مسرت احمد زیب کچھ حقائق یہ بھی ہیں!


مسرت احمد زیب صاحبہ کی حالیہ ٹویٹس اور انٹرویو کا جواب ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی صاحب کے قریبی دوست جناب فضل ربی راہی دیتے ہیں۔

سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر آج کل ایم این اے مسرت احمد زیب کا ٹویٹ اور انٹرویو گردش کر رہے ہیں جن میں انھوں نے ملالہ یوسف زئی کے واقعہ کو ڈرامہ قرار دیا ہے۔ میں اس حوالے کچھ حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسرت احمد زیب صاحبہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔ ان کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں۔ ان کی یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ بی بی سی کے لئے گل مکئی کی ڈائری لکھتے وقت ملالہ لکھنا نہیں جانتی تھی۔ اس ڈائری کے لکھنے سے قبل ملالہ سوات کے ایک مقامی اخبار روزنامہ ’’آزادی’’ میں مضامین لکھتی رہی تھی۔ اس وقت میں روزنامہ ’’آزادی‘‘ کا ادارتی صفحہ ایڈیٹ کرتا تھا اور میں نے ہی اس کے مضامین شائع کیے تھے۔ ملالہ نے اپنی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ میں گل مکئی کی ڈائری کی وضاحت پوری صراحت سے کی ہے۔ ڈائری واقعی ملالہ نے نہیں لکھی تھی لیکن بی بی سی کے اس وقت کے پشاور کے بیورو چیف عبد الحئی کاکڑ صاحب اس سے فون پہ بات کرتے تھے اور ملالہ انھیں اپنی ڈائری فون کے ذریعے بتاتی جسے کاکڑ صاحب لکھتے۔ اس بات چیت کی باقاعدہ ریکارڈنگ بھی کی جاتی تھی۔ خیالات ملالہ کے ہیں اور انھیں الفاظ کا روپ کاکڑ صاحب نے دیا تھا۔

مسرت احمد زیب کا تعلق نوشہرہ کے کاکا خیل میاں گان سے ہیں۔ وہ والئی سوات میاں گل عبدالحق جہان زیب کی بہو ہیں۔ یہ والئی سوات کے چھوٹے بیٹے احمد زیب کی بیوہ ہیں۔ ان کے شوہر کو قتل کردیا گیا تھا۔ سوات میں جب حالات خراب تھے تو اس وقت میں نے اپنے ماہانہ رسالہ ’’شعور‘‘ کے لئے مسرت بی بی سے ایک انٹرویو لیا تھا جس میں انھوں نے کچھ سوالات کے جوابات کافی جارحانہ انداز میں دیے تھے۔ اس وقت میرے پاس وہ انٹرویو موجود نہیں ہے ورنہ میں اس کے کچھ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا کہ اس وقت ان کے خیالات کیا تھے اور جب انھیں فوج کی طرف سے دوستانہ توجہ ملنا شروع ہوگئی تو ان کے خیالات کیسے یکسر تبدیل ہو گئے۔ مجھے ان کا ایک جواب بہت اچھی طرح یاد ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سوات میں طالبانائزیشن کے پیچھے ریاستی قوت کا ہاتھ ہے۔ گویا اسے بھی انھوں نے ایک ڈرامہ قرار دیا تھا۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ سوات میں طالبان سے زیادہ مظالم فوج نے ڈھائے ہیں۔

مسرت احمد زیب کے بقول اگر ملالہ کا ڈرامہ باقاعدہ سٹیج کیا گیا تھا تو پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اس ”ڈرامے“ میں فوج بھی ملوث ہے؟ کیوں کہ ملالہ کو علاج کے لئے پشاور فوجی ہیلی کاپٹر میں لے جایا گیا تھا۔ اس کی سرجری بھی ایک سویلین اور ایک فوجی سرجن نے مل کر کی تھی۔ انھیں علاج کے لئے برمنگھم بھی فوج نے ہی بھجوایا تھا۔ اس تمام تر معاملے میں اس وقت کی جمہوری حکومت سے زیادہ تو فوجی انتظامیہ فعال رہی تھی۔ مسرت احمد زیب کے اس بے بنیاد الزام کی زد میں ملالہ کے ساتھ ساتھ فوج اور حکومت پاکستان بھی آتی ہے۔

مسرت بی بی کی یہ بات درست ہے کہ بی بی سی کے نمائندہ نے کئی اسکولوں سے رابطہ کیا تھا کہ انھیں کوئی بڑی عمر کی لڑکی مل جائے جس کے ذریعے وہ سوات میں طالبان کے زیر قبضہ طالبات کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچائیں لیکن اس وقت کسی لڑکی میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ ایسا رسک لیتی۔ اسکول میں زیر تعلیم لڑکیوں کے والدین کسی بھی صورت اپنی بچیوں کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ سارے لوگ طالبان سے ڈرتے تھے۔ اس وقت حق بات کہنے سے بڑے بڑے لوگ ہچکچا رہے تھے۔

