افغانستان میں ’بچہ بازی‘ اور ہم جنس پرستوں کی خفیہ زندگی


افغانسان میں ہم جنس پرستی اور ’بچہ بازی‘ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دارالحکومت کابل میں رہائش پذیر ہم جنس پرست ایک خفیہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت میں دو ہم جنس پرستوں نے نیوز ایجنسی اے پی سے گفت گو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خوف کے سائے تلے خفیہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں بتاتے ہیں کہ انہیں کئی مرتبہ مارا پیٹا بھی گیا، انہیں بلیک میل بھی کیا جاتا ہے اور کئی مرتبہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔

ان کے مطابق ان کے ایک دوست زیبی کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا، جب اس کے گھر والوں پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ وہ ایک ہم جنس پرست ہے۔ ان افراد کا کہنا تھا، ’’وہ ہمارے لیے ایک وارننگ تھی۔ تب سے ہم سبھی اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھتے ہیں۔ ہم اپنے جیسے دوستوں کو اپنا اصل نام نہیں بتاتے اور ہمارے رشتہ دار بھی اس عمل سے آگاہ نہیں ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ دیگر ہم جنس پرست مردوں سے ملنے کی کوئی مخصوص جگہ تو نہیں ہے لیکن انہیں ایسے کئی مرد کابل کے اعلیٰ ہوٹلوں میں مل جاتے ہیں۔ چوبیس سالہ نوید (فرضی نام) کے مطابق ایک ایسے ہی ہوٹل میں اس کی ملاقات ایک ’خوبصورت مرد‘ سے ہوئی۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا، جہاں کئی مسلح افراد اس کی حفاظت کرتے تھے، ’’وہ مجھے مسلسل اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن میں وہاں سے فرار ہو گیا۔ یہ میرے لیے ایک تلخ تجربہ تھا، میری جان بھی جا سکتی تھی۔‘‘

رامین (فرضی نام) کے مطابق اپنے موجودہ دوست سے اس کا رابطہ ہم جنس پرستوں کی ایک ویب سائٹ سے ہوا تھا اور تب سے وہ دونوں ایک ساتھ ہیں۔

قانونی طور پر افغانستان میں شادی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا یا ہم جنس پرستی منع ہے۔ ہم جنس پرستی کی سزا پانچ سے بیس برس قید ہے اور اگر اس عمل کی وجہ سے کوئی ایک پارٹنر ہلاک ہو جائے تو موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

 کابل یونیورسٹی میں نفسیات کے لیکچرار خلیل الرحمان سروری کا اس بارے میں گفت گو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنس پرستوں کی مخصوص ضروریات ہوتی ہیں۔ یہ کسی لڑکی سے شادی کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ کئی گھرانوں میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہو جاتی ہے۔ میں ایسے کئی کیس جانتا ہوں جہاں بیوی نے دباؤ میں آ کر خود اپنے شوہر کو قتل کر دیا تھا۔‘‘

افغانستان میں ہم جنس پرستی کی ایک وجہ وہاں ’بچہ بازی‘ کا رجحان بھی ہے۔ افغانستان میں ’بچہ بازی‘ کا رجحان قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ بعض اوقات غریب خاندانوں کے نو عمر لڑکوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ امراء یا بچوں کے پسند کرنے والے افراد ان کو لڑکیوں والے لباس پہناتے ہیں اور ان سے جنسی لطف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رقص بھی دیکھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے لباس میں ان کا ڈانس دیکھنے والے زیادہ تر درمیانی عمر کے مرد ہوتے ہیں۔ نو عمر لڑکے مسلسل اسی شخص کے ساتھ رہتے ہیں، جو ان کو خریدتا ہے۔ اسے ’بچہ باز‘ کہا جاتا ہے۔

افغانستان میں ایسے لوگوں کو کم ہی کوئی سزا دی جاتی ہے۔ ایسے افراد کو اکثر اوقات بازاروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ سر عام گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ’بچہ باز‘ اس وقت تک کسی لڑکے کو ساتھ رکھتے ہیں، جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا۔

قبل ازیں ایسی رپورٹیں بھی موصول ہوئی تھیں کہ پولیس اہل کار بھی ’بچہ بازی‘ میں ملوث ہیں، جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پولیس کی جانب سے بچوں کو باقاعدگی کے ساتھ جنسی غلام بنائے جانے سے متعلق خبروں کی ’مکمل تحقیقات‘ کا حکم دے دیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ طالبان جنسی غلامی پر مجبور کیے جانے والے بچوں کو استعمال کرتے ہوئے خونریز حملے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ طالبان انہی بچوں کے ذریعے گزشتہ دو برسوں کے دوران صوبے اروزگان میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ اشرف غنی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا، ’’ صدر نے صوبہ ارزوگان میں ہونے والے ان واقعات کی مکمل چھان بین کرنے اور سامنے آنے والی تفصیلات کے تناظر میں فوری کارروائی کا حکم دیا ہے‘‘۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ کوئی بھی اور کسی بھی عہدے کا شخص اگر ان واقعات میں ملوث پایا گیا تو اسے افغان اور بین الاقوامی قوانین کے تحت سزا ملے گی۔

افغانستان میں بچوں کو جنسی تفریح کے لیے استعمال کرنے یعنی ’’بچہ بازی‘‘ کی ثقافت بہت پرانی ہے اور اسے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ بچہ بازی میں کم عمر لڑکوں کو اکثر خواتین کے کپڑے پہنا کر مردوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بچے محفلوں کی زینت بنتے ہیں اور بعد میں مرد حضرات ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے تیرہ سے لے سترہ سال تک کے بچے منتخب کیے جاتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق خاص طور پر اروزگان صوبے میں طالبان بچہ بازی کا شکار ہونے والے بچوں سے رابطے کرتے ہیں اور پھر اُنہیں اُنہی لوگوں پر حملے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جنہوں نے ماضی میں ان سے جنسی تفریح حاصل کی ہوتی ہے۔ پولیس کمانڈرز، ججز، سرکاری اہلکاروں اور ایسے حملوں بچ جانے والوں نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا۔

طالبان نے اس طرح کے بچوں کو حملوں کے لیے استعمال کرنے کی خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔ صدر اشرف غنی کے بیان میں مزید کہا گیا کہ “افغانستان میں استحصال کرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان افراد کو سزا دلانے کے لیے میرے بس میں جو ہوا میں کروں گا۔‘‘

(عدنان اسحاق)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).