پنجاب یونیورسٹی کا گرلز ہاسٹل


کل ایک اردو ویب سائٹ پر پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کا ذکر پڑھنے کو ملا، جس کو پڑھ کر میں انگشت بدنداں تھی کہ یا اللہ یا تو میں کسی اور گرلز ہاسٹل میں زیر تحصیل رہی یا اس مضمون میں کسی ایسے ہاسٹل کا ذکر ہے جس کا وجود صرف مصنف کے اپنے ذہن میں ہی ہے۔ جس ہاسٹل کا ذکر مصنف نے کیا اس کی لڑکیاں تو ساری ساری رات ہاسٹل سے باہر گزارتی ہیں اور پی سی ہوٹل جا کر شراب پیتی ہیں۔ ہاسٹل میں رہنے والی، تربیت سے عاری لڑکیوں میں ناچ گانا اور بے راہ روی عام ہیں۔ ان باتوں کی توثیق ان سے اصل میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کی تھی اور اس کے بعد مصنف نے ایک پورا مضمون لکھ دیا۔ تبصرے بھی کچھ اس طرح کے تھے کہ آپ نے درست کہا اور آپ نے حق کہا اور جن لوگوں کے یہ تبصرے تھے وہ نہ تو گرلز تھے اور نہ ہی شاید کبھی ہاسٹل میں رہے تھے۔

میرے خاندان میں سوچ کےچند پہلو تو اپنی ہی نوعیت کے تھے۔ ان میں ایک یہ بھی تھا کہ خاندان کے ہر لڑکے اور لڑکی کو زندگی میں ایک مرتبہ ہاسٹل میں ضرور رہنا چاہیے اور اس بارے میں تمام بزرگوں کا اتفاق تھا اور دلائل کی ایک لمبی فہرست کہ بچوں کو ہاسٹل کی زندگی گزارنے سے دنیا داری اور زندگی برتنے کا سلیقہ آ جاتا ہے۔ گھر کے سکون سے ہٹ کر سختی کی زندگی گزارنا، گرمی سردی برداشت کرنا، ساتھیوں سے میل جول، غرضیکہ ہاسٹل سے وابستہ ہر چیز عملی زندگی میں داخلے سے پہلے کی ایک بنیادی تربیت کے طور پر انتہائی ضروری ہے۔

نہ تو میرے پاس انکار کا سوال تھا، نہ ہی احتجاج کا موقع اور نہ ہی اس وقت میرے والدین جس شہر میں مقیم تھے وہاں میرے شعبہ میں تعلیم کا کوئی خاص اچھا انتظام تھا۔ اس لئے میں نے ایف اے کے بعد گریجویشن کے تین سال پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں گزارے۔ ماسٹرز البتہ میں نے گھر سے جا کر ہی کیا کیونکہ والدین لاہور منتقل ہو گئے تھے۔

میرے ہاسٹل کے بارے میں مشاہدات اور تجربات تو چند لوگوں کی تصوراتی اور خیالاتی بے راہ رو دنیا سے انتہائی مختلف ہیں۔ جو مسائل مجھے پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں پیش آئے ان میں نہ تو لڑکیوں کی شراب نوشی شامل تھی اور نہ ہی ناچ گانا۔ ایک برس تین روم میٹس کے ساتھ گزارنے کا بعد مجھ ایک اکیلا کمرہ مل گیا جو گراونڈ فلور پر ہی واقع تھا۔ میں ان چند خوش قسمت لڑکیوں میں سے تھی جنہیں حسن اتفاق سے اس سال ایک اکیلا کمرہ میسر آ گیا ورنہ ہاسٹل میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے وہ کیوبیکل جو ایک لڑکی کی ضروریات کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا وہ دو لڑکیوں کو دیا جاتا تھا۔ اس کمرے میں ایک سے زیادہ پلنگ رکھنے تک کی جگہ نہ تھی اس لئے لڑکیاں زمین پر فوم کے دو گدے بچھا کر سوتی تھیں۔ اسلامک یونیورسٹی والی پابندی تو اس وقت لگائی بھی جاتی تو شاید ناممکن ہوتی کیونکہ اس چھوٹے کمرے میں دو پلنگ تو پورے ہی نہ آتے تھے ان کا باہمی فاصلہ تو مقرر کردہ حد پر رکھنا ناممکن تھا۔ مجھے اس ہاسٹل میں ایک لڑکی ملی جو اس سے پہلے گجرات کے سرکاری ہاسٹل میں رہ چکی تھی اور اس نے بتایا کہ وہاں تو پلنگوں کی کمی کی وجہ سے دو لڑکیوں کا ایک بستر پر سونا لازمی قرار ہے۔ بہرحال میں نے اس ہاسٹل کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ اس کی بات کی تصدیق کر سکتی۔

پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بڑے بڑے صحن تھے جن میں گھاس ناپید تھی اور ان صحنوں کے اطراف میں قطار در قطار بنے کمرےتین منزلوں پر محیط تھے۔

ناشتے میں ایک کچا انڈا، دو کچے توس اور ایک پانی ملے دودھ کی پیالی ہر لڑکی کو حاضری رجسٹر پر درج کرنے کے بعد دی جاتی اور کچن جس میں یہ ناشتہ ہمیں خود بنانا ہوتا تھا۔ اس کچن میں گندے، ان دھلے توے لوہے کی زنجیروں سے چولہے کے ساتھ بندھے ہوتے تھے۔ ان تووں کو سنک تک لے جا کر دھونے کی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ زنجیر آڑے آ جاتی تھی اور ناشتہ بنا لینے کے بعد بلیاں ان تووں اور چولہوں پر لوٹتی تھیں۔