مقامی سیاسی رہنما اپنی جان کے خوف سے سوات سے نکل چکے تھے۔ جن لوگوں نے اس وقت مظالم کے خلاف زبان کھولی تھی، انھیں ماردیا گیا تھا۔ کاکڑ صاحب نے ضیاء الدین یوسف زئی سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے میں ان کی مدد کریں۔ ضیاء الدین صاحب نے اپنے اسکول کے گرلز سیکشن کی پرنسپل سے بات کی تو انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کو اس کام کے لئے راضی کرلیا تھا جو عمر میں ملالہ سے بڑی تھی لیکن جب اس کے والد کو پتا چلا تو انھوں نے اپنی بیٹی کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ملک و قوم کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے یا یہ کوئی ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا ہے بلکہ وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ اگر طالبان کو پتا چلا تو وہ انھیں نقصان پہنچائیں گے۔

ضیاء الدین یوسف زئی کی ہمت اور جرات تھی کہ انھوں نے اس مقصد کے لئے اپنی بیٹی کی قربانی دی۔ اگر طالبان کو پتا چلتا کہ گل مکئی کی ڈائری میں لکھے گئے خیالات ملالہ کے ہیں تو یقیناً وہ ضیاء الدین کے خاندان کو نقصان پہنچاتے۔

یہ بات درست ہے کہ ملالہ نے سوات میں عملاً کوئی کام نہیں کیا تھا لیکن سوات کے اس وقت کے حالات اس قدر دہشت ناک اور خوف ناک تھے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے محض آواز بلند کرنا بھی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ میں خود 2006ء سے 2011ء تک سوات میں مقیم رہا تھا۔ وہاں کے ایک کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’’آزادی‘‘ میں سینئیر ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتا تھا۔ اخبار کے ادارتی صفحہ اور میگزین سیکشن کے ادارتی امور کی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ جو خوف اور دہشت اس وقت اہلِ سوات محسوس کرتے تھے، اہلِ وطن کو اس کا اندازہ نہیں۔ سوات کی اس جنگ میں عام بے گناہ لوگوں پر جو ظلم ڈھایا گیا ہے، وہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوسکتا تھا۔ ہم اس وقت صرف آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز یا ان کی روزانہ پریس بریفنگ پر انحصار کرتے تھے۔ رپورٹنگ کرنے پر دو صحافیوں جیو نیوز کے موسیٰ خان خیل اور فوٹو جرنلسٹ قاری محمد شعیب کو دن دیہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انھیں مینگورہ کے نیو روڈ (گرین چوک کے قریب جسے خونی چوک بھی کہا جاتا تھا) میں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ ان کے علاوہ دو صحافی سراج الدین اور عبد العزیز شاہین بھی مارے گئے تھے۔ سراج الدین طالبان کے خود کش حملہ میں شہید ہونے والے ڈی ایس پی جاوید اقبال کی نماز جنازہ پر خود کش حملہ میں جاں بحق ہوئے تھے۔ جب کہ دوسرے صحافی طالبان کے قید میں تھے اور وہ فوج کے فضائی حملہ میں جاں بہ حق ہوگئے تھے۔ سوات میں ایسے حالات میں کوئی مائی کا لعل (چند مستثنیات کو چھوڑ کر) مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتا تھا، ایسے میں ملالہ کی بلند آہنگ لوگوں کو متاثر کر رہی تھی۔

یہ درست ہے کہ ملالہ نے برسر زمین کوئی عملی کام نہیں کیا تھا لیکن اس وقت کا میڈیا گواہ ہے کہ اس نے مختلف فورمز اور نیوز چینلز پر بڑی جرات اور بہادری سے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز بلند کی تھی۔ جب نیوز چینل کا کوئی نمائندہ سوات میں اسکول کی کسی طالبہ سے اس کی تعلیم کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتی اور کہتی کے میرے والدین نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی ہے لیکن ایسے مواقع پہ ملالہ از خود آگے بڑھتی اور کہتی کہ میں بات کروں گی۔ اس کی یہی جرات تھی، اس کی یہی توانا آواز تھی، جس نے اس کی شخصیت کو عالمی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک رول ماڈل کی حیثیت میں ڈھال دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ سوات ریاستی دور سے تعلیم کے شعبے میں بہت آگے تھا اور وہاں پہ کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم پہ کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ والئی سوات ایک آمر ضرور تھے لیکن وہ اپنے عوام سے بہت محبت کرتے تھے اور انھوں نے پوری ریاستِ سوات میں اسکولوں اور کالجوں کا ایک جال بچھا دیا تھا۔ وہ نہ صرف غریب طالب علموں کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے وظائف دیتے تھے بلکہ کوئی طالب علم اگر بیرون ریاست اعلیٰ تعلیم کے لئے کسی یونی ورسٹی، میڈیکل یا انجنئیرنگ کالج میں داخلہ لینا چاہتا تو اس کے تعلیمی اخراجات ریاست برداشت کرتی۔ والئی سوات ایک مشفق بزرگ کی طرح اپنے عوام کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے۔ جب سوات میں طالبان کا ظہور ہوا تو طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی جس کے خلاف ملالہ بات کرنے لگی اور وہ طالبان مزاحمت کی ایک علامت بن گئی۔ اس وقت بہت ساری لڑکیوں نے طالبان کی پابندی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھی تھی لیکن طالبان کی پابندی کے خلاف آواز صرف ملالہ نے بلند کی تھی۔

