ہمارے ستاروں کی غلطی


دی فالٹ ان آور اسٹارز کا بھلا اور کیا ترجمہ ہو؟ جان گرین صاحب کا یہ ناول جانے کب سے ہمارے پاس پڑا تھا۔ اب کی بار چھٹیوں کے دوران یونہی وقت گزارنے کو چند صفحے پلٹے تو کہانی نے اپنی گرفت میں لے لیا۔

کہانی کا مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکی ہیزل ہے جو کینسر کی مریضہ ہے۔ مرض کی وجہ سے وہ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی، لیکن والدہ کے مجبور کرنے پر کینسر سے متاثرہ افراد کے اجتماع میں شرکت کرنے لگتی ہے۔ یہاں اس کی ملاقات ایک خوش وضح نوجوان آگسٹس سے ہوتی ہے جو محبت میں بدل جاتی ہے۔

ہیزل کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ اسے ایک ناول بہت پسند ہے جس میں ناول نگار نے کہانی ادھوری چھوڑ دی ہے۔ ہیزل اس تجسس میں مبتلا ہے کہ ناول کی پوری کہانی کیا ہو گی۔ آگسٹس بھی یہ ناول پڑھتا ہے اور اسی تجسس میں گھر جاتا ہے۔

دونوں ناول نگار سے ملاقات کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ اس سے مکمل کہانی سن سکیں۔

واضح کرتے چلیں کہ ہمیں صرف ایسی کہانی پسند آتی ہے جس میں تجسس ہو۔ جہاں کہانی میں غم، مار دھاڑ، یا رومانس داخل ہوجائے، وہاں ہماری پڑھنے کی تحریک ختم ہو جاتی ہے۔ اس اصول کے تحت ہمیں ناول فوراً ہی چھوڑ دینا چاہیے تھا، کیوں کہ متذکرہ ناول میں غم بھی ہے اور رومانس بھی، پھر بھی نہ جانے کیوں آخر تک پڑھتے چلے گئے۔

اف، کس قدر خوف ناک مرض ہے کینسر۔ یقینی موت اور ہر روز اس کا اذیت ناک انتظار۔ کہانی میں سے کہیں کہیں امید بھی جھلکتی لیکن بجھی بجھی، پژمردہ۔ بطور قاری ہمیں ان کرداروں سے ہمدردی ہو گئی۔ ہم ان کی زندگی کے لیے کسی معجزے کی دعا کرنے لگے۔ کچھ انہونی ہو جائے اور کسی سطر میں اس موذی بیماری کا علاج دریافت ہو جائے۔ ناول پڑھ کر معلوم ہوا، معجزے حقیقی زندگی میں تو ہوتے نہیں، کہانی کی زندگی میں بھی مشکل ہیں۔

یہ اور بات کہ کہانی کی بنت اس کمال کی تھی کہ رکھنے کو بھی جی نہ چاہے۔ ناول کا انجام اس قدر یقینی لیکن پھر بھی کسی ناقابل یقین واقعے کے انتظار میں پڑھتے چلے گئے۔ شاندار مکالمے، البتہ نوجوان کردار انہیں ادا کرتے ہوئے غیر حقیقی معلوم ہوتے۔ شاید بیماری وقت سے پہلے ہی سمجھ دار بنا دیتی ہے۔

اگر آپ بھی امید اور نا امیدی کے درمیان تنی ہوئی رسی پر چلنا چاہتے ہیں تو یہ ناول پڑھ ڈالیے۔ آخری صفحے تک پہنچتے پہنچتے آپ پہلے سے زیادہ حساس ہو چکے ہوں گے۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood