ذیشان ہاشم ……اردو کی نئی علمی امید


زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ چند سال پہلے مجھے ڈاک میں ایک تحریر موصول ہوئی ۔ اردو زبان کسی قدر اکھڑی اکھڑی سی مگر خیالات صاف اور گہری سوجھ بوجھ کی جھلکیاں موجود تھیں۔ لکھنے والے نے معیشت کے کسی موضوع پر طبع آزمائی کی تھی۔ اردو زبان میں صحافت کرتے ہوئے یہ خوشگوار حیرت کم کم نصیب ہوتی ہے کہ کوئی نوجوان لکھنے والا معیشت پر قلم اٹھائے۔ ہمارے نوجوان عام طور سے سیاست یا مزاح وغیرہ کے موضوعات پر خامہ فرسائی سے لکھنے کا آغاز کرتے ہیں۔ اس تحریر کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ لکھنے والے کا نام ذیشان ہاشم تھا۔ تحریر شائع کر دی گئی۔ خلاف توقع پڑھنے والوں سے بہت اچھا ردعمل ملا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔

تعارف کے خدوخال کچھ واضح ہوئے تو معلوم ہوا کہ ذیشان ہاشم ایک خلیجی ملک میں مقیم ہیں۔ بیرون ملک معیشت کی تعلیم پائی ہے اور پھر ایک روز یہ بھی معلوم ہوا کہ شجاع آباد کے رہنے والے ہیں۔ رجحان طبع جدیدیت کی طرف مائل ہے ۔معیشت کے نئے رجحانات سے پوری طرح آشنا ہیں۔ امرتیو سین سے براہ راست تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ملٹن فریڈمین ، میکس ویبر ، جوزف شمپتر اور ولیم ایسٹرلی کی تصانیف نوک زبان ہیں۔ فریڈرک ہائیک صاحب سے ایسا شغف ہے جیسا محمد حسن عسکری کو فراق گورکھپوری سے تھا۔ ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ معیشت کے ان دیوسائی نشانات سے تعلق خاطر کے باوجود ذیشان ہاشم کو جاوید غامدی صاحب کے مذہبی خیالات کے بارے میں بھی تجسس تھا۔ ایک بہت اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ نوجوان اور پرجوش ہونے کے باوجود ذیشان ہاشم جہاں اشتراکی ، فلسفے اور تاریخی تجربے کے بارے میں رائے دیتے تو اس میں ایسا اعتدال نظر آتا جو معاملات کی فہم سے جنم لیتا ہے۔ یہ تو معلوم ہو گیا کہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں جنم لینے والے ان نوجوانوں سے بہت مختلف ہیں جن کی آنکھ اکیسویں صدی کے پار نہیں جاتی۔ پھر ایک روز یہ راز بھی کھلا کہ سوشلزم کی وادیوں میں پاکوبی کر چکے ہیں۔ محض کتابی معلومات نہیں ، عمل سے گزر کر اتفاق اور اختلاف کے خدوخال دریافت کئے ہیں۔

اردو میں علمی موضوعات پر تصنیف و تالیف کی روایت حیران کن ہے۔ اردو میں علمی نثر کا پودا سرسید احمد خان نے لگایا ۔ ابوالکلام آزاد اور نیاز فتح پوری نے اس کی ٓبیاری کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی ، غلام احمد پرویز اور مولانا وحید الدین خان جیسے قدر آور علما نے اردو زبان کو استدلالی نثر سے مالامال کیا۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے سید علی عباس جلال پوری ، اکبر علی ایم اے ، جمال پانی پتی اور سید سبط حسن جیسے عبقری ہنرمندوں نے علمی مکالمہ ،سیاسی مؤقف اور معاشرتی مباحثے کو زندہ رکھا۔سوچنا چاہیے کہ نصف صدی پہلے نشرواشاعت کے کیا وسائل دستیاب تھے۔ کتابوں کی تعداد اشاعت کیا تھی ۔ برقیاتی ابلاغ ،رسل و رسائی اور ابلاغ عامہ کی جو صورتیں آج دستیاب ہیں بیس برس پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بیچ میں ایک ملال انگیز زاویہ یہ سامنے آیا کہ ماضی میں جو طبقہ اردو پڑھنے والوں کو جدید علوم سے روشناس کرتا تھا اس کی نئی نسل نے انگریزی کی راہ لی۔ اس پر کسی کی مذمت کرنا درست نہیں ۔ سادہ بات ہے کہ اگر عہد حاضر کا علمی مکالمہ انگریزی زبان میں ہو رہا ہے تو ترقی یافتہ لغت میں بات کرنا کہیں زیادہ آسان ہے۔ اقبال نے اسی تناظر میں فارسی شاعری کا انتخاب کیا تھا۔ ترقی یافتہ زبان میں اظہار خیال سے آپ کا اپنا کام بھی کسی قدر آسان ہو جاتا ہے۔ آپ کو ایک کم ترقی یافتہ زبان میں خیالات کی ترجمانی کی دشواریوں سے نجات مل جاتی ہے اور پھر یہ کہ پڑھنے اور سننے والوں کا ایک وسیع حلقہ میسر آتا ہے۔ یہ تو طے ہو گیا کہ لکھنے والے کو زبان کے انتخاب کا پابند نہیں کیا جا سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ اردو کو سمجھنے والے تیس کروڑ سے زیادہ لوگ ہیں ۔ نصف کے قریب ان میں سے ناخواندہ ہیں اور بہت بڑی تعداد میں اردو خواندہ افراد ایسے ہیں جو علمی موضوعات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اختلاف رائے کی ثقافت سے متعارف نہیں ہیں اور علمی تحقیق اور فکری جستجو کی بجائے پہلے سے قائم کردہ مفروضات اور تعصبات کا اثبات پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی بہت ذمہ دار اور دور اندیش دانشور ہی ہو گا جو اس حقیقت کو مدنظر رکھے گا کہ انسانیت کے اتنے بڑے حصے کو علم کے نقشے سے منفک نہیں کیا جا سکتا۔

بہت کم عرصے میں ذیشان ہاشم نے اپنی لغت دریافت کی ہے۔ اپنے لہجے کو صیقل کیا ہے۔ موضوعات کا تنوع بڑھا ہے۔ ان کی علمی تگ و تاز کے تین اہم میدان ہیں ۔ معیشت ،فلسفہ سیاست اور معاشرت۔ وہ معیشت میں کھلی منڈی کی حمایت کرتے ہیں لیکن اسے پتھر کے بت کی طرح پوجتے نہیں ۔ ذیشان ہاشم منڈی کی معیشت سے وسیع تر انصاف کی نہر نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ انفرادی آزادیوں کے بہت بڑے علمبردار ہیں ۔ ان کی تحریروں کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ذیشان ہاشم انصاف اور آزادی کے دو زاویوں کو متوازن کرنے کی مسلسل جدوجہد میں ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ذیشان ہاشم اپنی بے پناہ ذہانت ، فکری توانائی ، ذہنی دیانت داری اور قابل رشک احساس ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر علمی مکالمے میں تخلیقی کردار ادا کریں گے بلکہ انکسار سے پیش گوئی کرتا ہوں کہ ذیشان ہاشم کا قلم اردو زبان کے پڑھنے اور لکھنے والوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہو گا اس سلسلے میں ذیشان ہاشم کی کتاب “غربت اور غلامی :خاتمہ کیسے ہو ” ہمارے دانشورانہ مکالمہ میں ایک بہترین اضافہ ہے جسے معیشت سیاست اور سماجیات کے ہر طالب علم کے لئے پڑھنا انتہائی ضروری ہے –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).