خیر بمقابلہ خیر


سرمائے کی کلمہ گو آزاد معیشت کو دین ِسود و زیاں کے سوا کوئی نظریہ یا عقیدہ کب گوارا ہوتا ہے۔ سو نظریے سے کھلواڑ کے بعد اب عقیدے کی باری ہے۔ مسروقہ دانائی کے استعمال نے جہان ِ سرمایہ کو یہ آگاہی دی کہ خیر بمقابلہ شر کی بنیاد پر تقسیم گذشتہ زمانوں کی حکمت عملی تھی جس کی چغلی ہر تاریخ کی کتاب کھاتی سنائی دیتی ہے۔ سو عہد ِ حاضر میں خیر بمقابلہ خیراور شر بمقابلہ شر کا اہتمام کیا جانا چاہیے چنانچہ عقیدے اور نظریے دونوں دیناؤ ں میں مسلمات پر حملے کا آغاز بھی اسی اہتمام سے کیا گیا۔ دین اور دنیا میں گھمسان کا بگل بجتے ہی جبہ و دستار نے دوکان ِ فتویٰ سجائی اور دوسری طرف زر و مال نے انسان اور حیوان کے فرق محو کرتی شرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر کرنا شروع کر دیا۔ زر نے ایجادات کا جال پھیلایا اور ہوس کو رواج دیا اور منبر و محراب نے فکر انسانی کو ریورس گئیر میں ڈال کر ایکسیلیٹر پر براجمانی اختیار کی۔

ادھر میلاد و عزا کی رومانویت کی نماز روزہ کے واجبات سے محاذ آرائی کو رواج دیا گیا۔ عقائد کی تشریح و توضیح کے نام پر خاک و نور کے قضیے اُٹھائے گئے۔ مکاتب و مسالک میں تقسیم در تقسیم، جہان ِ فکر ودانش میں لفظ لفظ پر تصادم اور اوامر و نواہی کے ہر نکتے پر چائے کی پیالی میں طوفان یعنی انسانی سماج کو معاشی طبقات کے ستم بھول کر غیر حقیقی گروہ بندیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ ایک نظریہ، ایک ہدف اور سو سو جماعتیں، ایک عقیدہ، ایک مسلک اور ہزار ہزار فرقے۔ کبھی ابن تیمیہ کے مقلدین کو داد تحسین کے جلو میں جہاد پر روانہ کیا گیا اورپھر انہیں جہادیوں کو لعل شہباز قلندروں کے دھمالی دیوانوں کے درمیان بارود کے گھوڑے پر جنت روانہ کیا گیا۔ مغربی کارخانے فتوے گھڑتے ہیں اور مشرق میں اُن کی پیروی میں بے گناہ مرتے مارتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ پیروی مانچسٹر، لندن، پیرس میں بھی گُل کھلاتی ہے لیکن استغاثہ کی کہانی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے ایک آدھ گواہ کو خود سا ختہ قسم کی ضرب لگانا ہی پڑتی ہے۔

آزادی ء رائے اور قومی ذمہ داریاں یہ بھی خیر بمقابلہ خیر کی حکمت عملی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ آج کل ساری سرکاری داخلہ سوشل میڈیا کے بدکے ہوئے گھوڑے کو لگام ڈالنے نکلے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ اس لگام میں غداری اور توہین مذہب کے بعد اب عصمت ِ عدلیہ اور عسکری عظمت کی نکیل بھی شامل کی گئی ہے۔ گذارش ہے کہ سرکاری داخلہ، خارجہ اور دفاع کے اشاعت خانوں میں چھپے حب الوطنی اور مودب شہری ہونے کے سرٹیفیکیٹس کب تک ریاستی بد عملیوں کی پردہ پوشی کریں گے۔ اور کیا اِن پردہ پوشیوں سے ریاستی وجود اور اُس کے حاشیہ برداروں کو ماضی میں کبھی کوئی بھی فائدہ ہوا ہے؟ ہمیں تسلیم ہے کہ جبر کی عمر میں ایک آدھ برس کے اضافے کے ساتھ ساتھ ان پردہ پوشیوں نے ریاست کی یکجہتی کو شدید ترین نقصانات پہنچائے ہیں۔

مملکت خدا داد میں ہر خرابی اور ہر تباہی خدا کی طرف سے نہیں بلکہ اس مملکت کے ناخداؤں کی طرف سے آئی ہے۔ بے چارے عوام کا واحد جُرم ان نا خدایان کے جرائم کے ارتکاب کے وقت خاموشی اور بے حسی ہے لیکن اس جُرم کی سزا کے طور پر ہر خرابی اور ہر تباہی اُنہوں نے بُھگتی ہے۔ جبکہ کار پردازان ِ مملکت نے خدا یا خود ساختہ جلاوطنیوں کے مزے لوُٹے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).