمارے آس پاس ہو رہا ہے یہ سب خیال کا کرشمہ ہے ، خیال کی جنت ہے ، جو ہمارا سارا ٹھنڈ پروگرام ہے وہ کسی کے خیال کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ میں تاں کوئی خیال، ہن ملساں نال خیال دے ، میں تاں کوئی خیال!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain