کیا آمریت روشن خیال اور فائدہ مند ہو سکتی ہے؟


تیسری دنیا جس میں پاکستان لا محالہ شامل ہے، اکثر فیض رساں آمروں Benevolent Dictators کی بات نکلتی ہے اور زور شور سے مباحثہ ہوتے ہیں جس میں بعض آمروں کی تعریف ہوتی ہے اور ہر مسئلہ کے حل کے لیئے اُن کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ ہمیں تو فیض رساں آمر کی اصطلاح ہی اجتماعِ ضدین یا Oxymoron لگتی ہے ،۔جب بھی ہم کسی بھی آمر کی تعریف سنتے ہیں جس میں شاعرانہ رطب اللسانی بھی شامل ہو جائے تو ہمیں احمد فرازؔ کا ایک شعر ہمیشہ یاد آتا ہے:

لگا کے زخم بد ن پر قبائیں دیتا ہے

یہ شہریار بھی کیا کیا سزائیں دیتا ہے۔

اب سے پہلے تو ہم صرف ’فیض رساں آمریت ‘ کا تذکرہ سنتے تھے، لیکن حال ہی میں پاکستان کی ایک ممتاز شاعرہ نے، جوخود آمریتوں کی زیادتیوں کا شکار رہی ہیں ، ایک آمر کو روشن خیال بھی قرار دے دیا ۔ انقلابات ہیں زمانے کے۔ ایک آمر کی روشن خیالی کی تعریف ہی ہماری اس تحریر کا محرک بنی۔جو لوگ کچھ آمروں کو فیض رساں گردانتے ہیں ان کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسی آمریتیں ملکوں یا قوموں کی ترقی، خوشحالی، اور بہبود کے لیئے لازم ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح کردیں کی اس قسم کی آمریتوں میں شہری اور عسکری دونوں ہی طرح کی آمریتیں شامل ہیں ، بلکہ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ ’فیض رساں آمر ‘ کی اصطاح ایک شہری آمریت سے ہی شروع ہوئی۔

فیض رساں آمریت، Benevolent Dictatorship کی اصطلاح اول اول سنگاپور کے سابق وزیرِ اعظم ، ’لی کو آن ‘ Lee Kwan Yew

Lee Kuan Yew

کے طویل دورِ اقتدار میں عام ہونا شروع ہوئی ۔ ان کا نظریہ جس پر انہوں نے عمل بھی کیا، یہ تھا کہ قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیئے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کو نظر اندار کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے اس نظریہ کو تیسری دنیا کے کئی آمروں نے دلیل کے طور پر استعمال کیا اور اپنے اقتدار مضبوط کرنے کے لیے سخت گیری کی۔ کیا آپ اس بات پر حیران ہوں گے کہ ’لی کوآن ‘ کے حمایتیوںمیں، یا ان کو سراہنے والوں میں ایک طرف تو ، ہنری کسنجرؔ، مارگریٹ تھیچرؔ، اور ٹونی بلیئرؔ شامل ہیں ، اور دوسری جانب چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ان کے خیالات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ روسی رہنما بھی ان کی سوچ سے متائثر تھے اور روسی صدر پوٹِن ؔ نے انہیں روس کا اعلیٰ ترین اعزاز بھی عطا کیا ۔

ایک طرف تو دنیاکے قدامت پرست اور سخت گیر رہنما لی کوآن کو سراہ رہے تھے، دوسری جانب دنیا کے اہم ترین معروضی دانشور ان کے نظریات پر سوال اٹھارہے تھے اور تنقید کر رہے تھے۔ اس ضمن میں ہمیں نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیا سین Amartya Sen کے خیالات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ امرتیا سین عصر حاضر کے اہم ترین دانشوروں میں شامل ہیں جو جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ بھارت کے گزشتہ انتخابات میں ہزاروں میل کا سفر کر کے، اسی سال کی عمر میں، بھارتی انتخابات میں وزیرِ اعظم مودیؔ کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ ڈالنے گئے۔ ان کا کہنا تھاکہ جمہوری عمل میں ہر ووٹ اہم ہوتا ہے۔ انہیں یہ بھی خطرہ تھا کہ انتخابات میں مودیؔ کی کامیابی بھارتی سیکولر جمہوریت کو نقصان پہنچائے گی۔ مودیؔ مخالفت میں انہیں سب شتم بھی برداشت کرنا پڑا اور انہیں ایک اہم جامعہ کی چانسلری کو بھی چھوڑنا پڑا ۔ ان کی اہم کتابوں میں ، Argumentative Indian, An Uncertain Glory، اور Development as Freedom، اور Idea of Justice شامل ہیں۔

امرتیا سین نے اپنی اہم کتاب Development as Freedom میں معاشی ترقی کے لیئے جمہوریت اور شہری آزادیوں کو نہایت اہم قرارد دیا ہے۔ اسی کتاب میں انہوں نے ’فیض رساں آمریتوں‘ کے نظریہ کی تردید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ترقی پذیر ممالک میں جمہوریتوں اور بنیادی شہری اور سیاسی آزادیوں کی مخالفت تین سمتوں سے کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پہلا دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ آزادیاں اور حقوق معاشی ترقی اور بہبود کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ یہ خیال جسے سنگاپور کے سابق وزیرِ اعظم لی کوآن کے نام پر، ’لی کا نظریہ ‘ بھی کہا جاتا ہے ، جسے انہوں نے وضاحت کے ساتھ پیش کیا تھا۔۔۔یہ نظریہ جس میں سخت گیر سیاسی نظاموں کے قیام ، اور بنیادی شہری اور سیاسی حقوق کو پسِ پشت ڈالنے کی بات کی گئی ہے ، بہت ہی سطحی اور ناپختہ شہادتوں پر مبنی ہے۔ تفصیلی شہادتوں پر مبنی بین الممالک تقابلی جائزے اس نظریہ کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتے کہ آمرانہ سیاست در حقیقت معاشی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔معروضی شہادتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ معاشی ترقی کے لیئے ہمدردانہ معاشی عوامل کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سخت گیر سیاسی پالیسیوں کی۔‘

Amartya Sen

امرتیا سین دلائل و شواہد کے ساتھ کہتے ہیں کہ’ جمہوریتوں کا فروغ اور استحکام معاشی ترقی کا ایک اہم بنیادی عنصر ہے۔ سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق پر مبنی مباحث اور بیانیے، اقدار کے قیام کے لیئے نہایت اہم ہیں۔ جہاں جمہوریت کی ضرورت پر زور دینا اہم ہے وہیں ان حالات اور عوامل کی حفاظت اور استحکا م کی کوشش بھی اہم ہے جو جمہوری عمل کے پھیلائو کے لیئے ضروری ہیں‘۔

تیسری دنیا میں معاشی ترقی کے لئے جہاں لی کوآن کے سیاسی سخت گیری کے نظریہ پر گفتگوہوتی وہیں لامحالہ مختلف ملکوں میں فوجی آمریتوں کی ضرورت پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے ، جہاں اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان نے بعض عسکری آمریتوں کے دور میں بے مثال معاشی ترقی حاصل کی تھی۔ اس موضوع پر معروضی جامعاتی تحقیق اس نظریہ کو رد کر تی ہے۔

ان میں ایک قابلِ ذکر رپورٹ شاہ رخ خان کا وہ مطالعہ ہے جو The Military and Economic Development in Pakistan کے عنوان سے University of Massachusetts – Amherst میں پیش کیا گیا تھا۔ اس مطالعہ میں دلائل اور شواہد سے ثابت کیا گیا ہے کہ عسکری آمریتوں کے دور میں پاکستان معروضی طور پر خوش حال نہیں ہوا۔ اس مطالعہ میں جنرل ایوب خان، اور جنرل مشرف کے ادوارِ حکومت کو شامل کرتے ہوئے تقریباً پچاس سال پر مبنی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مطالعہ کے اختتام میں لکھا گیا ہے کہ، ’’پاکستان میں بار بار کے عسکری انقلابوں کا جواز، سیاستدانوں میں معاشی انتظامی صلاحیتوں کے فقدان اور کرپشن کو بنایا جاتا ہے۔ ہم نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ معیشت پر عسکریت کا غلبہ سود مند نہیں ہوتا بلکہ پرایویٹ سیکٹر کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شواہد کی بنیاد پر یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ معیشت کا عسکری انتظام زیادہ اہلیت رکھتا ہے یا اس میں کرپشن کی کمی ہوتی ہے۔ شواہد یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت کے عسکری انتظام کے دوران ملک کی سماجی اور طبعی ضروریات پر کم اصراف کیا جاتا ہے۔ عسکری معاشی نظام کے دورانیہ میں غربت اور عدم مساوات بڑھتی ہے ، اور انسانی صورت ِ حال دگرگوں ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہہ یہ بھی ہے کہ عسکری منتظمینِ معیشت کسی سیاسی حکومت کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ ‘‘

ہم امید رکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا معروضات اہلِ فکر کو جمہوریت کے حق میں اور کسی بھی قسم کی آمریت کے خلاف معروضی مطالعہ میں مدد گار ہوں گی۔ پاکستان کی نوزائدہ جمہوریت کے فروٖ غ کی راہ میں اب بھی کئی مشکلات ہیں، جن میں کبھی شہری اور کبھی عسکری ذرائع کی طرف سے شہری آزادیوں پر قدغنیں اہم رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں جمہوری طریقہ پر منتخب سیاستدانوں پر یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمہ وقت صرف اور صرف حقیقی جمہوریت کے پھیلائو کے لیئے کام کریں اور کسی بھی صورت کسی بھی شخصی آمریت کی بھی گنجائش نہ نکلنے دیں، اور اپنے رہنمائوں کو لی کوآن بننے سے روکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).