ضیاء الدین میرے نہایت قریبی دوست ہیں۔ وہ اور ان کی طرح ہم کچھ چند سرپھرے دوست وقتاً فوقتاً سوات میں ہونے والے ظلم و زیادتی اور عام افراد کے ساتھ دونوں فریقوں کے نامناسب اور ہتک آمیز رویہ کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں سوات شورش پر میری شائع ہونے والی کتاب ’’اور سوات جلتا رہا!‘‘ ریکارڈ پر موجود ہے۔

مسرت بی بی نے سوات کے ایک مقامی ویب سائٹ کو پشتو میں انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ملالہ نے اپنے آبائی گاؤں شانگلہ میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا ہے، انھیں یہ علم نہیں کہ شانگلہ میں ملالہ کے نوبل پیس پرائز کی انعامی رقم اور ملالہ فنڈ کے ذریعے ایک بہت بڑا تعلیمی پراجیکٹ زیر تعمیر ہےجس میں یتیم اور غریب بچیوں کو ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک مفت تعلیمی سہولیات حاصل ہوں گی۔ مینگورہ میں بھی کئی تعلیمی پراجیکٹ ملالہ فنڈ کے ذریعے انجام دیے جا رہے ہیں لیکن سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ان کی تشہیر نہیں کی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ضیاء الدین کا آبائی گاؤں ٹوپسین نامی گاؤں ہے اور جب انٹرویو لینے والے نے کہا کہ یہ علاقہ تو ضلع سوات کا حصہ ہے تو انھوں نے پھر بھی اس پہ اصرار کیا۔ انٹرویو لینے والے کو خود بھی صحیح علاقے کا علم نہیں تھا۔ ایسے لوگ جب بزعم خود اصل حقائق بیان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کی کم علمی پر بہت افسوس ہوتا ہے۔

معلوم نہیں مسرت بی بی نے پانچ سال کے بعد حقائق سے پردہ کیوں اٹھایا۔ اگر یہ سارے واقعات ملک و قوم کے خلاف سازش تھے یا یہ پہلے سے بنا بنایا ایک ڈرامہ تھا، تو انھوں نے اس وقت کیوں اس سازش یا ڈرامے سے پردہ نہیں ہٹایا۔ حق اور سچ بات اگر وقت پر کی جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بے وقت کی راگنی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ محض کسی کے اشارے پر کسی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کسی مہذب اور شائستہ انسان کو زیب نہیں دیتی۔ برائے بحث ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ملالہ نے عملاً کچھ بھی نہیں کیا ہے لیکن اس پر قاتلانہ حملے کا کیا جواز بنتا ہے جس کی ذمہ داری طالبان کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی اور اس کے زندہ بچ جانے کی صورت میں اس پر دوبارہ حملے کی بھی دھمکی دی تھی۔

ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اگر کسی کو عالمی سطح پر کسی اچھے کام کے لئے شہرت اور عزت ملتی ہے تو ہم اس میں کیڑے نکالنا شروع کرتے ہیں۔ کوئی اگر ملک و قوم کا سافٹ امیج عالمی سطح پر اُجاگر کرنا چاہے تو ہمیں وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہم شاید اسی میں خوش ہیں کہ دنیا میں ہماری شہرت طالبانوں کے حامی، دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی حیثیت سے ہو۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملالہ ملک و قوم اور مذہب کی بدنامی کی باعث بن گئی ہے تو کوئی مجھے یہ بتائے کہ خدا ناخواستہ کیا ہمارا مذہب اتنا کمزور اور نحیف ہے کہ ایک کم سن لڑکی اسے نقصان پہنچائے گی۔ کیا پاکستان کوئی بنانا سٹیٹ ہے کہ ملالہ اسے زک پہنچانے کی وجہ بنے گی۔ ملالہ نے دنیا بھر میں جہاں بھی بات کی ہے اس نے فخریہ انداز میں کہا ہے کہ وہ پختون ہے، پاکستانی ہے اور مسلمان ہے۔ اس کے بعد اس نے امن اور تعلیم کی بات کی ہے۔ معترضین ذرا پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں یا حالیہ کچھ واقعات پر تعصب کی عینک اتار کر نظر ڈالیں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ شدت پسندی اور نفاق کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔ بہرحال طالبان کی پشت پر جو بھی قوت تھی، اس نے ملالہ پر قاتلانہ حملہ کے ذریعے اپنے کچھ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن جب معاملات اس کے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر اس نے ملالہ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ میری رائے میں مسرت احمد زیب کے حالیہ بیانات اور انٹرویوز بھی اسی پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہیں۔


ملالہ کو سر پر گولی لگی ہی نہیں تھی 

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).