دوپہر کے کھانے میں ہمیشہ سبزی بنتی تھی اور وہ بھی بغیر کسی قسم کے گوشت کے۔ رات کے کھانے میں ہفتہ میں دو مرتبہ چکن بنتا تھا جو کہ ہر لڑکی کو ایک بوٹی فی لڑکی کے حساب سے رجسٹر پر حاضری لگا کر دیا جاتا تھا۔ دوسری مرتبہ طلب کرنے پر صرف شوربہ ملتا تھا۔ البتہ بوائز ہاسٹلز کے کھانے اس کے بالکل برعکس تھے کیونکہ ایک آدھ دفعہ ہاسٹل کے چوکیدار سے جب ہم نے کھانا منگوایا تو وہ بوائز ہاسٹل سے لایا تو اس میں کافی انواع کی ڈشز شامل تھیں۔

دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد بھی میں نے کھانے کے خالی دیگچوں میں بلیوں کو لوٹتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ٹھنڈے پانی کے دو بجلی کے کولرکھانے کے کمرے میں اور ایک کولر ہاسٹل کی بالائی منزل پر تھا جن میں تپتی دوپہروں میں پانی ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا کیونکہ لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کولرز کی پانی ٹھنڈا کرنے کی استعداد کم۔ غسلخانوں کی قطاریں ہاسٹل کے ایک طرف تھیں جن میں سردیوں میں گرم پانی شاذ ہی آتا تھا اور غسلخانوں کے باہر ایک قطار میں پانی کی ٹونٹیاں جن پر طالبات اور کام میں مدد کے لئے آنے والی ماسیاں قطار در قطار بیٹھ کر کپڑے دھو رہی ہوتی تھیں۔ غسلخانوں کی صفائی کے ناقص معیار کا بیان تو میں یہاں کر ہی نہیں سکتی۔

برامدوں میں لڑکیاں صبح سے شام تک ادھر سے ادھر پھرتیں مگر مغرب کے بعد لڑکیوں کا باہر نکلنا ممنوع تھا اس صرف وارڈن کی تحریری اجازت سے ہی باہر جایا جا سکتا تھا۔ اس اجازت نامے میں بھی واپسی کا وقت اور جانے کی وجہ درج کرنا ضروری تھا۔

کمروں میں گرمی اور سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا سوائے ایک پنکھے کے۔ اے سی دوپہر صرف دو گھنٹے کے لئے کامن روم میں چلتا تھا اور اس دوران سب ہی لڑکیاں صوفوں، کرسیوں اور قالین پر چادریں بچھا کر لیٹ جاتی تھیں۔ کڑکتی سردی بھرے جاڑوں میں کچھ لڑکیاں بجلی کا ہیٹر لے آتیں جنہیں وارڈن صاحبہ ایک چکر لگا کر اپنے قبضے میں لے لیتی تھیں۔ شاید پھر کچھ شرائط پر واپس بھی کر دیتی تھیں مگر چلانے کی اجازت ہر گز نہیں تھی۔

دو جاپانی لڑکیاں، کہارو اور یوکو جاپان سے اردو سیکھنے پاکستان آئیں اور انہوں نے بھی اسی ہاسٹل میں قیام کیا مگر بس دو ماہ بعد ہی پے انگ گیسٹ کے طور پر کچھ لوگوں کے ساتھ منتقل ہو گئیں کیونکہ اس ہاسٹل میں رہنا ان کے بس میں نہ تھا۔ کچھ افریقی اور ایرانی لڑکیاں البتہ اسی ہاسٹل میں ہی رہیں۔

آج اتنے برسوں بعد بھی ہاسٹل میں گزارے ان تین سال کے ذکر سے مجھے پھر سے ابکائیاں آ رہی ہیں، جن غسلخانوں کا نقشہ میں نے بیان نہیں کیا، ان کی تصویر میرے ذہن میں گھوم رہی ہے۔ میرا ہاسٹل میں تین سالہ قیام تو ایک بقا کی جنگ کے جیسا تھا۔ شدید تپتی ہوئی گرمی میں یونیورسٹی بس میں کھڑے ہو کر، باقی لڑکیوں کے پسینے کی خوشبو سونگھ کر اولڈ کیمپس سے نیو کیمپس میں واقع ہاسٹل میں واپس پہنچنے کے بعد جماعت میں ملنے والی اسائنمنٹ مکمل کر لینا ہی ایک کافی بڑا کام تھا۔ مگر شاید سرکاری یونیورسٹی کی برائے نام فیس میں یہ سہولیات بھی بہت کافی تھیں۔ ان گزارے ہوئے چند سخت برسوں کے چند فائدے بھی ہوئے اور شاید ہر طرح کے پس منظر سے آنے والی لڑکیوں سے مل کر زندگی برتنے کا کچھ سلیقہ بھی آ ہی گیا۔

مگر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یونیورسٹیوں اور جامعات کے ذکر پر بات کرنے والوں کی تان آخر اخلاقیات سے متعلقہ جھوٹے سچے قصوں پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟ اگر بات کرنا ہی ہے تو لڑکیوں کے ہاسٹل کے انتظامی امور، صفائی کے مسائل، کھانے کے ناقص معیار اور سہولیات کی کریں تاکہ لڑکیاں پڑھائی پر یکسوئی سے توجہ مرکوز کر سکیں۔ اور تمام والدین اس بے فکری سے، کہ وہاں ان کی بیٹی کو صحت اور سہولت کے حوالے سے کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں گی، اپنی بیٹی کو آرام سے بھیج سکیں۔

میرے خیال میں تو ہاسٹل میں رہنے والا ہر لڑکا اور لڑکی کم از کم اتنے با شعور ضرور ہوتے ہیں کہ اخلاقیات سے متعلق مسائل خود حل کر سکیں اور ان کی ذمہ داری قبول کر سکیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim