منشی محبوب عالم، ابن انشا اور مبشر علی زیدی


 ابن انشا سے بچپن ہی میں دوستی ہوگئی تھی۔ ان کی ایک تحریر ہماری درسی کتاب کا حصہ تھی۔ برطانیہ کے دورے اور مادام تساؤ میوزیم کا تذکرہ تھا۔ وہ ٹکڑا پڑھ کر کتاب کی تلاش ہوئی۔ آج کل کے بچے ومپی کڈ کی ڈائری پڑھتے ہیں۔ مجھے آوارہ گرد کی ڈائری ملی۔ پڑھتا گیا، ہنستا گیا۔

ابن انشا نے برطانیہ اور دوسرے ملکوں کے علاوہ جرمنی کا احوال بھی اس سفرنامے میں لکھا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سفر میں منشی محبوب عالم کا ایک کلو وزنی سفرنامہ ان کے ساتھ رہا۔ منشی محبوب عالم ایک صحافی تھے جنھوں نے لاہور سے روزنامہ پیسہ نکالا۔ یہ نام اس لیے تھا کہ اس کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ یہ اخبار بہت مقبول ہوا اور بہت سال تک نکلتا رہا۔ 1900 میں منشی صاحب نے یورپ کا دورہ کیا اور وہاں سے چٹھیاں لکھ لکھ کر اپنے اخبار کو بھیجتے رہے۔ بعد میں انھوں نے سفرنامے کو کتابی صورت میں شائع کردیا۔

ابن انشا کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1967 میں یورپ بھیجا تو وہ نئی کتابوں کے بجائے منشی محبوب کا سفرنامہ بستربند میں باندھ کر لے گئے۔ جہاں موقع ملا، وہیں بستر بھی کھول لیا، منشی صاحب کا سفرنامہ بھی۔ آوارہ گرد کی ڈائری کے ایک باب کا عنوان ہی ’’برلن، ہمارا اور منشی جی کا‘‘ ہے۔

 ابن انشا نے لکھا کہ منشی صاحب کے سفرنامے نے انھیں بہت دوڑایا۔ منشی صاحب جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، انھوں نے اس کا نام پتا درج کیا تھا۔ ابن انشا نے مغربی برلن کی ایک لائبریری میں پرانی ڈائریکٹریاں نکلوائیں اور اس وقت تک دم نہ لیا جب تک منشی صاحب کے ہوٹل کا نام نہ دیکھ لیا۔

دوسری چیز جس کی ابن انشا کو تلاش تھی، وہ برلن کے پرانے اخبار برلنر ٹاگ بلاٹ یعنی روزنامہ برلن کا ایک پرانا شمارہ تھا۔ منشی جی نے اپنے سفرنامے میں لکھا تھا کہ وہ اس کے ایڈیٹر سے ملے اور ہندوستان کے حالات پر گفتگو کی۔ ایڈیٹر نے ان کی گفتگو اور پیسہ اخبار کا عکس اپنے روزنامے میں چھاپ دیا۔ انشا جی نے سوچا کہ یہ پرچہ تلاش کرنا چاہیے اور اس کا فوٹو لے کر چھپوانا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے فرینکفرٹ، کولون، بون اور برلن کی لائبریریاں چھان ماریں۔ آخر کسی نے بتایا کہ یہ اخبار مشرقی برلن کی اسٹیٹ لائبیری میں موجود ہے۔

یاد رہے کہ ابن انشا جس زمانے میں برلن گئے تھے، جرمنی دو حصوں میں تقسیم تھا اور برلن کے بیچ سے ایک دیوار گزرتی تھی۔ ابن انشا چونکہ اقوام متحدہ کے ملازم تھے اس لیے انھیں مغربی حصے سے مشرقی برلن جانے کی اجازت مل گئی۔ لائبریری پہنچ کر انھوں نے برلنر ٹاگ بلاٹ کے فائل کی فرمائش کی۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ ان ہی کی زبانی سنیے:

ہمارے منشی جی سات جولائی کو اس کے ایڈیٹر سے ملے تھے۔ اور ان کے بیان کے مطابق دوسرے دن کے پرچے میں پیسہ اخبار کا فوٹو چھپا تھا۔ ہم نے آٹھ جولائی کا پرچہ نکالا۔ اس میں کچھ نہ پایا تو نو جولائی میں جھانکا کہ شاید۔ پھر دس جولائی، گیارہ جولائی، بارہ جولائی، تیرہ جولائی، چودہ جولائی۔ آخر مایوس ہوکر فائل بند کردیا۔ محنت اکارت گئی۔ پیسہ اخبار کا عکس کہیں نظر نہ آیا۔ جی میں طرح طرح کے وسوسے آئے۔ منشی جی نے یونہی تو نہیں اڑا دی تھی۔ احتیاطاً ہم نے سات کا پرچہ بھی دیکھ ڈالا۔ آٹھ، نو، دس کا ایک ایک کالم بہ نظر غائر پھر دیکھا۔ یہ تراشہ ہمیں نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ آخر اس بی بی سے ہم نے کہا، ’’ابھی اخبار لوٹائیے نہیں، کل ہمیں وقت ملا تو پھر آئیں گے۔‘‘

دل میں عجب دبدھا سا تھا۔ سفرنامہ آکر دوبارہ پڑھا۔ اس میں وہی دوسرے دن کا حوالہ تھا۔ تیرہ کو تو منشی جی برلن سے چلے ہی گئے تھے۔ انھیں دھوکا ہوا کیا؟

اگلے روز دیکھنا تو ہمیں ہسٹری کا میوزیم بھی تھا کیونکہ پہلے روز لائبریری میں اتنا وقت لگا کہ میوزیم بند ہورہا تھا۔ لیکن قدم کشاں کشاں لائبریری ہی میں لے گئے۔ اب ہم نے سوچا کہ ٹھہر ٹھہر کر پورے مہینے کا پرچہ دیکھیں گے۔ چودہ کے بعد پندرہ جولائی کے شمارے کے آٹھ صفحے الٹے تھے کہ نویں صفحے پر پیسہ اخبار اور اردو تحریر نظر آئی۔ ہم نے اطمینان کی ایک ٹھنڈی سانس لی۔ منشی صاحب کے متعلق جو ذرا سی بدگمانی ہوئی تھی اس پر افسوس بھی ہوا۔ یہ عکس پیسہ اخبار یوم شنبہ 14 اپریل 1900 کے ادارتی کالم کا تھا۔ سرخی تھی،

’’تعلیم اسلام حکومت انگریزی کی کیسی موید ہے۔‘‘

ابن انشا نے اپنی مہم کے آغاز میں لکھا کہ وہ اس اخبار کا عکس چھاپنا چاہتے تھے لیکن آوارہ گرد کی ڈائری میں یہ عکس موجود نہیں۔ ابن انشا بھول گئے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ اس وقت فوٹوکاپی کی سہولت نہ ہو اور ان کے پاس کیمرا نہ ہو۔ بہرحال ان کی تحریر پڑھ کر منشی محبوب عالم کا سفرنامہ پڑھنے کو جی مچلا۔ کراچی میں برسوں ڈھونڈا لیکن کسی کتابوں کی دکان پر نہ ملا۔ دہلی کی ویب سائٹ ریختہ پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ بس یہی کتاب اس پر دستیاب نہیں۔ اتفاق سے گزشتہ اتوار کو پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے سے اس کی ایک پرانی کاپی مل گئی۔ پہلا صفحہ غائب ہے اس لیے معلوم نہیں کہ کس نے چھاپا اور کب چھاپا۔

سب سے پہلے میں نے برلن کے سفر کی تفصیل پڑھی۔ منشی جی نے برلنر ٹاگ بلاٹ کے ایڈیٹر سے ملاقات کا حال ان الفاظ میں لکھا ہے:

شام کے مقررہ وقت پر برلینر ٹاگ بلاٹ کے دفتر میں پہنچا۔ یہاں اخبارات کے دفتروں کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ جو تار برقی خبریں دم بدم ان دفتروں میں پہنچتی رہتی ہیں، انھیں فوراً چھاپ چھاپ کر دفتر کے باہر بازار میں آویزاں کیا جاتا ہے اور لوگ ان کے پڑھنے کے لیے ہر وقت جمع رہتے ہیں۔ دفتر کے اندر ایک شخص، جو غالباً لوگوں کو ہر قسم کی اطلاع دینے کے لیے ملازم ہوتا ہے، اس نے مجھے ایک کوچ پر بٹھلایا۔ اور خود میرا مطلب پوچھ کر چیف ایڈیٹر صاحب کو بتلانے گیا۔ ڈاکٹر لیوی سن اپنے کمرے سے باہر نکل کر مجھے اندر اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ انگریزی کسی قدر تکلف سے اور فرانسیسی سہولت سے بول سکتا تھا۔ اس وقت اس کے سامنے پروف پڑا ہوا تھا جسے وہ دیکھ رہا تھا، گو اس کے ماتحت نصف درجن سے زیادہ نائب ایڈیٹر تھے۔ اور دائیں ہاتھ کی طرف میز پر ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ کچھ اور کاغذات بھی میز پر بکھرے ہوئے تھے۔ میں نے معذرت کی کہ بلا کسی خاص کام کے میں نے آپ کا ہرج کیا ہے۔ کیونکہ میں روزانہ اخبار نویسی کی مصروفیت سے کسی قدر واقف ہوں۔ ڈاکٹر لیوی سن نے مجھ سے ہندوستان کی سوشل اور پولیٹیکل امور کے متعلق کئی سوالات کیے۔ اور جب اسے معلوم ہوا کہ پنجاب افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے تو پوچھا کہ کیا میری رائے میں ہندوستان کو روس کے حملے کا اندیشہ تو نہیں؟ اور امیر کا میلان کدھر ہے؟ میں نے کہا، روس کے لیے افغانستان سے ہندوستان تک پہنچنا آسان کام نہیں۔ اور چونکہ افغانوں کو روسیوں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، وہ ان کے طرف دار نہیں ہوسکتے۔ پھر ہندو مسلمانوں کی آبادی اور گورنمنٹ سے رعایا کے تعلقات پر گفتگو کی اور جب میں نے سمجھایا کہ کانگریس والے وہی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں جو کسی سلطنت میں فریق مقابل گورنمنٹ (اپوزیشن) ادا کرتا ہے تو اس کا ظن رفع ہوا کہ رعایا سرکار سے ناراض نہیں۔

میرے پاس پیسہ اخبار کا نمونہ موجود تھا۔ جرمن ایڈیٹر اسے دیکھ کر خوش ہوا۔ اور اس کی قیمت کی ارزانی اور مقدار اشاعت، دونوں باتوں کو پسند کیا۔ بلکہ مجھ سے وہ پرچہ لے لیا۔ اور اپنے دوسرے روز کے اخبار میں میری ملاقات کی کیفیت مع پیسہ اخبار کے ایک کالم کے فوٹوگراف کے چھاپ دی۔

میں جون 2014 میں برلن گیا تو میرے پاس فقط ڈھائی تین دن تھے۔ ان میں ایک دن اردو انجمن برلن کی سالانہ تقریب کے نام تھا۔ ایک دن میں نے بیوی بچوں کو میزبانوں کے ہاں چھوڑا اور ٹرین پکڑ کے سیدھا لائبریری پہنچا۔ لائبریرین کو اخبار کا نام بتایا۔ معلوم ہوا کہ یہ اخبار پہلی جنگ عظیم جھیل گیا تھا لیکن ہٹلر کا دور تباہ کن ثابت ہوا اور یہ 1939 میں بند ہوگیا۔

مجھے ابن انشا کی طرح بہت سے پرچے نہیں دیکھنے تھے۔ بس پندرہ جولائی 1900 کا اخبار کھولا اور صفحہ نمبر 9 کو اسکین کروالیا۔ ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ یہ میں تین سال اس لیے چھپا کر بیٹھا رہا کہ میرے پاس منشی صاحب کی کتاب نہیں تھی۔ اس اتوار کو وہ سفرنامہ مل گیا تو پورا دائرہ مکمل ہوگیا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi